اساتذہ ڈے پر محترمہ مریم نواز سے عاجزانہ گزارش

ایم فاروق قمر
علامہ اقبالؒ نے کہا تھا:
شیخِ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے رُوحِ انسانی
استاد کائنات کے اندر اس ہستی کا نام ہے جو معاشرے میں موجود لوگوں کے اخلاق و کردار کو سنوارنے میں ایک بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اور افراد کو زمین کی پستیوں سے اٹھا کر اوج ثریا میں پہنچا دیتا ہے ۔استاد ہی اصل زندگی کے معنی سکھاتا ہے۔ استاد ایک ایسا رہنما ہے جو لوگوں کو گمراہی سے نکال کر منزل کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ استاد ہی کی بدولت ایک عام انسان ڈاکٹر، انجینئر، جج، جرنیل، بیوروکریٹ اور سیاست دان بنتا ہے۔
جناب حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تبارک تعالیٰ نے علم کی بنیاد پر فرشتوں سے افضل بنایا۔ اللہ پاک نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور حکم دیا کہ لوح پر لکھ ۔ اللہ کے حکم سے قلم نے لوح پر لکھنا شروع کر دیا۔
استاد کو بھی علم اور قلم کی بدولت عزت و وقار نصیب ہوا۔
ہمارے پیارے آقا کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔
قلم ہمیشہ جھک کر لکھا کرتی ہے لہذا ایک اچھا شاگرد بھی ہمیشہ استاد کے سامنے ادب سے اپنے آپ کو جھکا کر رفعتوں کو پا لیتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب جبریل امینٌ سیکھنے کے لیے آتے تھے تو اپنے زانوئے تلمذ بچھا لیتے تھے۔ استاد کے ادب کا یہی قرینہ اور سلیقہ ہے۔ استاد نونہالان وطن کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ استاد کی وجہ سے ایک باشعور اور تعلیم یافتہ معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔ استاد جہالت کے گڑھے سے نکال کر نور کی روشنیوں میں لے جاتا ہے۔ استاد کا ادب کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔ یہ پہلی سیڑھی استاد کو عزت و وقار دئیے بغیر نہیں چڑھی جا سکتی ۔
8استاد اور شاگرد کا تعلق علم و تعلم کی بنیاد پر ہو تا ہے۔ شاگرد استاد سے علم لے کر اپنی منزل کو پاتا ہے ۔گویا استاد ایک سمندر کی مانند ہے اس میں شاگرد غوطہ زن ہو کر گہرائیوں سے موتی، ہیرے، لعل و جواہر اور قیمتی اشیاء نکال کر اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے یا یوں کہیے کہ استاد ایک باغ کی مانند ہے جس کی مہک ہر دم اٹھتی رہتی ہے، اس سے وہی معطر ہوتے ہیں جو اس خوش بو کی اہمیت کو جانتے ہیں ۔شاگر د اس باغ کے پھول ہوتے ہیں جس سے معاشرے میں خوش بو پھیلتی ہے۔ معاشرے کی فضا علم کی خوش بو سے معطر ہو کر قلب و جگر کو سکون اور ٹھنڈک پہنچاتی ہے۔ شاگرد استاد کی قابلیت کا مظہر اور اس کا جو ہر خواص ہو تا ہے استاد کے متعلق سکندر اعظم نے کہا تھا کہ استاد کا مقام میری نظر میں والدین سے زیادہ ہے کیونکہ والدین مجھے زمین پر لانے کا سبب بنے جب کہ استاد نے مجھے آسمان کی وسعتوں میں پہنچا دیا۔ استاد کو روحانی باپ کا درجہ حاصل ہے۔ استاد نہ صرف بچوں کو تعلیم و تربیت دیتا ہے بلکہ وہ آنے والے وقت کو سامنے رکھتے ہوئے ملکی ضرورت کے مطابق ایک سوچ پیدا کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ استاد تعلیم کے ساتھ ساتھ ملکی تاریخ اور ثقافتی روایات کو بھی طلبا کے ذہن نشین کرانے کی کامیاب کوشش کرتا ہے۔ مسلم معاشرے میں استاد کو بہت زیادہ عزت کا حقدار بتایا گیا ہے۔ وقت کے بہت بڑے خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے مامون الرشید اور امین الرشید تھے، دونوں ایک بار استاد امام نسائی کی مجلس سے اٹھے تو دنوں استاد کو جوتے پکڑانے کیلئے لپکے۔ دونوں میں اس بات پر تکرار بھی ہو گئی۔ استاد کی عزت کرنے والے لائق بچوں نے فیصلہ کیا کہ دونوں ایک ایک جوتا اپنے استاد کو پکڑائیں گے۔ جب خلیفہ وقت کو معلوم ہوا تو اس نے امام نسائی کو بلایا اور نہایت عزت و احترام سے پوچھا کہ آپ بتائیے اس مملکت میں زیادہ عزت والا کون ہے۔ امام نسائی نے فرمایا کہ بے شک زیادہ عزت کے حقدار خلیفہ وقت ہیں۔ جواب میں ہارون الرشید نے کہا سب سے زیادہ عزت والا تو وہ ہے جس کے جوتے اٹھانے کیلئے خلیفہ کے بیٹوں میں جھگڑا ہونے لگے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے کہا امام صاحب بے شک آپ ہی زیادہ عزت کے حقدار ہیں اور اگر آپ نے میرے بیٹوں کو اس کام سے روکا تو میں آپ سے ناراض ہو جائوں گا۔ استاد کی عزت کرنے سے میرے بچوں کی عزت کم نہیں ہوتی بلکہ اور بڑھ جاتی ہے۔ اور ایک تاریخی فقرہ کہا کہ کوئی شخص کتنا ہی بڑا مرتبہ حاصل کر لے ، بڑا عالم بن جائے، دنیا کی نظر میں معتبر ہوجائے وہ کبھی بھی اپنے والدین، استاد اور قاضی کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتا۔ بقول شاعر:
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
اشفاق احمد اپنی کتاب زاویہ کے اندر روم میں قیام کے دوران پیش آنے والا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار وہاں اُن کا ٹریفک چالان ہوا اور اُنہیں بارہ آنے جرمانہ ادا کرنے کی سزا دی گئی، بوجوہ وہ جرمانہ ادا کرنے سے قاصر رہے تو اُنہیں عدالت میں حاضر ہونا پڑا۔ جج اُن سے سوال کرتے رہے مگر اُنہیں جواب دینے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ بس وہ یہی بول پائے کہ جی میں یہاں پردیسی ہوں۔ اُس پر جج نے مجھ سے پوچھا آپ کرتے کیا ہیں؟ میں نے بڑی شرمندگی سے سر جھکا کر جواب دیا کہ جی میں ٹیچر ہوں۔ یہ سننا تھا کہ جج اپنی کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور سب کو حکم دیا کہ ’’ اے ٹیچر ان دی کورٹ‘‘۔ سب احترام میں اپنی کرسیوں سے کھڑے ہوگئے۔ اشفاق احمد کہتے ہیں کہ پھر جج نے انہیں یوں مخاطب کیا جیسے بڑے ہی شرمندہ ہوں۔ اِسی شرمندگی میں جج نے کہا کہ ’’ جناب آپ استاد ہیں، ہم جو آج جج، ڈاکٹر، انجینئر جو کچھ بھی بنے بیٹھے ہیں وہ آپ اساتذہ ہی کی بدولت ہی ممکن ہو پایا ہے، مجھے بہت افسوس ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو مدِنظر رکھ کر آپ کو چالان ادا کرنا ہوگا کیونکہ بہرحال آپ سے غلطی ہوئی ہے مگر میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں‘‘۔
بقول شاعر:
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
اشفاق احمد نے مزید لکھا کہ اُس روز وہ اِس قوم کی ترقی کا اصل راز جان گئے تھے۔
آج استاذ کی وہ عزت نہیں کی جاتی ہے جو پہلے کبھی ہوا کرتی تھی۔ جب تک ہم نے استاد کو عزت دی۔ ہمارے اندر والدین اور معاشرتی قوانین کا احترام برقرار رہا ہم نے دنیا پر حکمرانی کی۔ آج ہمارے معاشرے میں استاد کا وہ مقام و مرتبہ نہیں جو دنیا کی مہذب اقوام عالم اپنے استاد کو دیتی ہیں۔ امریکہ میں استاد کو وی آئی پی پروٹوکول حاصل ہے۔ جرمنی میں استاد کو کرسی پیش کی جاتی ہے۔ جاپان میں حکومت کی اجازت کے بغیر کسی استاد کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا ۔ ابن انشاء ٹوکیو کی یونیورسٹی میں جاتے ہیں تو طلبہ استاد کے احترام میں ان کی سائے سے اچھل کر گزرتے ہیں تاکہ استاد کی بے ادبی نہ ہو۔ آج ہمارے ہاں معمولی بات پر طلبہ کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی صورت میں استاد کو دھمکایا جاتا ہے اور اس کا جینا دو بھر کر دیا جاتا ہے ۔ استاد کو قوم کا محسن بھی کہتے ہیں۔ استاد خواہ کسی پرائمری سکول کا ہی کیوں نہ وہ مکمل عزت کیے جانے کا حقدار ہوتا ہے۔ استاد کچھ نہیں مانگتا ہے مگر ایک استاد عزت ضرور چاہتا ہے۔
