سیاسیات

‘جن ججوں نے میری تعریف میں خط لکھا٬ وہ میرا سوشل بائیکاٹ کرتے رہے’

جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ ان کی گزشتہ 5 سال کی تکالیف کے دوران اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے انہیں نا پسندیدہ شخصیت سمجھا، ان میں وہ ججز بھی شامل ہیں جنہوں نے حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ کر ان کے کیس کا حوالہ دیا اور عدلیہ کی آزادی ان کی برسوں طویل جدوجہد کو سراہا۔

سینئر صحافی انصار عباسی سے بات چیت کرتے ہوئے شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ اپنی زندگی کے تکلیف بھرے ان برسوں میں انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیٹھے اپنے برادر ججز سے سماجی بائیکاٹ کا سامنا رہا، ’’ان لوگوں نے دعوت دینے کے باوجود میری بیٹی کی شادی میں شرکت تک نہ کی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ان تمام باتوں میں جسٹس گُل حسن اورنگزیب ہی وہ واحد شخص تھے جو ان کے ساتھ عید پر مبارکباد کا تبادلہ کرتے۔

انہوں نے کہا کہ چند روز قبل چیف جسٹس کو خط لکھنے والے 6 ججز میں چار ایسے ہیں جنہیں بیٹی کی شادی میں شرکت کیلئے دعوت دی تھی لیکن وہ نہیں آئے۔

تاہم، جسٹس (ر)صدیقی کو الزامات سے بری کرنے والے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد ان میں سے ایک جج نے جسٹس (ر) صدیقی سے ملاقات کی اور انہیں مبارکباد پیش کی۔

انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے جولائی 2018ء میں خطاب اور نتیجتاً ملازمت سے برطرفی (جسے اب سپریم کورٹ نے غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا ہے) کے بعد، کسی جج نے بھی ان تمام برسوں میں ان کے حق میں ایک لفظ تک نہ کہا۔

دلچسپ بات ہے کہ اپنے خط میں 6؍ ججز نے شوکت صدیقی کے کیس کو نمایاں طور پر توجہ کا مرکز بنایا ہے اور اسی خط کی بنیاد پر انہوں نے دھونس اور دباؤ کے مبینہ واقعات کا ذکر کیا ہے جن کا انہیں سامنا ہے۔
جسٹس صدیقی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کیلئے آئی ایس آئی کی مداخلت کیخلاف بات کی تو ان کے برادر ججز سمیت پوری عدلیہ نے انہیں تنہا چھوڑ دیا اور ان کے ساتھ ناپسندیدہ شخصیت جیسا سلوک روا رکھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button