تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیوں؟
روشن لعل
وفاق اور ملک کے چاروں صوبوں میں پیش کردہ بجٹ ، 30جون 2024ء تک یقینی طور پر منظور ہو جائیں گے، کیونکہ یکم جولائی سے قبل بجٹ کی منظوری ایک آئینی تقاضا ہے۔ وفاق سمیت چاروں صوبوں کے وزرائے خزانہ نے جو بجٹ پیش کیے ان پر مختلف مبصروں نے مختلف قسم کے تبصرے پیش کیے۔ ان مبصروں کے جلو میں کچھ ایسے ماہرین معیشت بھی نظر آئے جنہیں سرکاری ملازموں کی تنخواہوں اور پنشن میں کیا گیا اضافہ ایک آنکھ نہیں بھایا۔ سرکاری ملازموں کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ پر تنقید کرنے والے مبصروں کی باتیں سن کر حیرانی ہونے کے ساتھ ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ یہ کیسے ماہرین معیشت ہیں جنہیں تنخواہ یا اجرت کی اہمیت کا قطعاً کوئی اندازہ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وہ ،یہ بات سمجھنے سے بھی قاصر نظر آئے کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازموں کی تنخواہ ملک میں جاری معاشی سرگرمیوں میں کیا مثبت کردار ادا کرتی ہے اور مثبت معاشی کردار کے جاری رکھنے کے لیے ان کی تنخواہوں میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ کس قدر ضروری ہوتا ہے ۔
واضح رہے کہ تنخواہ یا اجرت وہ معاوضہ ہوتا ہے جو کسی فرد کو اس کی محنت یا خدمات کے عوض دیا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم میں خدمات کے عوض اجرت یا معاوضہ لینے یا دینے کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ اس دور میں یا تو خدمت کے تبادلے میں خدمت کا لین دین ہوتا تھا یا پھر کسی عوضانے کے بغیر جبراً مشقت کرائی جاتی تھی ۔ محنت کے اس استحصال کو بیگار کہا گیا۔ زر کی ایجاد سے تنخواہ یا اجرت وصول کرنے کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد ا شیا اور خدمات کے تبادلے کی بجائے ان کی خرید و فروخت کا آغاز ہوا۔ اس طرح ، اشیا کے ساتھ ساتھ خدمات کے بھی نرخ مقرر ہونے لگے۔ اس امر سے نہ صرف معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا بلکہ منڈی کا تصور بھی ارتقائی منزلیں طے کرنے لگا۔ منڈی میں جہاں اشیائے صرف کی طلب اور رسد نے ان کی قیمتوں کے تعین میں بنیادی کردار ادا کیا وہاں ان کو پیدا کرنے والوں کی محنت اور خدمات کی اجرت طے ہونے پر بھی اثرات مرتب کیے۔ اشیائے صرف کی پیداوار اِن کی کھپت اور اجرت کی حیثیت باہمی طور پر لازم و ملزوم ہوگئی۔ اندھا دھند منافع خوری کی ہوس رکھنے والوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ منافع کے حصول کے لیے اشیا کی پیداوار کے ساتھ ساتھ ان کی کھپت بھی بہت ضروری ہے۔ اشیائے صرف کی کھپت صرف اسی صورت ممکن ہوسکتی ہے جب ان کے صارفین کے پاس انہیں خرید کے لیے مناسب زر موجود ہو اور صارف کے پاس زرصرف اسی صورت میں موجودہ ہوسکتا ہے جب اسے اس کی محنت اور خدمات کا مناسب معاوضہ وصول ہو۔ ان حقیقتوں کے تناظر میں یہ بات سامنے آئی کہ کسی بھی سماج میں صرف اس وقت بہتر پیداواری اور معاشی سرگرمیاں روبہ عمل ہوسکتی ہیں جب ان صارفین کی محنت کے بہتر معاوضے سے مشروط قوت خرید مستحکم تر ہو۔ صارفین کی مستحکم قوت خرید کا تصور ترقی یافتہ ملکوں میں تو بہت معروف ہے لیکن پاکستان جیسے ملکوں میں ہرگز ایسا نہیں ہے کیونکہ یہاں اشیا کی پیداوار اُن کی کھپت اور لوگوں کی اجرت میں وہ تعلق اور توازن پیدا نہیں ہوسکا جو ترقی یافتہ ملکوں میں موجود ہے۔ اس طرح کا توازن پیدا نہ ہونے کی ایک وجہ وہ نام نہاد ماہرین معیشت بھی ہیں جنہیں خاص طور پر سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں اضافہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