پورے پاکستان کے لوگ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور ان کی جانشین پنجاب کی آئرن لیڈی محترمہ مریم نواز صاحبہ سے بڑی عقیدت محبت رکھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ پنجاب کے مسائل کا حل صرف اور صرف مریم نواز صاحبہ حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں بلکہ ان کو یقین ہے وہ ان کی توقعات پر پورا اتریں گی۔
محترمہ مریم نواز صاحبہ اپنے والد میاں نواز شریف اور خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پنجاب کی عوام کی خدمت کرنے میں دن رات تگ و دو کر رہی ہیں اور اسی وجہ سے انہیں پنجاب کی آئرن لیڈی کہا جاتا ہے۔ میاں نواز شریف صاحب جب بھی اقتدار میں آتے ہیں وہ لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور مہنگائی کو کنٹرول کرتے ہیں اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں، اسی لیے نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان کے لوگ ان سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ عوام کی خدمت کرنے کی سعادت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے اور ان میں سے ایک نام محترمہ مریم نواز صاحبہ کا بھی ہے۔ اساتذہ ڈے پر قوم کے معماروں کو محترمہ مریم نواز صاحبہ سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں، میری چند ایک عاجزانہ تجاویز ہیں اور امید کرتا ہوں کہ وہ محترمہ مریم نواز صاحبہ کو پسند آئیں گی اور وہ ان پر غور کریں گے۔
1۔ آج کل اساتذہ اپنے مطالبات کے حق میں تعلیمی بائیکاٹ کئے ہوئے ہیں، ان کے جائز مطالبات پر غور کیا جائے۔
3۔ جناب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ ایک نوٹیفکیشن جاری کریں کہ اساتذہ کے جو دوسرے محکموں میں کام کاج کے سلسلے میں جو مسائل پیش آتے ہیں ان کو ترجیح بنیادوں پر حل کیا جائے۔
3۔اساتذہ کرام کا ایک مطالبہ لیو انکیشمنٹ کا بھی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وزیراعلیٰ بڑی دور اندیش ہیں اور وہ اس مسئلے کو اساتذہ کے ساتھ میٹنگ کر کے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں گی۔
4۔ سکولوں کو این جی اوز کو دینے کی بجائے کوئی اور لائحہ عمل مل بیٹھ کر طے کیا جائے تاکہ اساتذہ کا مستقبل بھی محفوظ رہے اس کے علاوہ اگر ایک دو سال اساتذہ کی بھرتی نہ بھی کی جائے تو کوئی حرج نہیں۔
5۔ حکومت جو بجٹ مفت کتابوں پر خرچ کر رہی ہے اس کو ختم کر کے بچت کی جائے۔
6۔ حکومت مخیر حضرات سے اپیل کرے کہ وہ اپنے اپنے علاقے کے سکولوں سے بلڈنگ کے حوالے سے تعاون کریں۔
7۔ سرکاری سکولوں میں بچوں کا فروغ تعلیم فنڈ 20روپے ہے اگر بڑھا کر 50روپے کر دیا جائے تو اس سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ حکومت کو این ایس بی سکولوں کو نہیں دینا پڑے گا اور سکول انتظامیہ فروغ تعلیم فنڈ سے اپنے سکول کے اخراجات کو پورا کرنے کے قابل ہو سکے گی۔ یہ رقم زیادہ بھی نہیں ہے اور غریب آدمی یہ فنڈ بآسانی سکول میں ادا کر سکے گا۔
8۔ حکومت سے عاجزانہ اپیل ہے وہ سرکاری سکولوں کو پرائیویٹ نہ کرے بلکہ اس سے پڑھے لکھے لوگوں روزگار ختم ہو جائے گا۔
مجھے امید ہے جس طرح پنجاب کی آئرن لیڈی محترمہ وزیراعلیٰ مریم نواز صاحبہ نے صوبے کی خوشحالی کے لیی دیگر بہت اقدامات کیے ہیں وہاں قوم کے معماروں کے مطالبات پر بھی نظر ثانی کریں گی ۔