نئی لہر

محمد مبشر انوار (ریاض )
گزشتہ چند دہائیوں سے دنیا میں بالعموم جبکہ اسلامی ریاستوں میں بالخصوص دہشت گردی کا عفریت پھن پھیلائے، بے گناہ اور نہتے شہریوں کے خون میں رنگا نظر آ رہا ہے۔ تاہم اس دہشت گردی میں کہیں دہشت گرد عناصر کی تفریق مختلف ہے کہ پرتشدد کارروائیوں منظم تنظیموں کے ساتھ ساتھ ریاستی دہشت گردی کا عنصر بھی موجود ہے اور اس وقت بھارت اور اسرائیل کی ریاستیں سرکاری سطح پر اس دہشت گردی میں باقاعدہ ملوث ہیں۔ اقوام عالم کا زیادہ زور بہرکیف غیر سرکاری عناصر کی سرکوبی پر ہے کہ ان سے امن عالم کو خطرات زیادہ ہیں جبکہ لمحہ موجود میں عالمی طاقتیں اور اقوام عالم اسرائیلی ریاستی دہشت گردی سے بھی متفکر ہیں اور اپنی بھرپور کوششوں میں مصروف دکھائی دیتی ہیں کہ کسی طرح اس جارحیت و بربریت کو لگام ڈال سکیں تاہم ہنوز اس میں قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔ شنید یہی ہے کہ امریکی متوقع انتخابات سے قبل بائیڈن انتظامیہ کی یہ بھرپور کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح غزہ میں ہونے والی بربریت کو روکا جا سکے گو کہ اس کے پس پردہ بھی امریکی جانبداری اور بے جا حمایت کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل نہ صرف اپنی تمام تر بربریت کے باوجود اپنے طے کردہ اہداف اس مدت میں حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ اس کی اہلیت و قابلیت بھی بری طرح بے نقاب ہو چکی ہے۔ بہرکیف پاکستان اس وقت پھر دہشت گردی کی نئی لہر سے نبردآزما ہے جبکہ حیرت اس امر پر ہوتی ہے کہ افواج پاکستان کا ریکارڈ اس حوالے سے انتہائی شاندار رہا ہے کہ یہ پاکستانی فوج ہی تھی جس نے سری لنکا میں مدتوں سے جاری دہشت گردی کا کامیابی سے قلع قمع کیا تھا، علاوہ ازیں دنیا کے کسی بھی خطے میں امن بحال کرنے کی کاوشوں میں افواج پاکستان کا کردار انتہائی مثبت اور تابناک رہا ہے، جسے ساری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ تاہم پاکستان میں فوج مسلسل اس عفریت سے نپٹنے کے لئے نبردآزما نظر آتی ہے اور ہر معرکے میں دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے کے باوجود اسے مسلسل اس عفریت کا سامنا ہے ، جس میں اس کے صرف جوان ہی نہیں بلکہ اعلی افسران بھی رتبہ شہادت سے سرفراز ہوتے ہیں۔ ایک طرف دہشت گرد ہر مرتبہ نئی کھیپ کے ساتھ اس ملک کا سکون برباد کرنے کے لئے وارد ہوتے ہیں تو دوسری طرف وطن کے جانباز ،جان ہتھیلی پر لئے، سر زمین پاکستان کی حفاظت کی خاطر،اس کے امن و سکون کے لئے ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح سامنے کھڑے نظر آتے ہیں۔ بدقسمتی دیکھئے کہ اپنے وطن اور ہم وطنوں کے تحفظ کی خاطر ،جان جان آفرین کے سپرد کر دینے کے جذبہ کے باوجود،ہمارا معاشرہ ان کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھے ہوئے ہے، اس پر افسوس ہوتا ہے کہ معاشرے میں دو مختلف جہتوں پر تفریق کرنے کا شعور ہی نہیں ہے،میدان جنگ میں برسرپیکار آنا اور میدان سیاست میں ہونے والی غلطیوں پر جام شہادت نوش کرنے والوں کے خلاف ہزیان بکنا،دونوں میں فرق ہی ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔اس حوالے سے ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ چونکہ سیاست میں مداخلت کے باعث، میدان کارزار گرم ہوتا ہے کہ نہ سیاست میں مداخلت کرکے غلط پالیسیاں اختیار کی جائیں اور نہ میدان جنگ میں اپنے جوانوں کے لاشے اٹھائے جائیں اور نہ ہی افسران کو اس میدان میں دھکیلنے کی نوبت آئے۔