ایرانی وزیرِ خارجہ کا دورہ سعودی عرب: ’عرب ممالک کی غلط فہمی ہے کہ غیر جانبدار رہ کر وہ جنگ سے بچ سکتے ہیں‘

بدھ کے روز ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی خلیجی ممالک کے دورے پر روانہ ہوئے جہاں ان کا پہلا پڑاؤ سعودی عرب تھا۔
ایرانی وزارتِ خارجہ کے مطابق عراقچی کے دورے کا مقصد ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا، استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانا، اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینا ہے۔
یہ دورہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ، اور لبنان پر اسرائیلی حملے کی وجہ سے خطے میں بڑھتی کشیدگی کے باعث کافی اہمیت کا حامل ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ اور ان کے سعودی ہم منصب فیصل بن فرحان کے درمیان ملاقات کے بعد ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل باغائی کا کہنا تھا کہ دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان خطے کی تازہ ترین پیش رفت خصوصاً غزہ اور لبنان کی صرتحال کے حوالے سے ’مفید اور تعمیری‘ گفتگو ہوئی اور دونوں فریقوں نے غزہ اور لبنان میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس سے قبل باغائی نے ایکس پر جاری ایک پیغام میں کہا تھا کہ عراقچی کا دورہ سعودی عرب کا مقصد ایران کی ’سفارتی کوششوں اور خطے کے ممالک کے ساتھ ہم آہنگی‘ بڑھانا ہے۔
عراقچی کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایرانی سیاسی تجزیہ کار عماد ابشناس کا کہنا ہے کہ ایران خطے کے ممالک کو امن کا پیغام دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دورے کا مقصد غزہ، لبنان اور پورے خطے سے متعلق ایک عرب ایران امن منصوبہ تشکیل دینا ہے جس کا مقصد جنگ بندی ہے۔
ابشناس کا خیال ہے کہ خطے کے ممالک کو امریکہ پر دباؤ ڈالنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق امریکہ وہ واحد طاقت ہے جو اسرائیلی جارحیت روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سعودی پولیٹیکل سائنس ایسوسی ایشن کے رکن ڈاکٹر محمد الحربی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس دورے کا مقصد کشیدگی کو کم کرنا ہے۔
الحربی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس وقت امریکہ سمیت تمام فریقین بحرانی صورتحال کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب امریکہ اور بین الاقوامی فریقوں کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے خطے میں امن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
سعودی مصنف اور سیاسی تجزیہ کار سلیمان العقیلی اس امکان کو رد نہیں کرتے کہ ’عراقجی ریاض سے واشنگٹن پر دباؤ ڈالنے کے لیے کہیں کہ وہ اسرائیل کی جانب سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں کردار ادا کرے۔‘
ان کے مطابق سعودی عرب کی بات کا وزن ہے اور اس سے قبل بھی 2006 کی جنگ اور 1982 میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے بعد جنگ روکنے میں کردار ادا کر چکا ہے۔
سعودی عرب روانگی سے قبل ایرانی وزیر خارجہ نے اعلان کیا تھا کہ ان کا ملک ’لبنان میں وحشیانہ حملوں کو روکنے کے لیے خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر ایک اتحاد بنانے کا خواہاں ہے۔‘
عماد ابشناس کہتے ہیں کہ خطے کا سب سے بڑا مسئلہ خطے کے ممالک کے کا مقسم ہونا ہے۔ اگر سب کی رائے متفق ہو جائے تو ہی کسی سفارتی حل کی امید کی جاسکتی ہے ورنہ ہمہ گیر جنگ سب کو جلا دے گی۔‘
محمد الحربی سعودی عرب کی جانب سے کسی بھی قسم کے ممکنہ اتحاد میں شامل ہونے سے انکار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب صرف خلیج تعاون کونسل کے ممالک اور 42 عرب اور اسلامی ممالک کے اتحاد سے منظور اتحاد میں شامل ہوتا ہے۔‘
سلیمان العقیلی کا خیال ہے کہ ایران سعودی عرب کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ اسلامی تعاون تنظیم کو مزاحمت کے محور کے ساتھ کھڑا ونے پر آمادہ کرے۔ لیکن ان کے مطابق اس محور سے خود سعودی عرب کو بھی نقصان پہنچ چکا ہے۔
آٹھ اکتوبر کو روئٹرز نے ایک سینیئر ایرانی ذریعے کے حوالے سے خبر دی تھی کہ تہران نے خلیجی ریاستوں کو مطلع کیا ہے کہ ایران پر حملوں کے لیے اگر ان کی فضائی حدود یا فوجی اڈے استعمال ہوئے تو اس کا ردعمل آئے گا۔
اس سے قبل خلیجی ممالک نے ایران کو یقین دلانے کی کوشش کی گئی تھی کہ ’ہمسایہ خلیجی ریاستیں ایران اسرائیل تنازعہ میں غیر جانبدار رہیں گی۔‘
ابشناس کہتے ہیں کہ اگر عرب ممالک کو لگتا ہے کہ غیر جانبدار رہ کر وسیع جنگ میں شامل ہونے کے خطرے سے بچ سکتے ہیں تو یہ انی غلط فہمی ہے۔