گائے گی دنیا گیت میرے
تحریر: رفیع صحرائی
شاہِ مدینہ شاہِ مدینہ یثرب کے والی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہِ مدینہ شاہِ مدینہ
1950کی دہائی میں بننے والی فلم ’’ نورِ اسلام‘‘ کے لیے لکھی جانے والی تنویر نقوی کی یہ نعت برِصغیر کی پوری فلمی تاریخ میں نعت نگاری کا ایک منفرد سنگِ میل ہے اور 70برس سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی یہ نعت پہلے دن کی طرح مقبول ہے۔ تنویر نقوی کے کریڈٹ پر یہ اتنی بڑی نعت ہے کہ ان کے لیے باقی کسی حوالے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
تنویر نقوی کے آبائواجداد کا تعلق ایران سے تھا۔ وہ ہجرت کر کے لاہور آن بسے تھے۔ لاہور ہی میں 9فروری 1919 کو تنویر نقوی کی پیدائش ہوئی۔ ان کا اصل نام سیّد خورشید علی تھا۔ انہوں نے تمام تر تعلیم اسی شہر میں حاصل کی۔ طالب علمی کے دور سے ہی شعروشاعری سے شغف ہوا اور یہ شوق جنون کی صورت اختیار کر گیا۔ بطور شاعر خورشید علی نے اپنا نام تنویر نقوی اختیار کیا۔ انہوں نے 1938ء میں صرف انیس سال کی عمر میں بطور فلمی شاعر نغمہ نگاری کر کے منفرد ریکارڈ بنایا۔ بیس بائیس برس کی عمر میں تنویر نقوی بہت سے خوب صورت اور مشہور گیتوں کے خالق بن چکے تھے جو ان کی فکری اٹھان کا پتا دیتے تھے۔ ان گیتوں کی تخلیق سے انہوں نے بڑے بڑے فلمی شاعروں کو چونکا دیا تھا۔
آواز دے کہاں ہے دنیا مری جواں ہے
آواز میرے دل میں امید کا جہاں ہے
اور
جواں ہے محبت حسیں ہے زمانہ
لٹایا ہے دل نے خوشی کا خزانہ
فلم انمول گھڑی کے لیے لکھے ان گیتوں نے تنویر نقوی کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ سدا بہار گیت آج بھی سننے والوں کو سحر زدہ کر دیتے ہیں اور وہ ماضی کی یادوں میں کھو کر حال سے بے گانہ ہو جاتے ہیں۔
تنویر نقوی کے ٹیلنٹ کو دیکھتے ہوئے اے آر کاردار نے انہیں لاہور سے بمبئی بلوایا تھا۔ انمول گھڑی کے گیتوں کی شاعری نے کاردار کے حسنِ انتخاب کو درست ثابت کیا تھا۔ ان کا ایک اور مشہور گیت تھا۔
میرے بچپن کے ساتھی مجھے بھول نہ جانا
دیکھو دیکھو ہنسے نہ زمانہ ہنسے نہ زمانہ
کاردار نے بمبئی ( موجودہ ممبئی) میں کُل پچیس فلموں کے گیت لکھے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد انہوں نے شہرت، دولت اور کامیابی کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے بمبئی سے لاہور آنے کو ترجیح دی۔ تنویر نقوی نے پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد کے لیے بھی ایک نغمہ لکھا۔
تنویر نقوی ایک جینوئن شاعر تھے جو جذبوں کو لفظوں میں ڈھال کر ایک مجسم صورت عطا کر دیتے تھے۔
گائے گی دنیا گیت میرے
سریلے انگ میں نرالے رنگ میں
بھرے ہیں ارمانوں میں
یہ گیت سماعتوں سے ٹکراتا ہے تو دل کی دھڑکنیں بے ترتیب کر دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے وقت جیسے منجمد ہو گیا ہے۔ دھڑکنیں ٹھہر گئی ہیں۔ گردشِ دوراں تھم گئی ہے۔
تنویر نقوی کو قدرت نے گداز دل، مترنم دھڑکن اور کومل جذبوں کا شاعر بنا دیا تھا۔ وہ دیومالائی کہانیوں کے مطابق گیتوں کے دیومالائی دیوتا تھے۔ لفظ ان پر اترتے تھے۔ گیت ان کی فکر میں ڈھلتے تو احساسات کی تجسیم ہونے لگتی تھی۔ لفظوں کا ترنم جاگ اٹھتا اور نغمگی اپنے سراپا پر خود ناز کرنے لگتی۔ اردو، پنجابی اور فارسی زبانوں پر تنویر کو مکمل عبور حاصل تھا۔ انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے فلمی شاعری کو ادبی شاعری کے معیار پر لا کھڑا کیا تھا۔ سلیم رضا کی آواز میں گایا تنویر نقوی کا یہ گیت دیکھیے۔
جانِ بہاراں، رشکِ چمن
غنچہ دہن سیمیں بدن
اے جانِ من
جنت کی حوریں تجھ پہ فدا
