Column

ڈرگ مافیا کو نتھ ڈالنے کی ضرورت ہے

تحریر : رفیع صحرائی
وفاقی وزیرِ داخلہ جناب محسن نقوی نے نیشنل ڈرگ سروے کی منظوری دے دی ہے۔ 11سال بعد ہونے والے اس سروے کے تحت ملک بھر میں منشیات استعمال کرنے والوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا۔ وزیرِ داخلہ 15دن کے اندر سروے سے متعلق معاملات کو حتمی شکل دینے اور گھروں کے علاوہ تعلیمی اداروں، کچی آبادیوں اور دیگر مقامات سے بھی ڈیٹا لینے کی ہدایت کر دی ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک صائب فیصلہ ہے۔ اس سروے کو ہر لحاظ سے جامع، مستند اور بالکل درست ہونا چاہئے۔ درست اور جامع معلومات کی بنا پر ہی انسدادِ منشیات کی بہتر منصوبہ بندی اور فیصلے ہو سکیں گے۔ آج ہم صرف تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے رجحان پر بات کریں گے۔ عام لوگوں پر اس کے اثرات کا کسی دوسرے کالم میں جائزہ لیں گے۔
قانون کو اپنی رکھیل بنانے والا ڈرگ مافیا اس وقت ملکِ عزیز میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑ چکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے بہت حد تک ہماری سیاست میں بھی رسوخ حاصل کر لیا ہے۔ سیاسی حکومتیں اس مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہیں کہ بالواسطہ طور پر یہ مافیا انہیں کسی نہ کسی طور فنڈنگ کر کے اپنے تحفظ کا بندوبست کر کے رکھتا ہے۔ اب اس مافیا نے ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے کر ملک کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ شروع کر دیا ہے۔
یونیورسٹیوں اور کالجوں کے بعد اب اس مافیا نے سکولوں کو بھی ٹارگٹ کر لیا ہے۔ اس طرف حکومت کو پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسل کو بچایا جا سکے۔
سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب جناب پرویز الٰہی کے دور میں پنجاب حکومت نے نوجوان نسل اور خصوصاً طلبہ میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال اور اس کی فروخت کو روکنے کے لیے ایک نیا محکمہ اور صوبے بھر میں خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مجوّزہ محکمے کا نام ’’ کنٹرول آف نارکوٹکس ڈیپارٹمنٹ‘‘ تجویز کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں قانون سازی کو حتمی شکل دی جا رہی تھی۔ مجوزہ قانون میں منشیات کی تیاری، ترسیل، فروخت اور معاونت پر سخت سزائیں اور بھاری جرمانے تجویز کیے گئے تھے۔ ایوانِ وزیرِ اعلیٰ میں روزانہ کی بنیاد پر میٹنگز چل رہی تھیں اور اس قانون کو حتمی شکل دی جا رہی تھی کہ پرویز الہٰی کو اپنی حکومت عمران خان کے ایک غلط سیاسی فیصلے کی بھینٹ چڑھانا پڑ گئی۔۔ مجوزہ قانون میں نوجوانوں کے اعصاب اور رویّوں پر منفی اثر ڈالنے والی متعدد اشیا ء کو نشہ آور لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ تعلیمی ادارے کی حدود میں منشیات کی فروخت اور استعمال ثابت ہونے پر اس ادارے کی انتظامیہ کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ منشیات کی روک تھام کے لیے سپیشل انٹیلی جنس ونگ کا قیام جبکہ منشیات کے عادی افراد کی رجسٹریشن اور ان کے علاج کے لیے اتھارٹی قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا۔
دیکھا جائے تو پنجاب کی حکومت کا تعلیمی اداروں سے منشیات کے خاتمے کا یہ اقدام نہایت قابلِ ستائش تھا۔ اور اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کا مسئلہ گمبھیر صورت اختیار کر چکا ہے۔ دولت کے لالچ میں مفاد پرست عناصر صرف نوجوانوں ہی کے نہیں بلکہ ملک اور قوم کے بھی مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔ ایک منظم سازش کے تحت قوم کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لیے اس کے نوجوانوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج کیا جا رہا ہے۔ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ والدین بڑی امیدوں اور امنگوں کے ساتھ آنکھوں میں جانے کیا کیا سپنے سجائے اپنے بچوں کو بڑے شہروں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے بھیجتے ہیں مگر یہ نوجوان وہاں ڈرگ مافیا کے ہتھے چڑھ کر اپنا مستقبل برباد اور والدین کے خواب چکنا چور کر دیتے ہیں۔
حکومتِ پنجاب قوم کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے والے ان درندہ صفت عناصر کی سرکوبی کے لیے پُر عزم تھی۔ نئے قانون کے تحت تجویز دی گئی تھی کہ جن جرائم کی سزا دو سال تک ہو گی اس کے لیے بنائی گئی خصوصی عدالت میں درجہ اول کا میجسٹریٹ ہو گا۔ مجوزہ قانون میں 57مختلف قسم کی منشیات اور نشہ آور اشیا ء کو شامل کیا گیا تھا۔ تعلیمی اداروں کے گرد 500میٹر کی حدود میں منشیات فروشی پر کم سے کم سات سال اور زیادہ سے زیادہ چودہ سال قید کی سزا تجویز کی گئی تھی۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ منشیات کے عادی کے علاج کا پہلی دفعہ خرچہ حکومت برداشت کرے گی۔ نئے قانون کے تحت نارکوٹکس کنٹرول تھانے قائم کیے جانے تھے۔ تمام ٹیلی کام اور انٹرنیٹ کمپنیوں کو نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کو اپنے سسٹم تک رسائی دینے کا پابند بنایا گیا تھا۔ ایسا نہ کرنے یا انکار کی صورت میں تین سال قید اور دس لاکھ روپے تک جرمانہ کی تجویز تھی۔
دیکھا جائے تو جناب پرویز الٰہی کی حکومت نے نوجوانوں اور قوم کے مستقبل کو بچانے کے لیے ایک بہترین عملی کام کا آغاز کیا تھا جو بوجوہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ موجودہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب جناب محترمہ مریم نواز شریف حقیقی معنوں میں میاں شہباز شریف سے بڑھ کر نہیں تو ہم پلہ ضرور ثابت ہوئی ہیں۔ اگر وہ سابقہ حکومت کے اس منصوبے کو اڈاپٹ کر لیں تو یہ صوبے کے لیے ایسی گراں قدر خدمت ہو گی جو انہیں امر کر دے گی۔ صوبہ سندھ کے وزیرِ اعلیٰ جناب سید مراد علی شاہ بھی تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے استعمال پر اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں اور ڈرگ مافیا کی بیخ کنی کے لیے پرعزم ہیں۔ خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ جناب علی امین گنڈا پور اپنے صوبے سے منشیات فروشوں اور منشیات فروشی کے خاتمے کا ببانگِ دہل اعلان کر چکے ہیں۔ صوبہ بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ سے بھی اسی قسم کی توقع رکھنی چاہیے۔
معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے اور ملک و قوم کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے والے منشیات فروش کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ ان کے لیے تو سرِ عام پھانسی کی سزا ہونی چاہیے۔ یہ ظالم روزانہ کی بنیاد پر کتنے والدین کی امیدوں کے مراکز چھین رہے ہیں، نوجوان سہاگنوں کو بیوہ اور ننھے معصوم بچوں کو یتیم کر رہے ہیں۔ مجوزہ قانون میں یہ شق ضرور رکھی جانی چاہیے کہ منشیات فروشی کے کیس کا فیصلہ تیس دن کے اندر کر دیا جائیگا اور یہ جرم ناقابلِ ضمانت ہو گا۔ یا تو ملزم اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کر کے تیس دن میں جیل سے باہر آ جائے گا یا پھر جرم ثابت ہونے پر سزا بھگتے گا۔ قانونی موشگافیاں اور طوالت سے چالاک مجرم اکثر فائدہ اٹھا جاتے ہیں۔
(باقی صفحہ5پر ملاحظہ کیجئے)

