ColumnRana Ijaz Hussain

عید الفطر انعام کا دن

رانا اعجاز حسین چوہان
رحمتوں اور برکتوں سے مہینے کے بعد عید الفطر کا مقدس دن بھی آگیا۔ اللہ ربّ العزت نے امت مسلمہ پر خاص احسان فرماتے ہوئے عید الفطر اور عید الاضحیٰ جیسے خوشی کے مقدس تہوار عطاء فرمائے ، جن کے آتے ہی ہر مسلمان کے دل میں خصوصی جوش اور ولولہ پیداہوجاتا ہے ۔ عید الفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو روزہ اور عبادتِ رمضان کا انعام عطا فرماتے ہیں۔ گرمی کی حدت وشدت میں روزے کی محنت ومشقت اٹھانے والے ایسے خوش نصیب ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی رضا ومغفرت اور گناہوں کی بخشش کے اعزاز سے نوازتے ہیں، اور ان کے اعزاز میں ہونے والی تقریبات کا اہتمام و انتظام فرش پر ہی نہیں عرش پر بھی کیا جاتا ہے، جنت کو ان کے اعزاز میں سجایا، سنوارا جاتااور فرشتوں میں ان کا تذکرہ ہوتا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ جنہوں نے اس ماہ مبارک کی بر کتوں ، رحمتوں کو سمیٹا، گناہوں کو بخشوایا، قیام اللیل کیا، دن کو روزے رکھے، سب سے قطع تعلق ہوکر اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کیا، صبر و ایثار کو اپنایا ، مساجد کو آباد کیا، ، قرآن مجید کوسنا اور سنایا، اپنی جبینوں کو اللہ رب العزت کی حضور جھکایا، اپنی زندگیاں، شب روز، معاملات، معمولات، کاروبار، گھربار کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کا عہد کیا۔ گرمی اور بے تاب و بے قرار کر دینے والی بھوک وپیاس کو برداشت کیا اور اللہ کی رضا کیلئے رمضان کے مہینے میں محنت ومشقت کی۔ عید الفطر ماہ رمضان کے ان روزوں کا انعام ، اور امت مسلمہ کے مسلمانوں کے لئے خوشیوں کی نوید ہے ۔
احتیاط کا دامن تھامتے ہوئے اس دن کو ہم نے اپنے گناہوں سے مغفرت کا دن بنانا ہے، اور عید سعید کی خوشیوں کے لمحات میں ایسے ہر کام سے بچنا ہے جو شعائر اسلام کے منافی ہو۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں۔ ’’ عید ان کی نہیںجنہوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو زیب تن کیا، بلکہ حقیقتاً عید تو ان کی ہے جو خدا کی وعید اور پکڑ سے ڈر گئے۔ عید ان کی نہیں جنہوں نے بہت سی خوشبوؤں کا استعمال کیا عید تو ان کی ہے جنہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے‘‘۔
پورے ماہ رمضان قید رہنے کے بعد اس دن شیطان جو ہمارا ازلی دشمن ہے آزاد ہوجاتا ہے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس کے بہکاوے میں آکر ماہ رمضان میں سمیٹی نیکیوں کو ضائع کردیں، اور عذاب الٰہی کے مرتکب ٹھہریں۔ لہٰذا عید کے دنوں میں غیر شرعی ، غیر اسلامی کاموںسے ، بری مجلسوں میں جانے ، ناچنے گانے اور بے ہودہ پروگراموں میں شرکت سے اجتناب برتنا ضروری ہے۔ اور عید سعید کی خوشیوں کے موقع پر اپنی خوشیوں میں ان افراد کو ضرور شامل کرنا چاہئے جنکا کوئی پوچھنے والا نہیں، کیونکہ ہمارا پیار مذہب اسلام سب سے زیادہ معاشرتی اور سماجی فلاح، مساوات اور روداری کا درس دیتا ہے، اور آسودہ حال مسلمانوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ معاشی طور پر بدحال لوگوں کا سہارا بنیں۔ اپنے لیے تو سب جیتے ہیں، جینا وہ ہے جو دوسروں کی خاطر ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ مخلوق اللہ کی عیال ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے جو اس کی عیال سے محبت کرے‘‘۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ خدا کی قسم وہ مومن نہیں، جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوک سے کروٹیں بدلتا رہے‘‘۔
ہمیں چاہیے کہ اپنی خوشیوں میں غرباء و مساکین اور محتاجوں کو بھی شامل کریں، اور رسمی رکھ رکھائو کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غریب لوگوں کو بھی گلے سے لگائیں گے کیونکہ سچی خوشی تو وہی ہے جو آپ کو ردعمل کے طور پر ملے اور جب کسی دکھی، غریب ، کمزور کو سینے سے لگایا جاتا ہے تو اس سے یقینا مسرتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ عید کے موقع پر والدین کو خصوصی وقت دینا چاہیے، کیونکہ زندگی کے انتہائی تیز رفتار شب و روز میں اکثر بزرگوں کو دینے کیلئے ہر چیز ہم خرید کر تو دے دیتے ہیں اور اشیائے صرف کا انبار بھی لگا دیتے ہیں مگر ایک چیز جسکی شدید کمی ہے اور وہ وقت ہے جو ہم لوگ اپنے والدین اور بزرگوں کو نہیں دے پاتے۔ عید کا دن جہاں پیار محبت اور خوشیاں بانٹنے کا دن ہے وہاں نفرتوں ، ملامتوں اور ناراضی کے مٹانے کا بھی دن ہے ، عید کے موقع پر نفرتوں کو بھول کر ، رنجشوں کو ترک کرکے عزیز رشتہ داروں کو گلے سے لگا نا چاہیے، نہ معلوم اگلی عید کے موقع پرہمیں ان کی یا انہیں ہماری رفاقت نصیب ہو یانہ ہو۔ عید کے دن کو یاد گار بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم خوشیاں پانے کی تمنا رکھنے کی بجائے خوشیاں بانٹیں ، کیو نکہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں اور یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہی تو زندگی کی راہوں میں تازگی اور مسرتوں کے چراغ ہیں اگر انکی روشنی دوسروں کی راہوں میں بکھیر دی جائے ان میں کمی نہیں ہو گی بلکہ بڑھے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button