پاکستان میں چونکہ منڈی کی سرگرمیاں جائز ذرائع سے اپنی محنت کا معاوضہ حاصل کرنے والوں کی بجائے اُن لوگوں پر زیادہ منحصر ہیں جن کے پاس رشوت، کمیشن، ٹیکس چوری اور دوسرے ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ دولت ہے اس لیے پاکستان کی منڈیوں میں اشیائے صرف کی قیمتوں کا تعین کرنے میں اُن لوگوں کی طلب کا کردار بہت محدود ہے جن کی جائز ذرائع سے حاصل کردہ تنخواہ یا اجرت انتہائی قلیل اور اُن کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ ایسے لوگوں کی اکثریت کا تعلق سرکاری ملازموں سے ہے۔
پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ یہاں سرکاری ملازموں کی اکثریت رشوت خور اور کام چور ہے۔ گو کہ اس تاثر کو مجموعی طور پر جھٹلایا نہیں جاسکتا لیکن اسے مکمل حقیقت بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔ اعلیٰ سرکاری افسروں سے نائب قاصد کا عہدہ رکھنے والے ہر سرکاری ملازم کو اس طرح کے اختیارات حاصل نہیں ہوتے کہ جنہیں استعمال کرکے وہ نا جائز آمدن کے انبار جمع کر سکے ۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ 80فیصد سے زیادہ سرکاری ملازمین اپنی اس مخصوص تنخواہ کے مطابق ہی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں جو ان کی بنیادی ضروریات کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ تین چار سال کے دوران بنیادی ضروریات زندگی سمیت دیگر اشیائے صرف کی قیمتیں جس طرح کئی گنا بڑھ چکی ہیں اس مناسبت سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا۔ موجودہ مرکزی اور صوبائی حکمران گزشتہ دور حکومت مین جب اپوزیشن میں تھے تو ان کی طرف اکثر یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد وہ عام آدمی کی آمدن کو اس حد تک لے جائیں گے جس سے وہ ذہنی سکون کے ساتھ زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری کر سکے گا ۔ موجودہ وفاقی حکومت نے گریڈ ایک سے 16کی تنخواہوں میں 25اور گریڈ 17سے 22تک 20 فیصد اضافہ کیا ہے۔ پنجاب اور بلوچستان کی حکومتوں نے اپنے صوبوں کے سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں وفاق کے فارمولے کے مطابق اضافہ کیا ہے۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں سب سے زیادہ اضافہ کرنے کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے گریڈ ایک تا 6کے سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں 30 فیصد، گریڈ 7سے 16کی تنخواہوں میں 25فیصد اور گریڈ 17سے 22کی تنخواہوں میں 22فیصد اضافہ کیا ہے ۔ اپنے سرکاری ملازموں کی تنخواہیں بڑھانے میں تحریک انصاف فیم سنی تحریک کی حکومت اب تک سب سے پیچھے ہے۔ کے پی کے حکومت نے حاضر سروس سرکاری ملازموں کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں صرف10اضافہ کیا ہے۔ وفاق اور تین صوبوں نے ریٹائر سرکاری ملازمین کی پنشن 15فیصد تک بڑھائی ہے۔ حکومت پاکستان نے سال 2024۔25کے لیے افراط زر کی شرح 11.8فیصد تک رہنے کی امید ظاہر کی ہے جبکہ آئی ایم ایف کی پیش گوئی ہے کہ ملک میں افراط زر کی شرح12.7فیصد تک رہے گی ۔ جتنی مہنگائی گزشتہ برسوں کے دوران یہاں ہو چکی ہے اور افراط زر کی شرح کے متعلق جو پیشگوئی کی گئی ہے اگر اس کو مد نظر رکھا جائے تو پھر سرکاری ملازموں کی تنخواہوں کی اضافہ کی مخالفت کرنے کی گنجائش کہیں نظر نہیں آتی۔ سرکاری ملازمین ہر ماہ تنخواہ وصول کرنے کے بعد پہلے دس دنوں میں اس کا تقریباً اسی فیصد بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مارکیٹ میں خرچ کر دیتے ہیں ۔ مارکیٹ میں خرچ کردہ یہ رقم بعد ازاں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوکر ملکی معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے میں جتنا اہم کردار ادا کرتی ہے ہمارے نام نہاد ماہرین معاشیات نہ جانے کیوں اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