کسی حد تک بات درست ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت صورتحال ایسی بن چکی ہے کہ کمبل چھوڑنا تو چاہتے ہیں لیکن کمبل چھوڑنے کے لئے تیار نہیں،اس کو کسی بھی حوالے سے دیکھ لیں،بالآخر حقیقت یہی نکلے گی،گو کہ سیاسی بزرجمہر یہ دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ سیاست ہمیں کرنے دیں لیکن جمہوری سیاست کی اقدار پر عمل کرنے سے صرف اس لئے ڈرتے ہیں کہ اس میں ناکامی کا خدشہ ہے،حالیہ انتخابات میں بھی یہی صورتحال سب کے سامنے ہے کہ مینڈیٹ چرانے والے ہی ووٹ کی عزت چرا کر اقتدارپر براجمان ہیں۔
بہرکیف حقیقت یہ ہے کہ افغانستان جیسا ملک دہائیوں تک جنگ کا ایندھن بنا رہا لیکن آج وہاں پرحکمرانوں نے قانون کی عملداری یقینی بنا کر اسے امن کا گہوارہ بنا لیا ہی اور افغانستان کی ترقی کے لئے مسلسل کوشاں دکھائی دیتے ہیں ۔ افغانستان کی مشکلات کا آغاز بہت پہلے سے ہو چکا ہے اور ایک طویل عرصہ تک افغانستان خانہ جنگی کا شکار رہا جبکہ بعد ازاں سوویت یونین کی جارحیت سے افغانستان براہ راست جنگ کا شکار رہا۔ سوویت یونین کی جارحیت کے خلاف ،پاکستان کا کردار تاریخ میں نقش ہو چکا ہے اور جس طرح پاکستان سفارتی محاذ کے ساتھ ساتھ سماجی سطح پر اور میدان جنگ میں افغان مجاہدین کا ساتھ دیا،وہ تاریخ کا خوبصورت ترین باب ہے تاہم اس ساری جدوجہد میں پاکستان کے ساتھ افغانستان کا رویہ بتدریج تبدیل ہو تا گیا۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں پاکستانی افواج اور خفیہ ایجنسی کا کردارایک ناقابل تردید حقیقت ہے لیکن اس کے عوض،امریکی مفادات کس حد تک متاثر ہوئے،اس کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ ایک طرف افغان جنگ میں پاکستان کی حیثیت فرنٹ لائن سٹیٹ کی رہی ،جس پر اعتماد کئے بغیر امریکہ کبھی بھی سوویت یونین کے حصے بخرے کرنے میں کامیاب نہ ہوپاتا تو دوسری طرف امریکہ کو پاکستانی جوہری پروگرام سے صرف نظر کرنا پڑا،جو بہرطور کسی بھی صورت امریکی مفادات کا حصہ نہیں تھا۔ امریکی خواہشات کے مطابق،پاکستان جیسے ملک کے لئے جوہری طاقت کا حصول کسی بھی صورت ممکن نہ ہوتا بشرطیکہ سوویت یونین افغانستان پر جنگ مسلط نہ کرتا،جس سے روکنے کے لئے امریکہ نے بھٹو کو تختہ دار پر لٹکانے سے گریز نہیں کیا،بعد ازاں پاکستان پر پابندیوں نے اس خواہش کو بے نقاب تو کردیا لیکن تب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی نکل چکا تھا۔