عوام پاکستان نام سے نئی سیاسی جماعت کا قیام

علی حسن
ایک سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی ایک سیاسی جماعت قائم کر لی ہے اور کہا ہے کہ یاد رکھیں فارم 47والے ملک نہیں بنا سکتے۔ نئی سیاسی جماعت کا نام عوام پاکستان پارٹی رکھا گیا ہے ۔ اس کے آغاز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عام آدمی کی یہ سوچ بن چکی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر سیاست نہیں ہو سکتی ۔ ہم سے اشاروں کنایوں میں پوچھا جاتا ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ آپ کے ساتھ ہے؟ حکمرانوں کو ملک کی نہیں صرف اپنی کرسی کی فکر ہے، انہیں ہر صورت میں اقتدار چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام پاکستان پارٹی ہر الیکٹیبل کو قبول نہیں کرے گی، جس الیکٹیبل کی شہرت اچھی نہیں عوام پاکستان پارٹی کا حصہ نہیں بن سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ سب کو اس ملک کے آئین کے تابع ہونا پڑے گا، یہ ممکن نہیں ہے کہ آئین توڑا جاتا رہے اور ملک چلتا رہے، آئینی عہدے رکھنے والا ہر شخص روز آئین توڑتا ہے، ان لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے جو دوسروں پر ٹیکس لگا کر خود ٹیکس نہیں دیتے۔ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام اور انصاف ضروری ہے، 95فیصد قانون سازی عوام کے بجائے حکومت کے لیے کی جاتی ہے، اس تاریکی میں عوام پاکستان کا پلیٹ فارم عوام کی بات کریں گے، چند ہفتے بعد آکر پاکستان کے مسائل کا حل پیش کریں گے، ہم کسی شخص یا خاندان کی سیاست کو آگے بڑھانا نہیں چاہتے ہیں۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عوام پاکستان کی صدارت 2مدت سے زیادہ کسی کے پاس نہیں رہے گی، گورنس، ریونیو کلیکشن اور پولیس سمیت ملک کا ہر نظام ناکام ہوچکا، 500ارب روپے ایم این اے ایم پی ایز میں بانٹنے کی بات کرنے پر اعتراض کیا گیا، پاکستان میں نومولود بچوں کی اموات کی شرح افغانستان سے بھی زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جماعتیں مخصوص مقاصد کے لیے بنتی رہی ہیں، ہم نے ابھی کسی کو پارٹی میں شمولیت کی دعوت نہیں دی، ہم ہر اچھے برے وقت میں ایک جماعت کا حصہ رہے۔ دنیا کی معیشت انٹرنیٹ پر چلتی ہے ہم اسے بندکر دیتے ہیں، ہر شہری کی بنیادی ذمے داری ٹیکس دینا ہے لیکن 50فیصد ٹیکس دینا ذمے داری نہیں، اشرافیہ کی حکومت ایک فیصد کی حکومت ہے وہ نظام کی تبدیلی نہیں چاہتے، عوام پاکستان پکی پکائی جماعت نہیں یہ ایک سوچ ہے، ہم لوگوں کے پاس جائیں گے ان سے بات کریں گے۔
عوام پاکستان پارٹی کے قیام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کے ساتھ مفتاح اسماعیل جو ملک کے سابق وزیر خزانہ بھی رہ چکے ہیں، نے کہا کہ یہ حکومت کیا ایسٹ انڈیا کمپنی چلا رہی ہے، آج پاکستان کا بچہ بھوکا سو رہا ہے، اگر یہ ملک غریب رہے کیا آگے بڑھ سکتا ہے۔ 40فیصد بچے ذہنی اور جسمانی کمزور ہیں، تیسری دنیا کے بہت سی ممالک ہم سے آگے ہیں، ہم سوڈان سے بھی پیچھے ہیں۔ افغانستان کے علاوہ ہم خطے کے ہر ملک سے پیچھے رہ گئے ہیں، 95۔1994ء میں ہم اپنے پڑوسی ممالک میں سب سے آگے تھے۔ سابق وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ مڈل کلاس پاکستانی کو مارا جا رہا ہے،یہاں پچاس ہزار تنخواہ پر بھی ٹیکس مانگا جاتا ہے، دو ہزار ایکڑ اراضی ہو تو کوئی بات نہیں، بجٹ میں آپ نے نوکری پیشہ لوگوں کے ٹیکس ڈبل کر دئیے۔ آپ نے ایک لاکھ اور 75ہزار کمانے والے کے ٹیکس ڈبل کر دئیے، آپ نے ایم این ایز کے لیے 75ارب رکھ دئیے۔ یہ نظام نہیں چل سکتا اسے بدلنا ہو گا، یہ شکاری اور شکار کا نظام اب نہیں چل سکتا، آج ہم ایک اور آپریشن عزم استحکام کرنے جا رہے ہیں، ان آپریشن کی بار بار ضرورت کیوں پڑتی ہے کیونکہ آپ غربت ختم نہیں کر سکتے۔ میرٹ کو ہر جگہ آگے آنا چاہیے، پرچی والوں کو کوئی حق نہیں ہونا چاہیے، ہر پاکستانی کو آگے لے کر آنا ہے، سب کا اس ملک پر حق ہے، دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں جس میں لوگوں کو آگے آنے سے روکیں، ریاست کا یہ فرض ہے کہ ہر بچے کو ترقی کا موقع ملے۔ سابق وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ بجٹ حکمرانوں کی ترجیحات کی بہتری عکاسی کرتا ہے، بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس ڈبل ہو گیا ہے، پاکستان میں دہرا نظام نہیں چل سکتا، اسے ہم چلنے نہیں دیں گے، جو نیا نظام لا رہے ہیں اس میں ہر پاکستانی کو آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیسا ملک ہے جس میں 90فیصد پاکستانیوں کو کہا جائے تم آگے نہیں آسکتے، ہمارا پہلا منشور ہر پاکستانی کو آگے بڑھنے کا موقع دینا ہے، ریاست شکاری کی مانند ہے، شہری کی کوئی حیثیت نہیں۔ ن لیگ کے صوبہ کے پی کے سردار مہتاب عباسی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام میں آگے نکلنے کا جذبہ ہونا چاہیے، ہم نے ملک کو مایوسی کے عالم میں دھکیل دیا ہے۔پاکستان جنوبی ایشیامیں سب سے آگے تھا، آج سب سے پیچھے ہے، پاکستان کو اپنے مفادات کے لیے موم کی گڑیا بنا کر چلایا گیا، عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔
سیاسی جماعت قائم کرنا، اقتدار حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنا، ہر کسی کا قانونی حق ہے۔ اس حق کے پیش نظر پاکستان میں اب تک 172سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹر ہیں۔ اگر ان پارٹیوں کو قائم کرنے والے ملک، عوام اور سیاست سے سنجیدہ ہیں تو آپس میں فیصلہ کر لیں کہ ہم ہی ملک بھر میں مل کر پارٹی کو منظم کریں گے۔ یہ کمر کسنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کوئی آئے گا اور ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر اقتدار دلادے گا۔ انتخابات میں گنتی کی چند وہ جماعتیں ہی حصہ لیتی ہیں جن کے پاس ایسے افراد کا جمگھٹا لگا رہتا ہے یا جو قیادت کے منظور نظر ہوتے ہیں۔ انتخاب میں حصہ لینے کے لئے پارٹی کا ٹکٹ ایسے ہی لوگوں کو ملتا ہے، اگر پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجاتی ہے تو وزارت بھی منظور نظر لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ غرض سیاست کے تمام ثمرات ایسے ہی لوگوں کے حصے میں آتے ہیں جو منظور نظر ہوتے ہیں اور قیادت کی صرف ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ انہیں اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ جماعت کا مستقبل کیا ہوگا۔ پارٹی کی نام نہاد ساکھ ا ور ڈھانچہ کی بنیاد پر سیاست کی جاتی ہے۔ پاکستان میں ایسا بہت کم ہی ہوا ہے کہ پارٹی کے قیام کے وقت عام لوگوں کو متحرک کیا گیا ہو، انہیں باقاعدہ ذمہ داری دی گئی ہو اور ان کی ذمہ داری کے حساب سے ہی ان سے پوچھ گھچ ہوئی ہو۔ انہوں ان کی حیثیت کے مطابق پارٹی میں اہم مقام دی جائے اور حکومت کے قیام کے بعد انہیں حکومت میں کوئی عہدہ دیا گیا ہو۔ شاہد خاقان عباسی تو نواز شریف کے بہت با اعتماد ساتھی تھی ، جنہیں نواز شریف نے وزارت عظمی پر فائز کیا لیکن عباسی اس وقت نواز شریف سے برگشتہ ہوئے جب نواز شریف نے اپنی صاحبزادی مریم کو پارٹی میں تھونپ دیا اور انہیں سینئر نائب صدر مقرر کر دیا۔ مطلب پارٹی نہ ہوئی بلکہ خانوادہ شریف کے ایک دھڑے کی ملکیت ہوئی۔ ایسی صورت میں باوقار طریقہ سے سیاست کرنے والے خاقان عباسی جیسے لوگ کیوں پارٹی کا حصہ رہ سکتے تھے ۔ پاکستان میں سیاست کا عجیب رنگ ہے۔ جو ہونا ہے ہو جائے، پارٹی کے رہنما ہمیشہ اپنی رائے کا بر ملا اظہار کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اسی وجہ سے سیاست خوشامدیوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ جس نے ملک کو ڈھیر کر دیا ہے۔ انتخابات میں شفاف انتخابات سے سب ہی دور رہتے ہیں اور کوشش کرتی ہیں کہ فارم 47کے تحت انہیں منتخب قرار دیا جائے، ان کی حکومت قائم کر دی جائے اور وہ اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں۔