رفتار جیسے موجِ صبا
رنگیں ادا توبہ شکن
اے جانِ من
جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے لفظوں کی صورت گری تنویر نقوی کا کمالِ فن تھا۔ لفظ ہاتھ باندھے ان کے سامنے کھڑے ہوتے تھے اور وہ انہیں اپنے مصرعوں میں نگینوں کی طرح فِٹ کرتے تھے۔
نورجہاں کی آواز میں گایا ان کا یہ گیت دیکھیے۔
کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے
کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے
تنویر نقوی کی پنجابی فلمی گیت نگاری میں پانچ دریاں کی دھرتی کی خوشبو رچی بسی ہے۔ ان کی شاعری کے بول دلوں کو چھو کر دل کی دھڑکنوں میں سما جاتے ہیں۔ تنویر کی پنجابی شاعری میں والہانہ پن اور جذبوں کے حسین امتزاج نے انہیں کلاسیکل شاعروں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔
جدوں ہولی جیہی لینا ایں میرا ناں
میں تھاں مر جانی آں وے میں تھاں مر جانی آں
یا پھر
چل چلیے دنیا دی اوس نُکرے جتھے بندا نا بندے دی ذات ہووے
ہر دن ہووے ساڈا عید ورگا ہر رات ساڈی شبرات ہووے
انسان دوست رویّے تنویر نقوی کی شاعری کا محور تھے۔ شرفِ انسانی کا ادراک اور فروغ تنویر کا نظریہ فن تھا۔ وہ سماجی قدروں کی پامالی اور انسان کی انسان کے ہاتھوں تذلیل پر رنجیدہ ہو جاتے تھے۔ ان کا دل حساس تھا جو رونے والوں کے ساتھ روتا بھی تھا اور تڑپتا بھی تھا۔ فلم ’’ جواب دو‘‘ کے لیے وہ کہتے ہیں
زندگی جا چھوڑ دے پیچھا مرا
آخر میں انسان ہوں پتھر تو نہیں
زخم جو تُو نے لگایا سی لیا
زہر جو تُو نے پلایا پی لیا
بس یہی کافی ہے جتنا جی لیا
زندگی جا چھوڑ دے پیچھا مرا
1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں جہاں ہمارے فوجی جوانوں نے محاذِ جنگ پر دشمن کی توپوں اور ٹینکوں کے رخ موڑ کر سیسہ پلائی دیوار کا کردار ادا کیا وہاں ہمارے موسیقاروں، گلوکاروں اور شاعروں نے بھی اپنے مجاہدوں اور غازیوں کا لہو گرمانے کے لیے پُرجوش جنگی ترانے تخلیق کیے۔ تنویر نقوی اس وقت شہیدوں کے لہو کو شفق رنگ اجالا قرار دے رہے تھے۔
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
یہ لہو سرخی ہے آزادی کے افسانے کی
یہ شفق رنگ لہو
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
تنویر نقوی نے اپنے فلمی کیریئر میں متحدہ ہندوستان میں 25فلموں کے لیے گیت نگاری کی جبکہ پاکستان میں بیشمار فلموں کے لیے گیت لکھے۔
1950 سے 1970کے فلمی شاعری کے دور کو تنویر نقوی کا دور کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ان کی مشہور فلموں میں تیری یاد، سچائی، کوئل، آواز، محبوبہ، گلناز، شہید، غرناطہ، تڑپ، آغوش، شام ڈھلے، دیدار، پرواز، محفل، شرارے، جبرو، گلفام، انار کلی، موسیقار، جھومر، جواب دو، چنگاری اور دوسری بہت بیشمار فلمیں ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے گیتوں پر نور جہاں، نیلو، صبیحہ خانم، نیّر سلطانہ، سلونی، آسیہ، نغمہ، مسرت نذیر، بہار، دیبا، زیبا، شبنم، رانی اور بابرہ شریف سمیت درجنوں اداکاراں نے اداکاری کے جوہر دکھا کر بامِ عروج پایا۔
یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گی کہ تنویر نقوی کو موسیقی کی بھی پوری سمجھ تھی اور انہوں نے دو پاکستانی فلموں شمیم آراء کی لاکھوں میں ایک اور دوسری فلم تاج محل کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔
فقیرانہ مزاج کا حامل درویش صفت انسان تنویر نقوی عمرِ عزیز کے صرف 52برس ہی اس جہانِ رنگ و بُو میں گزار سکا اور یکم نومبر 1972کو فالج کے باعث ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیا۔
گائے گی دنیا گیت میرے
سریلے انگ میں نرالے رنگ میں