آخری بار کشکول کا نعرہ

تجمل حسین ہاشمی
گزشتہ کالم میں لکھا کہ حکومت سنجیدہ ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہدف پورا ہونے پر یہ آئی ایم ایف کا آخری پیکیج ہوگا۔ اسی طرح کا بیان ماضی میں سابقہ وزیراعظم نوازشریف صاحب بھی دے چکے ہیں لیکن وہ نعرہ وفا ہوتا ہوا ابھی تک نظر نہیں آیا۔ ملک مزید قرضوں میں پھنس گیا۔ موجودہ معاشی صورتحال سب پر عیاں ہے۔ دوسری طرف دنیا بھر کی معاشی صورتحال پر نظر رکھنے والے انٹرنیشنل اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال میں بہتری ہے۔ بجٹ کے حوالے سے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب بھی کافی پرامید ہیں۔ ٹیکس نیٹ میں اضافے اور پرائیویٹائزیشن کے حوالے سے متحرک ہیں۔ بجٹ میں ایسا کیا ہے جس سے فچ جیسے ادارے بھی بہتری کے اشارے دے رہے ہیں۔ پاکستان کی گرائونڈ صورتحال کے حوالے سے کوئی اچھی پیش رفت نہیں ہے۔ غربت میں اضافہ اور روزگار میں کوئی اضافہ نہیں۔ وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمار کوئی تسلی بخش نہیں ہیں۔ 12جون کو پیش کئے گئے بجٹ میں تنخواہ دار طبقہ پر بھاری ٹیکسوں کے علاوہ دیگر شعبوں پر بھی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔ وزیر خزانہ نے بتایا 3.9 ٹریلین کے ٹیکس چھوٹ ہیں جن کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بات کی جا رہی ہے۔ ریٹیلر پر ٹیکس لگایا جارہاہے۔ 32ہزار ریٹیلر رجسٹر ہوچکے ہیں۔ بظاہر تو پچھلا طرز حکمرانی ہے، جو ماضی والے کر گئے ہیں آج بھی وہی ہورہا ہے، ٹیکس وصولی کی انتہائی خراب صورت حال ہے۔ معاشرہ میں دولت کی تقسیم غیر مساوی ہے۔ معاشرتی طبقوں میں بہت فرق آ چکا ہے۔ ماضی میں جتنے بھی وزیر خزانہ آئے وہ بھی یہی بتا کر سمجھتے رہے لیکن کچھ نہ ہونے پر وقت گزاری کر گئے۔ کسی بھی وزیر خزانہ کے پاس آرڈر کی عمل داری کی طاقت نہیں تھی کہ وہ ان طاقتور افراد جن کا ذکر نہیں کیا جاسکتا ان کو ٹیکس نیٹ میں لا سکے، جس سے جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوسکے۔ ملکی جی ڈی پی میں ٹیکس وصولی کی شرح 9فیصد ہے جس کو اگلے تین سالوں میں 13فیصد تک لے جانے کی باتیں ہیں۔ آئی ایم ایف کو یقین دلایا جا رہا ہے کہ پرائیویٹائزیشن، بجلی کی تقسیم کاری و وصولی کو بہتر کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان سے ٹیکس بڑھانے کا کہا تھا، جس کے بعد حکومت نے نئے بجٹ میں 12ہزار 970ارب روپے کا ہدف رکھا ہے۔ پچھلے سال کے مقابلے میں اس مالی سال کے بجٹ میں 3800ارب روپے اضافی ٹیکس وصول کیا جائیگا۔ لیکن وزیر خزانہ ان طاقتور حلقوں سے ٹیکس وصول نہیں کر پائیں گے، جن سے کرنا چاہئے۔ طاقتور کو جاری سبسڈی کے حوالہ سے سوشل میڈیا پر آوازوں کی کیا حقیقت ہے، اس حوالہ سے بھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ ان سبسڈیز کو کیسے کم کیا جائیگا۔ وزیر خزانہ نے خود تسلیم کرلیا ہے کہ ٹیکس قوانین موجود ہیں لیکن اتھارٹی جس طریقے سے ٹیکس اکٹھا کرنا ہے نہیں کر رہی۔ نظام میں خامیاں ہیں۔ ان کو دور کرنا ہے۔ اتنی خامیوں کے بعد وزیراعظم کا "آخری بار آئی ایم ایف کے چکر” کے نعروں میں صرف سیاست ہی نظر آتی ہے، حقیقت پسندانہ اقدامات نہیں۔ حکومتی اخراجات میں کمی کے حوالہ سے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت کو ان وزارتوں کو ختم کرنا چاہئے جو پہلے ہی صوبوں کو دیدی گئی ہیں۔ مختلف حکومتی شعبوں کو بھی ضم کر دینا چاہئے تاکہ اخراجات میں کمی ہو۔ مشکلات سے ایسے ہی نکالا جائیگا لیکن باقی جتنے بھی وزیر خزانہ رہے ان سب نے بھی حکومت وقت کو ایسی ہی پیشکش اور صورت حال سے آگاہ کیا تھا۔ لیکن حکومت وقت نے وزارتوں کی کارکردگی کے حوالہ سے سوچنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ اربوں روپے کے اخراجات ہر سال ہوتے ہیں لیکن ان اداروں کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے، حال
ہی میں گندم کا سکینڈل سامنے آیا، پاسکو کی کارکردگی پر کوئی سوال نہیں، ملک کو اجناس کی کمی کا سامنا ہے، یہ چند سالوں میں سب سے بڑا مسئلہ بن جائیگا لیکن حکومتی اداروں کی طرف سے کوئی اقدامات نہیں لیکن ان کے اخراجات اربوں روپے ہیں۔ پاکستان ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی کارکردگی کو ہی دیکھ لیں۔ ایکسپورٹ میں کون سی بڑی تبدیلی لے کر آئے ہیں اور ایسے اداروں کے بجٹ ملک پر بوجھ بن چکے ہیں۔ حکومت سنجیدہ ہو تو کئی چیلنجز سے نمٹا جاسکتا ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ موسمی تبدیلی بھی بڑا مسئلہ ہے، اس سال 2022سے زیادہ خطر ناک سیلابی صورتحال کا سامنا ہوسکتا ہے۔ درجہ حرارت میں مسلسل اضافے سے گلیشیئر کا جلدی پگھلنا اور طوفانی بارشوں میں اضافے کی پیش گوئی ہے۔ اس حوالہ سے اجلاس تو کئے جا رہے ہیں لیکن عملی اقدامات نظر نہیں آرہے۔ ماضی کی طرح اس بار بھی صوبہ سندھ میں زیادہ بارشوں کی پیش گوئی ہے۔ یہ تمام ایسے چیلنج ہیں جن کو چند مہینوں یا سالوں میں حل نہیں ہونگے، ان مسائل کیلئے دس بیس سال پلاننگ کی ضرورت ہے۔ سیاسی محاذوں نے اداروں میں سیاسی آب کاری کی ہے۔ کرپٹ، نااہل بھرتیوں نے ریاست کے پلروں میں سیمنٹ نہیں مٹی بھری جارہی ہے۔ چند روپوں میں ملک کا سودا کر رہے ہیں۔ لوگوں کے حق کو سلب کرکے مافیا کو قابض بنا رہے ہیں۔ پہلے سنا کرتے تھے کہ سرکار کی زمین پر قبضہ لیکن اب گلی محلوں میں موجود خالی پلاٹ پر قبضے ہورہے ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان ان اوورسیز شہریوں کی پراپرٹی کا ہوا ہے جو ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ وہ شہری ہیں جو ہر سال اربوں ڈالر ملک میں زرمبادلہ بجتے ہیں۔ خالی پلاٹوں پر قبضہ کیسے ہوتا ہے اس پر تفصیلی رپورٹ لکھ رہا ہوں جو جلد پبلش کی جائیگی۔ رپورٹ کو مطلقہ اداروں اور وزیراعظم ہائوس تک ڈائری کرایا جائیگا۔