بعد ازاں بہانہ بناتے ہوئے،امریکہ نے براہ راست افغانستان پر مع نیٹو فوج کشی کی،جو بظاہر تو اس کے اپنے مفادات کے لئے تھی لیکن اس اثناء میں ایک طرف اسے پھر پاکستان کی خدمات درکار تھی تو دوسری طرف چین کی گو شمالی میں بھی اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی،جبکہ اس عرصہ میں چین نے مستقل مزاجی سے کام لیتے ہوئے انتہائی رازداری کے ساتھ اپنے اہداف حاصل کرنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔دو دہائیوں کی خواری کے بعد امریکہ افغانستان سے بھی عبرتناک شکست کا جھومر ماتھے پر سجائے،یہاں سے رخصت ہوا لیکن جس عجلت میں امریکہ یہاں سے نکلا،اس کے مابعد اثرات اس وقت خطے میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ امریکی منصوبے کے مطابق طالبان کو افغانستان کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لئے خاصہ وقت درکار ہوتا کہ جن خطوط پر امریکیوں نے مقامی فوج کی تربیت کی تھی،ان کے مطابق انہیں افغان فوج کی جانب سے سخت مزاحمت کی توقع تھی،اور اس مقصد کے لئے امریکی اپنا بہت سا اسلحہ بھی ان کے تصرف میں چھوڑ گئے تھے لیکن امریکی توقعات کے برعکس،افغان فوج مزاحمت نہ کر سکی اور تما م تر وسائل پر طالبان کا قبضہ ہو گیا۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس عبرتناک شکست کی بعد امریکی اس خطے میں مداخلت چھوڑ دیتے لیکن امریکہ ہی پر کیا موقوف،کسی بھی عالمی طاقت کے لئے یوں اپنے اثرورسوخ سے دستبردار ہونا ممکن نہیں ہوتا اور مزید منصوبے بنا کر ان پر عملدرآمد شروع کردیا جاتا ہے تاآنکہ مکمل طور پر طاقت کا پلڑا کسی دوسری طاقت کے حق میں نہ جھک جائے۔
اس خطے سے متعلق امریکہ کے اپنے منصوبے ہیں ،جن میں سب سے اہم اس خطے کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص عدم استحکام سے دوچار رکھنا ہے،پاکستان کو عضو معطل بنا کر اس سے اپنے مفادات کشید کرنے ہیں،جبکہ پاکستان سے متعلق امریکہ کا ایک پرانا منصوبہ2025بھی کہیں نہ کہیں موجود ہے ۔ جس کے مطابق پاکستان کے حصے بخرے کرنا مقصود ہے،اس کی جوہری طاقت کو ہتھیانا مقصود ہے،جو ایک طرف اسے سیاسی و معاشی عدم استحکام میں رکھ کر حاصل کرنے کی کوششیں ہیں تو دوسری طرف ففتھ جنریشن وار کا حربہ مسلسل اور انتہائی کامیابی کے ساتھ بروئے کار ہے۔ افواج پاکستان اپنی تمام تر پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ،ان دہشت گردوں کے خلاف بروئے کار آتی ہیں لیکن مخالفین بہرطور کسی نہ کسی طور اپنے گماشتوں کو اس سرزمین پر مسلسل بھیج رہے ہیں،اذہان میں فتور پیدا کر رہے ہیں، اور افواج پاکستان کو مسلسل مصروف عمل رکھے ہوئے ہیں۔ آج بھی جو نعرے ،افواج پاکستان کے خلاف لگ رہے ہیں، ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے، جنہیں افواج پاکستان نے یقین دہانیوں کے بعد رہا کر کے قومی سیاسی دھارے میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا لیکن ان کی اکثریت آج افواج کے خلاف صف آرائ ہے۔افواج پاکستان سے جو غلطیاں بھی سیاسی میدان میں ہوئی ہیں، وہ اپنی جگہ مسلمہ ،ان سے کوئی اختلاف نہیں لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ جن کے لئے افواج نے یہ غلطیاں کی تھی، وہ بھی آج ان کے خلاف کیوں ہیں؟قومی دھارے میں آنے کی بجائے،ہر وہ سیاسی شخصیت ،جس کا تھوڑا بہت قدکاٹھ ہے، وہ افواج پاکستان پربھونکتے ہوئے اپنا سیاسی قد اونچا کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کے باوجود گو کہ دہشت گردی کی نئی لہر جو پاکستان کو درپیش ہے، جو حقیقتا امریکی منصوبے 2025کا تسلسل ہے، پاکستان اس میں سرخرو رہے گا، ان شاء اللہ ۔