26 ویں آئینی ترمیم کیوں ؟

تحریر : روشن لعل
مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم جسے 14اور 15ستمبر کو منظور کرانے کا منصوبہ سامنے آیا تھا، اس کا منظور ہونا تو دور کی بات اسے ابتدائی کارروائی کے لیے کابینہ کے سامنے پیش بھی نہ کیا جاسکا۔ اس مجوزہ ترمیم کو منظور کرانے کا حکومتی منصوبہ کیوں ناکام ہوا، اس معاملے میں اندر کی باتوں سے باخبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگ بہت دور کی کوڑیاں پیش کر رہے ہیں۔ اندر کی اصل حقیقت تو اندر والوں کو ہی معلوم ہوتی ہے لیکن مجوزہ 26ویں ترمیم سے متعلق باہر آچکی باتیں جب اندرونی تہہ خانوں تک ہی محدود تھیں اس وقت بھی اپنے باہوش ہونے کا احساس دلانے والے لوگوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ اس ترمیم کا مرکز و محور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کی طے شدہ آئینی تاریخ، 25اکتوبر2024ء ہے، جسے مسلم لیگ ن کی حکومت کسی بھی قیمت پر ہفتوں اور مہینوں نہیں بلکہ ایک دو برس تک آگے لے کر جانا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ ن کی منشا کا نا ایک نئی آئینی ترمیم کے بغیر پورا ہونا ممکن نہیں ہوسکتا ، لہذا حکومت نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ میں توسیع کی غرض سے 26ویں آئینی ترمیم منظور کرانے کی راہ ہموار کرنے کا آغاز کیا۔ مسلم لیگ ن کی وہ حکومت جسے اپنا وجود قائم رکھنے اور عام قانون سازی کے لیے بھی مانگے تانگے سے لی گئی سادہ اکثریتپر انحصار کرنا پڑتا ہے ، وہ اگر اپنے مفاد میں کوئی آئینی ترمیم کرنا چاہتی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ پارلیمنٹ میں درکار دو تہائی اکثریت حاصل کیے بغیر یہ مفاد حاصل کرنا ممکن نہیں ہو سکتا۔ مسلم لیگ ن کے لوگوں نے اس ترمیم کی راہ ہموار کرنے کے لیے جاری کوششوں کے دوران یہ تاثر دیا کہ دو تہائی اکثریت کا بندوبست کر لیا گیا ہیمگر انجام کار یہ بات سامنے آئی کہ دو تہائی اکثریت پانے کے لیے پیپلز پارٹی کے ساتھ تو اس کی کچھ باتیں مان کر اور کچھ اپنی منوا کر معاملات طے کر لیے گئے تھے لیکن مولانا فضل الرحمان کے معاملے میں کامیابی حاصل نہ کی جا سکی۔ گو کہ مسلم لیگ ن، مجوزہ آئینی ترمیم منظور کرانے میں فی الوقت ناکام نظر آرہی ہے لیکن لگتا ہے اس کے لوگوں نے امید کا دامن اب بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا کیونکہ وہ یہ تاثر دینا شروع ہو گئے ہیں کہ اس مرتبہ 25اکتوبر سے پہلے دو تہائی اکثریت حاصل کرنا عین ممکن ہے۔
مسلم لیگ ن ، مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم منظور کرانے کی پہلی کوشش ناکام ہونے کے باوجود بھی ناامید نہیں ہوئی۔ ان کے پرامید ہونے کی ایک نشانی یہ ہے کہ قبل ازیں انہوں نے مجوزہ آئینی ترمیم کے جس مسودے کو انتہائی خفیہ رکھا اب اسے برسر عام کر دیا ہے۔ جو مسودہ منظر عام پر آیا ، اس کے متعلق بلاول بھٹو زرداری نے یہ کہا کہ اس میں کچھ ایسے نکات شامل ہیں جن پر انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ یہ بات کرتے ہوئے بلاول نے ان نکات کی نشاندہی کرنا مناسب نہیں سمجھا جن پر ان کے تحفظات ہیں۔ مجوزہ آئینی ترمیم کا جو مبینہ مسودہ سامنے آچکا ہے اس میں بہت کم ایسی باتیں ہیں جنہیں ہر صورت میں ناقابل قبول قرار دیا جاسکے۔ اگر مجوزہ ترمیم کے مسودہ میں سے قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ میں توسیع سے وابستہ مواد کو نکال دیا جائے تو مسلم لیگ ن کے لیے اس مسودے سے زیادہ بے وقعت شے کوئی اور نہیں ہوگی۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو اس کے لوگوں کے رویے سے یہ ظاہر ہو رہاہے کہ انہیں قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بنے رہنے یا نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ان کے لیے ترمیم کے مسودے میں ان نکات کا موجود ہونا انتہائی اہم ہے جن کی منظوری سے اس آئینی عدالت کا قیام ممکن ہو جائے گا جس کا تصور بے نظیر بھٹو شہید نے پیش کیا اور جس کی تشکیل کا عہد میثاق جمہوریت میں کیا گیا تھا۔ مجوزہ ترمیم کے مبینہ مسودہ کے جس نکتہ پر پیپلز پارٹی کو اعتراض ہو سکتا ہے اور ہونا بھی چاہیے، وہ نکتہ چیف الیکشن کمشنر سے متعلق ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کی میعاد ختم ہونے کے بعد نہ تو اس کی تین سال کی مزید مدت کے لیے توسیع قابل قبول ہونی چاہیے اور نہ ہی اس بات پر رضا مندی کا اظہار ہونا چاہیے کہ نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی نہ ہونے تک سابقہ چیف الیکشن کمشنر اس کی جگہ کام کرتا رہے گا۔
مجوزہ آئینی ترمیم کا مبینہ مسودہ سامنے آنے کے بعد ترمیم کے مخالفوں کی طرف سے جن باتوں پر سب سے زیادہ اعتراض کیا جارہا ہے وہ آئینی عدالت کے قیام اور ججوں کی تعیناتی سے متعلق ہیں۔ کچھ حلقے آئینی عدالت کے قیام اور ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار میں تبدیلی کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا کیا جانا عدلیہ کی آزادی پر حملے کے مترادف ہے۔ جس عدلیہ کی آزادی کسی اور کی بجائے ہمیشہ اس کے اپنے کردار کی وجہ مشکوک سمجھی گئی اس عدلیہ کی نام نہاد آزادی پر کسی اور کو حملہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ صرف اس ملک کی عدلیہ کو عالمی سطح پر آزاد تصور کیا جاتا ہے جس کا کردار معتبر ہو۔ ہماری عدلیہ کا کردار اگر معتبر ہوتا تو عالمی درجہ بندی میں اس کا نمبر 130نہ ہوتا۔
جہاں عدلیہ اچانک مصروف ہو کر اپنا نوے فیصد وقت عام لوگوں کی بجائے آئینی کیسوں پر صرف کر رہی ہو وہاں مفاد عامہ کے لیے آئینی عدالت کا قیام ناگزیر سمجھا جانا چاہیے ۔ واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 63Aکی تشریح کا صدارتی ریفرنس مارچ 2022میں سپریم کورٹ میں بھیجا گیا، جس کی سماعت پانچ ججوں کے بنج نے ۔ اس بنچ نے مئی 2022کے وسط تک ریفرنس کی سماعت کرنے کے بعد ایک ایسا فیصلہ سنایا جسے ہماری عدلیہ کے متنازعہ ترین فیصلوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 63Aکی تشریح کے لیے قائم کیے گئے بنچ میں شامل ججوں کے ریفرنس کی کاروائی میں مصروف ہونے کی وجہ سے عام لوگوں کے وہ کیس کئی ماہ التوا کا شکار رہے جن کی سماعت کی تاریخیں انہیں کئی ہفتے پہلے دی گئی تھیں۔ آئینی معاملات کے جتنے کیس پاکستانی عدالتوں میں زیر سماعت رہتے ہیں اس کی مثال دنیا میں شاید ہی اور کہیں موجود ہو۔ اگر الگ سے آئینی عدالتیں موجود ہوںگی تو ، مہینوں اپنے کیس کی سماعت کا انتظار کرنے کے بعد سینکڑوں میل کا سفر طے کر کے اسلام آباد پہنچے والے عام لوگوں سپریم کورٹ میں آ کر کم از کم یہ سننے کو نہیں ملے گا کہ فوری سماعت کے لیے منظور کیے گئے کسی آئینی نوعیت کے کیس کی وجہ سے ان کا مقدمہ التوا کا شکار ہو گیا ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم لیگ ن کی ترجیح آئینی عدالت کی بجائے موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی مدت میں توسیع ہے۔ اگر مفاد عامہ کے لیے ضروری آئینی عدالت کا قیام کسی کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ میں توسیع کی شرط پر ممکن ہوتا ہے تو بھی اسے گھاٹے کا سودا نہیں کہا جاسکتا کیونکہ قاضی صاحب کا کردار اپنے کئی ایسے پیش رو چیف جسٹس صاحبان سے بہتر ہے جن کا غیر منصفانہ کردار یہاں مجبوراً برداشت کیا جاتا رہا۔