ملکی سیاست کا شہ سوار

تحریر: امتیاز عاصی
مجوزہ آئینی ترامیم کے موقع پر جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان نے حکومت کی طرف سے پیش کی جانے والی آئینی ترامیم سے اتفاق نہ کرکے سیاسی بصیرت کا مظاہر ہ کرکے اپنا سیاسی قد کاٹھ بڑھا لیا ہے جس کی ملک کا ہر مکتبہ فکر ستائش کر رہا ہے۔ غالبا ملک کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کسی حکومت کو قانون سازی کے موقع پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ دراصل حکومت نے آئینی ترامیم میں عجلت کا مظاہرہ کیا اور سیاسی جماعتوں سے مشاورت کئے بغیر آئین میں من پسند ترامیم کی کوشش کی جس میں اسے کامیابی نہیں ہو سکی۔ حکومت شائد اس بات سے لاعلم ہے ملک میں مارشل لاء ہو تو بھی جوڈیشری کو ایگزیکٹو پر برتری حاصل ہوتی ہے۔ پہلے تو حکومت نے ایوان کے ارکان کو مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے سے لا علم رکھا اور انہیں مسودہ دینے میں لیت و لعل سے کام لیا۔ وفاقی وزیر قانون کا بیان تھا انہیں رات پونے دو بجے آئینی ترامیم کو مسودہ فراہم کیا گیا۔ حکومت کے اس اقدام کے خلاف سیاسی جماعتوں، وکلا برادری اور سول سوسائٹی میں زبردست رد عمل پایا جا رہا تھا۔ اللہ کے بندوں آئین میں ایک بات واضح کر دی گئی ہے عدلیہ کی آزادی پر کسی قسم کی قدغن نہیں لگائی جا سکتی لیکن حکومت نے ہوم ورک کئے بغیر عدلیہ پر شب خون مارنے کی کوشش کی۔ پہلے تو سیاست دانوں کو طاقت ور حلقوں سے شکایت رہتی تھی وہ جمہوریت پر شب خون مارتے ہیں مگر اس دفعہ سیاست دانوں نے عدلیہ پر شب خون مارنے کی کوشش کی جس میں اسے کامیابی نہیں ہو سکی۔ حکومت نے پچاس سے زائد آئینی ترامیم کو مسودہ ایوان میں منظوری کے لئے پیش کرنا تھا جس کی منظوری کی صورت میں عدلیہ کے پاس کیا رہ جاتا۔ ملک میں عدلیہ ایک ادارہ ہے جو عوام کی آخری امید ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں پر بیک وقت ملک کے مختلف شہروں میں مقدمات درج کئے گئے اگر عدلیہ نہ ہو تو ایسے سیاسی کارکن عمر بھر کے لئے جیلوں میں چلے جائیں۔ ماسوائے دنیا کے چند چھوٹے چھوٹے ملک جن کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے جہاں عدلیہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ورنہ تمام ملکوں میں عدالت آزادی سے کام کر رہی ہیں۔ سچ تو یہ ہے آئینی ترامیم کے مسودے سے مسلم لیگ نون کے بعض ارکان کا بھی اتفاق نہیں تھا۔ ہمیں وفاقی وزیر قانون کے تازہ ترین بیان پر حیرت ہوئی جس میں انہوں نے عسکری قیادت کے حوالے سے کہا ہے ملک میں نظام عدل کی کمزوری کی وجہ سے دہشت گردی ختم نہیں ہو سکی ہے۔ سوال ہے جب حکومت جوڈیشری پر ایگزیکٹو کو برتری دلانے کی خواہاں ہو تو ایسے میں عدالتیں کمزور نہیں تو کیا مضبوط ہوں گی؟ اس وقت دہشت گردی کے مقدمات میں موت کی سزا کے منتظر دو سو سے زائد قیدی ہائی سیکورٹی جیل ساہیوال میں ہیں۔ حکومت نے انہیں پھانسی دینے کی بجائے مہمان بنا کر رکھا ہے تو ایسے میں دہشت گردی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے۔ مجوزہ آئینی ترامیم میں ملک کی سب سے بڑی عدالت کے متوازی عدالت قائم کرنے کی صورت میں ملک کی اعلی ترین عدالت برائے نام رہ جاتی اور حکومت آئینی مقدمات کو نپٹانے کے لئے من پسند چیف جسٹس تعینات کرکے اپنی مرضی کے فیصلے لے سکتی تھی۔ سوال ہے اٹھارویں ترمیم میں اعلیٰ ترین عدالتوں کے چیف جسٹس کا تقرر سینیارٹی کی بنیاد پر کرنے کو کہا گیا ہے تو اس آئینی شق کو حذف کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی؟ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی حکومت پہلے بھی رہ چکی ہیں ان کے دور میں کتنے چیف جسٹس کا تقرر کیا گیا لیکن اس وقت حکمرانوں کو اٹھارویں ترمیم کے برعکس چیف جسٹس کے تقرر کا خیال کیوں نہیں آیا۔ دراصل سیاسی حکومتیں راست باز ججز سے ہمیشہ خائف رہتی ہیں۔ اگر ان کے پسندیدہ جج ہوں تو انہیں من مانی سے کوءی نہیں روکتا۔ عجیب تماشا ہے ایک طرف ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کی گردان کرنے والوں کو متوقع چیف جسٹس آف پاکستان منصور علی شاہ سے کیوں خوف آرہا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا ملک اسی لئے ترقی نہیں کر رہا ہے۔ جن قوموں میں انصاف کا فقدان ہو وہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں۔ چلیں حکومت ججز کی مدت ملازمت میں توسیع دینے سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ درحقیقت ججز کی مدت ملازمت میں توسیع کا مقصد چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کے مدت ملازمت کے دوراینے میں اضافہ مقصود تھا۔ حکومت تمام ججز کی مدت ملازمت میں اضافے کی آڑ میں اپنا اصل مقصد کرنے کی خواہاں تھی لیکن جے یو آئی کے امیر کے عدم اتفاق سے حکومتی خواب چکنا چور ہو گئے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے قومی اسمبلی جو جے یو آئی اور پی ٹی آئی کا موقف ایک ہوگا اگر ہم آئینی ترامیم کے مسودے سے اتفاق کر لیتے تو قوم سے اس سے بڑی خیانت اور کوئی نہیں ہو سکتی تھی۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے اب حکومت کہہ رہی ہے ہمارا یہ مسودہ نہیں تھا اگر نہیں تھا تو کیا وہ کھیل تھا؟ بعض حکومتی حاشیہ بردار صحافیوں نے آئینی ترامیم کے حوالے سے عمران خان اور جے یو آئی کے امیر کے درمیان بات چیت کے حوالے سے غلطی فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جس میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم ماضی ہر نظر ڈالیں تو مسلم لیگ نون کی حکومت میں جب نواز شریف وزیراعظم تھے سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا اور ایک راست باز چیف جسٹس آف پاکستان کو دبائو میں لانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ نواز شریف کے چھوٹے بھائی کی وزارت عظمیٰ کے دور میں عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے جس میں حکومت کو وقتی طور پر شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ وکلا نے آئینی ترامیم کے خلاف جمعہ کو لاہور میں کل پاکستان وکلاء کنونشن طلب کیا ہے تاکہ عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ اگرچہ حکومت نے آئینی ترامیم کے معاملے میں وقتی طور پر پسپائی اختیار کی ہے تاہم وہ عدلیہ پر کی آزادی کو سلب کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان آئینی ترامیم کے آگے دیوار بن کر پاکستانی سیاست کے شہ سوار بن گئے ۔