جبر مسلسل اور صبر مسلسل

تحریر : صفدر علی حیدر ی
وہ ہنس رہی تھی، اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے ’’ الحمدللہ الحمدللہ‘‘ کہہ رہی تھی ۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ جیسے ۔۔ جیسے اس کو کوئی بہت بڑی خوش خبری ملی ہو۔ ایک چارپائی پر اس کے بچے کی لاش پڑی تھی۔
اچانک کسی نے پوچھا آپ کے کتنے بچے شہید ہوئے تو اس نے ہاتھ کی انگلیاں دکھا کر کہا ’’ اربع اربع‘‘
’’ آپ پھر بھی مسکرا رہی ہیں ‘‘
’’ کیوں نہ مسکرائوں ، میرا بیٹا جنت میں گیا ہے۔ اپنے رب سے ملاقات کرنے، اور میں بھی جلد اسے جنت میں ملوں گی ‘‘ بس اتنی مختصر سی ویڈیو تھی جس نے رلا ڈالا۔ جس نے تڑپا ڈالا۔
ہم رو کر مطمئن ہیں۔ اسی کو اپنے کامل ایمان کی علامت گردانتے ہیں۔ ہاں مگر کوئی عملی جدوجہد یا مسلح کوشش ہم سے ممکن نہیں۔
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
کیا اس خاکستر میں اب غیرت کی کوئی چنگاری باقی نہیں بچی۔
شہید کی موت قوم کی حیات ہے
مگر قوم پر تو مرگ طاری ہے۔ 35ہزار سے زائد لاشیں اٹھا کر بھی ہماری حمیت نہیں جاگی۔ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان کیا بس ایک دوسرے کی گردنیں مارنے کے لیے ہیں۔ بحث مباحثہ ، جنگ و جدال ہی ہماری ترجیح ہے اور بس ۔ ہم اس بات پر خوش اور مطمئن ہیں کہ ہمارا گھر، ہمارے بچے، ہمارا ملک تو بچا ہوا ہے۔
کسی فیس بک فرینڈ نے ایک پوسٹ پر اسرائیل کو بددعا اور فلسطینیوں کے لیے دعا کی اپیل کی تو میں نے کہا ’’ نہ ہماری دعا کسی کام کی ہے نہ بدعا ‘‘۔
اگر اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود ہم صرف دعائوں پر ہی اکتفا کر رہے ہیں تو پھر ہمارا ساتھ اور کیا ہو گا ؟ وہی کچھ ہو گا نہ جو کہیں کشمیر میں، کہیں بوسنیا میں، کہیں برما میں اور کہیں فلسطین میں ہو رہا ہے۔
اسلامی دنیا جس عالم غفلت میں جا پڑی ہے اس کے بعد ان سے کسی خیر کی کوئی توقع عبث ہے۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے امت مسلمہ اور ملت واحدہ کا نعرہ سنتے آئے ہیں۔ حسرت ہی رہی کہ کبھی اس کو اکھٹا دیکھیں۔ کبھی کسی ایشو پر ان کی طاقت کا اظہار دکھائی دے۔ یہ لوگ تو صرف بیان بازی کو ہی مزاحمت کی معراج سمجھتے ہیں۔ اسرائیل کی مذمت کرتے ہیں اس کے لیڈران کے پتلے جلاتے ہیں اور پرچم قدموں تلے روندتے اور اسے نذر آتش کرتے ہیں۔ اب ظاہر ہے اس سے کیا ہو سکتا ہے۔ سوائے اس کے کہ یہ سب کرنے والوں کی تسلی ہو جاتی ہے کہ انہوں نے اپنے حصے کا کام کر لیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو عوام ایک اور کام بھی کر سکتی ہے جس سے اسرائیلی معیشت کو زبردست دھچکا پہنچ سکتا ہے ۔ یعنی کھانے پینے کی اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ ۔ اس سے بھی بڑا فائدہ حاصل ہو گا۔ پاکستان کی دیکھا دیکھی دیگر اسلامی ممالک میں بھی یہ تحریک پھیلے گی جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئیں گے۔ پیٹ پر لات اچھے اچھوں کو سیدھا کر سکتی ہیں۔ اگر چند فوجی جوانوں کی لاشوں کے عوض وہ لبنان سے اپنی فوج نکال سکتے ہیں تو اپنی معیشت بچانے کی خاطر وہ مظلوم فلسطینیوں پر ظلم سے باز بھی رہ سکتے ہیں۔ باقی دوسرے مرحلے میں دیگر پر تعیش اشیاء کے استعمال سے پرہیز کر کے بھی دبائو زید بڑھایا جا سکتا ہے۔ بیورج کے کاروبار پر خاصا برا اثر پڑا ہے۔ دو معروف کمپنیوں کی سیل تیس سے چالیس فی صد تک کم ہو گئی ہیں مگر اس خوشی کا ایک تاریک پہلو بھی ہے کہ مقامی بیورجز جو کہ خاصا غیر معیاری ہے اس کی قیمتیں انٹرنیشنل برانڈ کے برابر ہو گئی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری کمپنیاں کس حد تک ظالم اور بے حس ہیں ۔ ان کا بس اپنے منافعے کی پروا ہے۔ وہ اپنا الو سیدھا کرتے کرتے قوم کو الو بنا رہی ہیں۔
واپس پلٹتے ہیں اسی ویڈیو کی طرف جس کا شروع میں ذکر کیا گیا تھا ۔ اس خاتون کی گفتگو نے عاشورہ کے دن مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا صرف ماتم کرنا ہمارا مقدر ہے ۔ کیا یہ ہاتھ صرف دعا کے لیے اور اظہار غم کے لیے منہ سر پیٹنے کو ۔ کیا ان ہاتھوں میں اتنا دم بھی نہیں کہ یہ اپنی طرف اٹھنے والے ہاتھوں کو روک سکیں ان کو توڑ سکیں ۔ کیا ہم سارے ملامتی صوفی بن گئے ہیں کہ جن کی جتنی تذلیل کی جائے تو وہ اتنا خوش ہوتے ہیں ۔ ان سے بدسلوکی کی جائے تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے ۔ ان کو بے عزت کیا جائے تو اسی میں اپنی عزت کا پہلو ڈھونڈتے ہیں ۔ ہم کیسے عزادار ہیں جو لاشیں اٹھا رہے ہیں اور اپنا منہ سر پیٹ رہے ہیں ۔ اور آئندہ کے لیے بھی تیار ہیں کہ لاشیں مزید گریں تو ہم لوگ اپنا منہ سر پیٹ سکیں ۔
اکثر ایک سوال پریشان کرتا تھا کہ اتنی بڑی اسلامی سلطنت میں جب کہ ہزاروں صحابہ کرام اور ان کی اولادیں زندہ تھیں امام حریت کی نصرت کو بس سو ڈیڑھ سو افراد ہی نکلے ۔ مگر جب سے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوجیوں کے مظالم دیکھے ہیں سب حیرتیں دور ہو گئی ہیں ۔
کل یزید ایک طاغوت تھا جس کے خلاف امام حریتؓ نے علم جہاد بلند کیا تھا۔ ساتھ میں یہ فرما کر قیامت کے لیے ہمیں درس دے گئے کہ اگر میری نصرت نہیں کر سکے تھے تو اپنے وقت اپنے علاقے کے طاغوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا یہ جان کر کہ کرب و بلا میں میری نصرت کا کفارہ ادا کر رہے ہیں، یہی آپ کے استغاثہ کا پیغام ہے۔
کل یوم عاشور
کل ارض کرب و بلا
مظلوم فلسطینی جبر مسلسل پر صبر مسلسل کیے جاتے ہیں کہ وہ مجبور ہیں، نہتے ہیں خالی ہاتھ ہیں۔
لیکن ہم ، ہماری حکومتیں ہماری افواج تو مجبور نہیں۔ اگر وہ زندہ ہیں تو مسلح جدو جہد کے ذریعے ان کو اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینا ہو گا
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا