ColumnQadir Khan

سوشل میڈیا غیر ضروری تنازعات کا مرکز

پیامبر
قادر خان یوسف زئی
پاکستان کی تعمیر و ترقی میں میڈیا کا کردار ایک طویل عرصے سے بحث کا موضوع رہا ہے، اور اس حوالے سے بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔ اخبار، ٹی وی چینل، اور دیگر روایتی ذرائع ابلاغ کا کردار ہمیشہ زیر بحث رہا ہے، اور میں اس بارے میں مزید کچھ نیا کہنے سے قاصر ہوں۔ لیکن ایک بات جو وثوق سے کہی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ روایتی میڈیا کے ادارے، خاص طور پر اخبارات، اپنی خبروں کی تصدیق اور سچائی کے حوالے سے ایک مضبوط میکانزم رکھتے ہیں۔ جب بھی کوئی خبر اخبار میں شائع ہوتی ہے، اس کے پیچھے ایک نظام ہوتا ہے، ایک تسلسل ہوتا ہے جس کے ذریعے خبروں کی تصدیق کی جاتی ہے۔ کسی بھی بڑے یا چھوٹے میڈیا ادارے میں بے بنیاد اور غیر مصدقہ خبریں شائع کرنا اتنا آسان نہیں جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ ہر ادارے میں ایڈیٹرز اور نیوز ایڈیٹرز کا کردار ہوتا ہے جو خبروں کو پرکھتے ہیں، ان کی سچائی اور صداقت کا جائزہ لیتے ہیں، اور پھر انہیں عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ وہ ’’ بلٹ ان میکنیزم‘‘ ہے جو ان اداروں کی ساکھ کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے، اور اس کی وجہ سے لوگ روایتی میڈیا پر دوسرے ذرائع ابلاغ کے مقابلے میں زیادہ تر بھروسہ کرتے ہیں۔
ہر خبر کسی نہ کسی ذریعے یا شخص سے منسوب ہوتی ہے، اور اگر وہ خبر غلط ثابت ہوتی ہے تو اس کا ذمہ دار صحافی یا رپورٹر جواب دہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روایتی میڈیا میں خبر دینے والے لوگ ہمیشہ احتیاط برتتے ہیں، اور خبروں کی سچائی پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ یہی ایک ایسا نظام ہے جو روایتی میڈیا کی ساکھ کو محفوظ رکھتا ہے، اور عوام کو کم از کم ایک بنیادی اعتماد فراہم کرتا ہے۔ مگر اس کے برعکس، اکیسویں صدی کا سب سے زیادہ طاقتور ذریعہ ’’ سوشل میڈیا‘‘ اس بارے میں بہت سے سوالات اور خدشات کو جنم دیتا ہے۔ میں کبھی بھی اظہار رائے پر پابندی کی حمایت نہیں کر سکتا۔ لیکن اظہار رائے کے جس طریقے کو سوشل میڈیا نے اپنایا ہے، اس میں کئی مشکلات اور مسائل نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں ہر شخص کو بولنے اور اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے، لیکن اس پلیٹ فارم کا غلط استعمال پاکستان جیسے ممالک میں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔
جہاں روایتی میڈیا کے بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں، وہاں سوشل میڈیا کا استعمال اکثر پروپیگنڈے اور ذاتی مفادات کے لئے کیا جاتا ہے۔ کسی بھی سماجی یا سیاسی مسئلے پر جب سوشل میڈیا پر بحث ہوتی ہے، تو اصل مسئلہ پیچھے رہ جاتا ہے، اور بحث ذاتی حملوں اور توہین آمیز جملوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے اکثر لوگ پڑھے لکھے کہلاتے ہیں، لیکن جس قسم کی زبان اور رویے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، وہ تعلیم یافتہ ہونے کے دعوے کو یکسر مسترد کر دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر گالی گلوچ، جھوٹے الزامات، اور نفرت انگیز مواد کا پھیلا معاشرتی زوال کی ایک نمایاں علامت بن چکا ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جو اپنی تعلیم اور قابلیت کو سچائی اور بہتری کے بجائے نفرت اور جھوٹ پھیلانے میں استعمال کرتے ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر خبریں اور معلومات بغیر کسی تصدیق کے پھیلائی جاتی ہیں۔ یہاں کوئی ایڈیٹر یا ذمہ دار شخص موجود نہیں جو خبروں کی سچائی کا جائزہ لے، اور یوں ہر قسم کی افواہیں، جھوٹے بیانات، اور غلط معلومات عام لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر ہونے والی بحثوں میں اکثر ایسے لوگ شامل ہوتے ہیں جو نہ صرف جذباتی ہوتے ہیں بلکہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ سوشل میڈیا کا مقصد لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور ان کے خیالات کا تبادلہ کرنا تھا، لیکن اب یہ زیادہ تر ذاتی دشمنیوں اور غیر ضروری تنازعات کا مرکز بن چکا ہے۔ جب کسی اہم مسئلے پر بات ہو رہی ہوتی ہے، تو لوگوں کی ذاتی چپقلش اور نظریاتی جنگیں اصل مسئلے کو دھندلا دیتی ہیں۔
یہ صورتحال ہمارے معاشرے کی ایک گہری بیماری کی نشاندہی کرتی ہے،ایک ایسی بیماری جو سچائی اور دیانتداری کی کمی، اور اخلاقی گراوٹ سے پیدا ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو الفاظ کے ذریعے لڑی جا رہی ہے، اور جس میں تعلیم یافتہ افراد کا کردار بنیادی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، یہ وہ تعلیم یافتہ افراد ہیں جو معاشرتی بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کو اگر صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ معاشرتی بہتری کا ایک موثر ذریعہ بن سکتا ہے، لیکن اس کے غلط استعمال سے معاشرتی امن اور ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے عروج کے ساتھ، جہاں اظہار رائے کی آزادی کا ایک نیا باب کھلا ہے، وہیں اس کے استعمال میں بے چینی اور خطرات بھی پیدا ہوئے ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے ہماری معاشرتی روایات، ثقافت، اور اخلاقیات کو متاثر کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر آنے والا بہت سا مواد نامعلوم ذرائع سے ہوتا ہے، جس کی تصدیق کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے نتیجے میں، غلط معلومات، جھوٹی خبریں، اور زہر بھرے بیانات بآسانی عوام تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے میں، کسی بھی غلط خبر یا رویے پر کسی سے پوچھ گچھ کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ جاری کرنے والے کی شناخت صرف ایک ای میل ایڈریس تک محدود ہوتی ہے، جو کہ فرضی بھی ہو سکتا ہے۔ ایک صحافتی ادارے میں، اگر کوئی بے بنیاد خبر یا پروپیگنڈا کیا جائے تو یہ اس شخص کے کیریئر کو تباہ کر سکتا ہے۔ صحافتی اخلاقیات کے تحت، کسی بھی خبر کی سچائی کی جانچ پڑتال ضروری ہوتی ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر، ایسے افراد جو جھوٹی معلومات پھیلانے کے لیے کام کر رہے ہیں، ان کی کوئی بازپرس نہیں ہوتی۔ یہ لوگ آزادانہ طور پر کسی کے بارے میں کچھ بھی لکھ سکتے ہیں، چاہے وہ کتنی ہی توہین آمیز یا جھوٹی معلومات کیوں نہ ہوں۔ جب لوگ جھوٹی معلومات پر یقین کرنے لگتے ہیں تو یہ ان کے فیصلوں، رائے، اور سوچنے کے طریقے کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، معاشرتی عدم اعتماد بڑھتا ہے، اور ایک ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے جہاں لوگ ایک دوسرے پر شک کرنے لگتے ہیں۔
ہمیں اس چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا ضروری ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر موجود مواد کی تصدیق کریں، دوسروں کے ساتھ بات چیت کرتے وقت احتیاط برتیں، اور ایک دوسرے کے خلاف بی بنیاد الزامات لگانے سے گریز کریں۔ سوشل میڈیا کے بے چیک اور بے احتساب استعمال کے نتیجے میں، ہم نے ایک ایسی فضا قائم کر لی ہے جو نہ صرف ذاتی سطح پر بلکہ اجتماعی طور پر بھی خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button