شمالی کوریا میں پھانسیاں، پاکستان میں دیہاڑیاں

رفیع صحرائی
خبر ہے کہ شمالی کوریا کے حکمران کم جونگ ان نے سیلاب سے قبل حفاظتی انتظامات نہ کرنے پر 30افسروں کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا میں چند ماہ قبل آنے والے خوفناک سیلاب کے باعث 4ہزار لوگوں کی جان چلی گئی تھی اور بڑی تعداد میں گھر تباہ ہوئے تھے۔ مقامی میڈیا کے مطابق مذکورہ افسران سیلاب روکنے کے لیے مزید بہتر قدم اٹھا سکتے تھے۔
اس خبر کی روشنی میں اب ہمارے ملکی حالات پر نظر ڈالیے۔ ہمیں آزاد ہوئے 77سال ہو چکے ہیں اور اتنے ہی عرصے سے ہم ہر سال سیلاب کا عذاب بھگتتے چلے آ رہے ہیں۔ ہر سال کبھی نچلے، کبھی درمیانے اور کبھی اونچے درجے کے سیلاب کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے مگر مجال ہے جو کبھی اس آفت سے چھٹکارے کا ہم نے سوچا بھی ہو۔ سیلاب کو خدائی عذاب سمجھ کر ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ہر سال قیمتی انسانی جانوں، ہزاروں مویشیوں اور لاکھوں ایکڑ کھڑی فصلوں کو تباہ ہوتا دیکھتے ہیں۔ سیلاب میں لوگوں کے کچے اور پکے مکانات گر جاتے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقے کو آفت زدہ قرار دے دیا جاتا ہے اور لوگوں کے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے حکومتی سروے شروع ہو جاتا ہے۔ بہت کم لوگوں کی داد رسی ہو پاتی ہے۔ زیادہ تر لوگ حکومتی امداد سے محروم ہی رہتے ہیں۔ وہ اپنی مدد آپ کے تحت خود کو بحال کرتے ہیں اور اگلے سال دوبارہ اسی صورتِ حال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سیلاب کا اثر پورے ملک پر پڑتا ہے۔ زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ سبزیوں کا ریٹ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ تازہ دودھ کی دستیابی میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ سیلابی علاقے قحط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہاں وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں۔ لاکھوں لوگ گھر سے بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پورے 77سال سے یہ سلسلہ چلتا آ رہا ہے۔ سیلابی پانی ہمارے لیے ہر سال زحمت بن جاتا ہے مگر کبھی کسی حکومت نے اس زحمت کو نعمت میں بدلنے کا نہیں سوچا۔ کسی نے مخالف ہوائوں کو اونچی اڑان بھرنے کے لیے مددگار نہیں بنایا۔ سیلاب کو خدائی عذاب سمجھ کر ہر سال کھربوں روپے کا نقصان برداشت کر لیا جاتا ہے۔
جاپان کا محلِ وقوع اس قسم کا ہے کہ اسے سارا سال زلزلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر جاپانیوں نے یہ نہیں سوچا کہ چونکہ زلزلوں سے بچنا ممکن نہیں لہٰذا ہم پختہ عمارتیں بنانے کی بجائے جھونپڑیوں میں رہا کریں گے۔ جاپان والوں نے اس کا حل نکالا۔ اس کے انجنیئر سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے ایسے گھروں اور بڑی عمارتوں کے نقشے ڈیزائن کیے جو زلزلہ پروف تھے۔ آپ دیکھ لیں، جاپان میں کئی کئی منزلہ عمارتیں موجود ہیں۔ وہاں روزانہ زلزلے آتے ہیں مگر ان عمارتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ جاپانیوں نے ان زلزلوں کے ساتھ رہنا اور ان کے نقصانات سے بچائو کا توڑ نکالنا سیکھ لیا۔ ہم نے ہر سال سیلاب کا انتظار کرنے اور پھر اس کا شکار ہونے کے آگے کا کبھی سوچا ہی نہیں۔
غور کریں تو اس کی وجہ بھی آسانی سے سمجھ میں آ جائے گی کہ ہم لوگ سیلاب سے بچا کا پیشگی بندوبست کیوں نہیں کرتے۔ اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ من حیث القوم ہم بھکاری بن چکے ہیں۔ بھیک مانگنا ہماری قومی شناخت بن چکی ہے۔ عوام سے لے کر حکمرانوں تک ہم سب بھکاری ہیں۔ سیلاب، وبائی امراض اور ناگہانی آفتیں بھکاریوں کے وہ معذور بچے ہوتے ہیں جنہیں دکھا کر مخیّر لوگوں کا جذبہ ترحم ابھارا جاتا ہے اور انہیں ایموشنل بلیک میل کر کے زیادہ سے زیادہ بھیک اکٹھی کی جاتی ہے۔ دیکھ لیجیے! ہمارے ہاں جب بھی سیلاب آتا ہے ہمارے حکمران کاسہ گدائی اٹھائے دنیا بھر میں بھیک مانگنے نکل پڑتے ہیں۔ اربوں ڈالر چیریٹی کے نام پر اکٹھے کیے جاتی ہیں۔ حق داروں تک ان میں سے کتنی رقم پہنچتی ہے؟ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سیلاب زدگان کے لیے سرکاری طور پر پورے ملک سے بھی امداد اکٹھی کی جاتی ہے۔ نقدی کے علاوہ رضائیاں، کمبل، بستر، کپڑے اور راشن کی صورت میں لوگ دل کھول کر امدادی فنڈ میں جمع کرواتے ہیں مگر کس قدر ستم ظریفی ہے کہ کمبل، بستر اور راشن کے تھیلے مستحقین تک پہنچنے کی بجائے افسروں اور سرکاری ملازموں کے گھروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ دو سال پہلے 2022کے سیلاب کے دوران ایک بہت بڑی سیاسی شخصیت کے گھر سے راشن کے سینکڑوں تھیلے برآمد کیے گئے تھے۔ بجائے اس کی کہ اس شخصیت کے خلاف حکومتی اور پارٹی کی سطح پر کوئی کارروائی کی جاتی، اس شخصیت کو ایک بہت بڑے منصب پر براجمان کر دیا گیا۔
یہاں پر عوام کے رویّے کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ سب کو پتا ہے کہ ہر سال فلاں فلاں جگہ اور علاقہ سیلاب سے متاثر ہوتا ہے مگر سیلاب اترنے کے بعد پھر اسی جگہ رہائش اختیار کر لی جاتی ہے۔ ہر سال فصل بھی کاشت کی جاتی ہے اور پھر سیلاب آنے کی دعا کی جاتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نقصان ظاہر کر کے سرکاری امداد حاصل کی جا سکے۔
’’ مستقل گاہک‘‘ یہ امداد آسانی سے حاصل بھی کر لیتے ہیں۔ بہت بڑی تعداد اس سے محروم رہ جاتی ہے۔ ان حالات میں عوام اور حکمرانوں سمیت کون چاہے گا کہ ملک میں کالا باغ ڈیم سمیت مزید درجنوں بلکہ سینکڑوں ڈیم بنا کر سیلابی پانی کی زحمت کو نعمت میں بدلا جائے؟ کس کو فکر ہو گی کہ ملک کی بنجر زمینیں آباد کی جائیں؟ کون چاہے گا کہ سیلابی پانی کو ذخیرہ کر کے ہر سال سندھ اور پنجاب کے درمیان ہونے والے پانی کے تنازعے کا مستقل حل نکالا جائے؟ سب دیہاڑی لگانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے خودغرض سیاستدانوں نے کالا باغ ڈیم پر سیاست کر کے اسے متنازعہ بنا دیا۔ صوبہ کے پی کے سیاستدانوں نے اپنی سیاست بچانے کی خاطر ریاستی مفاد کو قربان کر دیا حالانکہ اس صوبے کو بھی اس ڈیم سے اتنا ہی فائدہ پہنچنا تھا جتنا باقی صوبوں کو پہنچتا۔
حکومتوں نے بھی اس پر زیادہ سنجیدگی نہیں دکھائی ورنہ ریڈیو، ٹیلی ویعن، اخبارات اور سوشل میڈیا پر کالا باغ ڈیم بنانے کی ضرورت پر بھرپور مہم چلا کر لوگوں کو اس کی افادیت سے آگاہی دینا اور موٹیویٹ کرنا مشکل کام نہیں ہے۔
چلتے چلتے حسبِ حال ایک لطیفہ بھی پڑھ لیجیے۔ دو سال پہلے ایک بہت بڑا سمندری طوفان آیا تھا۔ خدشہ تھا کہ وہ کراچی کے ساحل سے بھی ٹکرائے گا مگر خوش قسمتی سے طوفان کا رخ مڑ گیا اور کراچی محفوظ رہا۔ اس پر کسی منچلے نے فقرہ کسا کہ ’’ طوفان کے نہ آنے سے سندھ حکومت کو اربوں روپے کا نقصان ہو گیا‘‘۔
کہیں ہمارے ہاں ڈیم نہ بنانے کا مقصد بھی ان غیر ملکی امداد کی صورت میں ملنے والے اربوں ڈالر کی امداد کا نقصان تو نہیں جو سیلاب آنے کی صورت میں ہمیں بطور بھیک ملتے ہیں۔ ورنہ کالا باغ ڈیم فی الحال ممکن نہیں تو کیا اس سے ہٹ کر چھوٹے چھوٹے درجنوں بلکہ سینکڑوں ڈیم نہیں بنائے جا سکتے۔ بھارت نے بھی تو اپنے دریائوں پر ہزاروں ڈیم بنا کر ہمارا پانی روک رکھا ہے نا۔ ہم ڈیم کیوں نہیں بنا سکتے؟۔ کیونکہ اس کے لیے قومی سوچ کی ضرورت ہے مگر ہماری تمام سیاسی لیڈرشپ قوم پر اپنی ذات اور سیاست کو ترجیح دیتی ہے۔
ان حالات میں شمالی کوریا کے حکمران کی حب الوطنی کو ہمارے ہاں عجیب سمجھا جائے گا۔ لیکن کم جونگ ان نے اپنے 30افسروں کو پھانسی لگا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک زندہ قوم کے حکمران ہیں جو قومی نقصان کو کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم ترانوں کی حد تک زندہ قوم ضرور ہیں لیکن عملی طور پر ہم مُردوں سے بھی بدتر ہو چکے ہیں۔