پاکستان

سائفر کیس: ’استغاثہ نے ملزم کو گواہ بنا کر اپنا مقدمہ خود خراب کیا‘

سابق وزیر اعظم عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے سائفر مقدمے میں سزا کے خلاف اپلیوں پر سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ سائفر کی کاپی ان کے مؤکل سے نہیں بلکہ وزیراعظم آفس سے گم ہوئی ہے۔

منگل کو سماعت کے دوران سلمان صفدر نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ سائفر کی کاپی عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری کے سپرد کی گئی تھی اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی ان ہی کی تھی۔ ان کے مطابق اعظم خان کو ملزم سے گواہ بنا دیا گیا اور ان کابیان قابل اعتبار نہیں۔

عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے طرف سے اس سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے دورکنی بینچ میں شامل جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ لاپرواہی سے یا جان بوجھ کر سائفر گُم کرنے کا چارج اعظم خان پر کیوں نہیں لگایا گیا؟ جس پر عمران خان کےوکیل نے کہا کہ استغاثہ نے ملزم کو گواہ بنا کر اپنا کیس خود خراب کر لیا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال اٹھایا کہ اعظم خان کو سائفر کاپی موصول ہوئی لیکن کیا اس کی حفاظت کرنا بانی پی ٹی آئی کی ذمہ داری تصور نہیں ہو گی؟

بیرسٹر سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں کہا کہ اعظم خان نے سائفر کاپی وصول کی، کہا گیا ہے پرنسپل سیکرٹری کو جاری کی گئی سائفر کاپی واپس نہیں آئی۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے سائفر لے کر پڑھا لیکن واپس یا گُم کرنے سے متعلق شہادت میں کچھ نہیں آیا، سائفر کی کاپی دی گئی یا نہیں؟ وزیر اعظم نے کاپی لی یا نہیں؟

جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے استفسار کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ کوئی دستاویز ریکارڈ پر نہیں جو یہ ثابت کرتی ہو کہ سائفر کی کاپی بانی پی ٹی آئی کے سپرد کی گئی؟ سلمان صفدر نے جواب دیا بالکل، میں یہی کہہ رہا ہوں۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل میں کہا کہ کوئی دستاویز گُم ہونے پر انسانی غلطی کی گنجائش چھوڑی گئی ہے، قوانین کے مطابق اگر کوئی دستاویز گُم ہو جائے تو وہ مجرمانہ فعل نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ اعظم خان نے سائفر دستاویز کی مناسب حفاظت نہیں کی اورسائفر دستاویز گم کرنے کا ذمہ دار عمران خان کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ انھوں نے کہا کہ انسانی غلطی پر کسی سابق وزیراعظم کو سزا نہیں دی جا سکتی۔

سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹس میں کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹسں کا ایک میکانزم دیا گیا ہے جس کے مطابق اگر سائفر گم ہو جائے تو وزارتِ خارجہ کو رپورٹ کرنا ضروری ہے، 28 مارچ کو وزارت خارجہ کو وزیراعظم آفس نے سائفر کاپی کی گمشدگی سے آگاہ کر دیا تھا۔

سلمان صفدر کے مطابق وزارت خارجہ نے فوری طور پر انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کو مطلع کرنا تھا جو کہ نہیں کیا گیا، میکانزم کے مطابق محکمانہ انکوائری وزارت خارجہ کے اعلی افسران نے کرنی ہے جو کہ نہیں ہوئی۔

سلمان صفدر کا کہنا تھاعمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا، بانی پی ٹی آئی کے سخت حریف رانا ثناء اللہ کے وزیر داخلہ ہوتے ہوئے مقدمہ درج ہوا تھا۔

دورانِ سماعت انھوں نے الزام عائد کیا کہ اسد عمر پارٹی چھوڑتے ہیں تو ملزم نہیں بنتے، شاہ محمود قریشی پارٹی نہیں چھوڑتے تو بغیر ثبوت سزا دی جاتی ہے۔

عدالت نے پوچھا کیا ریکارڈ پر ایسا کچھ لکھا ہوا ہے؟ جس پر سلمان صفدر نےجواب دیا ریکارڈ پر نہیں لیکن شاہ محمود قریشی نے اپنے بیان میں اس حوالے سے کچھ کہا ہے ۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا جو ریکارڈ پر نہیں وہ بات یہاں نہ کریں۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا اعظم خان کو گواہ بنانے سے پہلے پروسیجر فالو نہیں کیا گیا، ان کا بیان قابلِ اعتبار نہیں بلکہ کمزور شہادت ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیے اعظم خان لاپتہ ہوتے ہیں، ایف آئی آر درج ہوتی ہے اور پھر وہ اچانک سامنے آجاتے ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ایک اہم ٹرائل کا مرکزی گواہ لاپتہ ہو گیا، پھر واپس آگیا، کیا اس کا اثر اس کے بیان پر نہیں پڑے گا؟ دو ہفتے یا دو دن لاپتہ رہنے کے بعد کوئی اگر بیان دیتا ہے تو اس کی حیثیت کیا ہو گی؟

سلمان صفدر نے کہا کہ انھوں نے اپنی وکالت میں ایسی صورتحال کبھی نہیں دیکھی۔

بیرسٹر سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر کو دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آپ کو دلائل کے لیے طویل وقت چاہیے تو سزا معطل کر دیتے ہیں۔

سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ انہیں دلائل کے لیے تین چار دن چاہئیں جس کے بعد مزید سماعت کل 17 اپریل تک ملتوی کردی گئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button