Column

کچے کے ڈاکو یا نظام کے باغی

نذیر احمد سندھو
کچے کے ڈاکوئوں اور پولیس مقابلوں کا پاکستان کے میڈیا پر بہت چرچا ہے۔ یہ ڈاکو نہیں حقیقت میں ظالمانہ نظام کے باغی ہیں ریاستی اداروں کے جبر لوٹ مار رشوت کے باغی ہیں، معاشرے کے رسم و رواج جو ظالمانہ نظام کے تحفظ اور اسے برقرار کھنے میں ممدو معاون ہیں اس کے باغی ہیں مگر ظالمانہ نظام سے مستفید طاقتور ادارے انہیں ڈاکو قرار دیتے ہیں۔ کچے کے ڈاکو چیونٹیاں ہیں اور محلات میں ساکن پکے کے ڈاکو بہت طاقتور ہاتھی ہیں اور خود کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ان چیونٹیوں کو ڈاکو کہتے ہیں، ان کے سروں کی قیمت مقرر کرتے ہیں۔ پولیس کہتی وہ ان ڈاکوئوں تک نہیں پہنچ سکتی، راستے نہیں اور یہ فصلوں میں چھپ کر حملہ کر دیتے ہیں، یہ ان علاقوں کے راستوں ،پگڈنڈیوں کے واقف ہیں، مقامی لوگ ان کے خوف سے تعاون نہیں کرتے، ان کے ٹھکانوں تک پہنچنا مشکل ہے۔ ڈاکو کہتے ہی ہم اور پولیس دوست ہیں، یہ دریائے سندھ کے اس پار ہیں، ہم اس پار، ہم تو بہت سا اسلحہ بھی پولیس والوں سے خریدتے ہیں۔ ڈاکوئوں کی بات میں وزن ہے، اگر اقرارالحسن سر عام کی ٹیم کے ساتھ بس اور کار میں پہنچ سکتے ہیں تو پھر پولیس کیوں نہیں۔ پولیس کی ساخت ہی ایسی بن چکی ہے وہ مجرموں سے نپٹنے کی بجائے انہیں رشوت کے عوض تحفظ فراہم کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں ہی پولیس سسٹم فاتح انگریزوں نے ایسا ہی ترتیب دیا تھا، یہ سسٹم ان کے مفاد کے مطابق تھا۔ انڈین پولیس بھی اسی طرح کام کرتی ہے جس طرح پاکستانی پولیس۔ جعلی پولیس مقابلے، جعلی اشتہاری، جعلی محکمانہ ترقیاں، انکوائریاں، بارڈر کے اس پار یا اس پار ( ایس ایچ او ) کی پوسٹ ایک جتنی با اختیار ہے۔ ایسے نظام کی کوکھ سے ڈاکو ہی جنم لیں گے، عبدالستار عیدی نہیں۔ جوڈیشل سسٹم بھی مجرموں کو سپورٹ کرتا ہے۔ رشوت کاروبار بن چکا ہے، بھاری رشوت دے کر سرکاری ملازمتیں حاصل کی جاتی ہیں، جو رشوت دے کر نوکری لے گا وہ سود سمیت واپس تو لے گا۔ چونکہ پولیس نوکری نہیں دھندہ کر رہی ہے، لہذا قانون شکن پوری قوت سے معاشرے کو لوٹ رہے ہیں۔ مقامی طاقتور لارڈز بھی ان کی سرپرستی کرتے ہیں، بلکہ یہ انہیں کی پیدا وار ہیں۔ زمیندار چونکہ الیکشن میں حصہ لیتے ہیں اور وہ ان ڈاکوئوں کو خو ف دلانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مقامی لوگ سب جانتے ہیں کون سا ڈاکو کس بڑے زمیندار کی سرپرستی میں ہے۔ ڈاکوئوں کے گینگ ہیں، ان کی اپنی بھی دشمنیاں ہیں اور بڑے زمیندار انہیں آپس میں بھی لڑاتے رہتے ہیں، تاکہ یہ ان سے طاقتور نہ بن جائیں، یہ جاگیرداری نظام کا پرانا اور کامیاب دھندہ ہے۔ کچے کے ڈاکو راجن پور سے شکار پور سندھ تک پھیلے ہوئے ہیں، مگر کسی سردار وڈیرے جاگیردار کو ان سے کوئی خطرہ نہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت ڈاکوئوں کی تعداد میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ مقامی نوجوان باقاعدہ ان تک پہنچتے ہیں، تربیت لے کر ان کا حصہ بن رہے ہیں، کچھ تربیت لے کر واپس آ جاتے ہیں اور ڈاکوئوں کے لیے جاسوسی کرتے ہیں اور شکار پھانسنے اور اطلاع دینے کا دھندہ کرتے ہیں۔ بعض شکار کے ساتھ خود بھی اغوا ہونے کا ڈرامہ کرتے ہیں، شکار سے ملنے والی رقم سے حصہ لے کر واپس آ جاتے ہیں، پولیس کی مخبری بھی کرتے ہیں۔ موبائل فون نے ان کا کام آسان کر رکھا ہے۔ پولیس کے 12لوگ مارے گئے، ان میں کوئی آفیسر نہیں، زندہ بچ جانے والے ایک سپاہی کو گرفتار کرکے ساتھ لے گئے اور اس کے عوض انہوں نے معروف ڈاکو اِنہڑ، جو پولیس کی حراست میں تھا اور اس کی گرفتاری پر پولیس نے بھاری اخراجات اور دعوے کیے تھے چھڑا کر لے گئے۔ راجن پور سے لے کر شکار پور، گھوٹکی تک دریائے سندھ کے کنارے ہزاروں مربع میل رقبہ ہے، جو محکمہ جنگلات کی ملکیت ہے، دس لاکھ کے قریب لوگ یہاں آباد ہیں۔ دریائے سندھ میں ہر سال سیلاب آتا ہے، یہ رقبہ ڈیلٹائی ہے، زرخیز ہے، ہزاروں کاشتکار اس زمین پر کاشتکاری کرتے ہیں، جن میں ڈاکو بھی شامل ہیں اور سب اپنی ضروریات حاصل کرتے ہیں۔ ڈاکوئوں کا ذریعہ آمدنی اغوا برائے تاوان ہے، جس سے وہ بھاری اسلحہ خریدتے ہیں، جو بلٹ پروف بکتر بند گاڑیوں میں بھی گھس جاتا ہے۔ بلوچستان میں یہی کام سردار کرتے ہیں، ایرانی زائرین کی بسوں پر حملہ، مزدوروں کا قتل، یہ سب سردار کرواتے ہیں۔ جتنی بھی اسلحہ بردار تنظیمیں ہیں، یہ سب سرداروں کی سپانسرڈ ہیں۔ سردار اس قتل عام اور دہشت گردی لاقانونیت کے عوض را، سی آئی اے، حتیٰ کہ ملکی ایجنسی سے بھی رقوم لیتے ہیں اور ایجنسی سے یہ ایران افغانستان، را کی جاسوسی کے پیسے لیتے ہیں، مگر سب کو ڈبل کراس کرتے ہیں۔ پاکستان کی اس دہشت گردی ڈاکو رائج اور ادارتی لاقانیوت کا پہلا حل جاگیرداری اور سرداری نظام کے خاتمے میں ہے، جب تک یہ غدار موجود ہیں، یہ سسٹم موجود رہے گا اور نئے غدار پیدا ہوتے رہیں گے۔

جواب دیں

Back to top button