حکومت پاکستان اور تمام صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ منشیات فروشوں کے خلاف قانون سازی اور الگ محکمہ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ طلبا ء میں منشیات کے استعمال کے خلاف شعور اجاگر کرنے کے لیے ڈرگ ایجوکیشن کی طرف بھی توجہ دیں۔ آٹھویں جماعت سے دسویں جماعت تک کے طلبہ عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں جہاں ان کے ذہن کے کورے کاغذ پر کوئی بھی تحریر لکھی جا سکتی ہے۔ یہی عمر جذبات، احساسات اور رجحانات میں تبدیلی کی عمر ہے۔ طالب علم کے ذہن کو جس طرف موڑیں گے وہ مڑ جائے گا۔ طلبہ پر روایتی مضامین کا ہی کافی بوجھ ہے۔ ایسے میں ڈرگ ایجوکیشن کے مضمون کو متعارف کرانا طلبہ پر بوجھ بڑھانے کے مترادف ہو گا لہٰذا اس سلسلے میں نفوذ یا ادخال (infusion) کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے سائنس سے متعلق موضوعات کو اسلامیات، معاشرتی علوم اور جنرل سائنس وغیرہ میں شامل کیا گیا تھا اور اس کے بہتر نتائج برآمد ہوئے تھے۔ ڈرگ ایجوکیشن کو بھی اسی طرح نصاب میں شامل کر دیا جائے تاکہ درسی کتب کا حجم بھی نہ بڑھے۔
نفوذ کے طریقے میں چونکہ مجوزہ تصورات کو متعلقہ تعلیمی تجربے میں شامل کیا جائے گا اس لیے وہ زیادہ اچھے طریقے سے ذہن نشین ہو جائیں گے۔ مثال کے طور پر اسلامیات کے مضمون میں جب یہ آیت پڑھائی جائے
ترجمہ: ایمان والو! نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جائو جب تک سمجھنے نہ لگو وہ بات جو تم کہو۔ ( النساء۔۔۔ 43)
اس ترجمے کے ساتھ ڈرگ ایجوکیشن کا یہ پیغام دیا جا سکتا ہے کہ نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے اس لیے روکا گیا ہے کیونکہ نشے کی حالت میں انسان اپنا ہوش کھو بیٹھتا ہے اور وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے غافل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح فزیالوجی (Physiology)کے مضمون میں جہاں مختلف اعضا ء کے افعال بیان کیے جا رہے ہوں وہیں طلبہ کو یہ بھی بتایا جا سکتا ہے کہ منشیات کے استعمال سے دماغ کیسے مائوف ہو جاتا ہے اور دیگر اعضا ء کے افعال میں کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔؟ کون سی مہلک بیماریاں لگنے کا خطرہ ہوتا ہے اور کیسے نشے سے موت واقع ہو جاتی ہے۔ استاد منشیات کے مضر اثرات کو واضح کر کے بیان کرے، گروہی مباحث کی حوصلہ افزائی کرے اور طلبہ کے مختلف نقطہ ہائے نظر کو مجتمع کر کے طلبہ کے سامنے نتیجہ پیش کرے۔ اسی طرح دیگر مضامین کے ساتھ ڈرگ ایجوکیشن کا ربط پیدا کر کے منشیات کی خطرناکی اور مضر اثرات کو طلبہ کے ذہنوں میں راسخ کر کے منشیات کے خلاف نفرت پیدا کی جا سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button