کند ہم جنس بہ ہم جنس پرواز
سیدہ عنبرین
سردار الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ؐ نے اعلان نبوت فرمایا اور دعوت قبول اسلام دی تو آپؐ پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ زمانہ جاہلیت تھا، جاہلیت میں گھرے ہوئے لوگ آسانی سے راہ حق کی طرف پلٹنے کیلئے تیار نہ ہوئے بہت سی دیگر خرافات کے ساتھ ساتھ جب دو گروہوں میں جنگ ہوئی تو جیتنے والا شکست کھانے والوں کے مال اسباب پر قبضہ کر لیتا ان کی عورتوں اور بچوں کو اپنا غلام بنا لیتا اس کے علاوہ بعض اوقات تاوان جنگ بھی طلب کیا جاتا۔ نبی کریمؐ نے اسلامی تعلیمات کے مطابق عورتوں اور بچوں سے نرمی کے سلوک کا حکم دیا انہیں وہ حقوق دیئے جو کسی اور مذہب نے آج تک انہیں نہ دیئے۔ آپؐ نے خود معقول رقم ادا کر کے قیدیوں کو آزاد کرایا اور دوسروں کو بھی اس کام کی تلقین کی طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد فتح مکہ کا خوبصورت دن چڑھا پھر اس کے بعد عام معافی کا اعلان ہوا، لوگ جوق در جوق حلقہ اسلام میں داخل ہونے لگے مساوات قائم کی گئی خوشحالی کا دور شروع ہوا خلافت راشدہ کے بعد جب عمر بن عبدالعزیز کا زمانہ آیا تو عالم یہ تھا کہ مسلمان صدقہ خیرات زکوٰ ۃ دینا چاہتے تو اس کا مستحق مشکل سے ملتا، قیدیوں کو قید سے رہا کرانے کی روایت پر اسلامی ممالک میں آج بھی عمل کیا جاتا ہے جس زمانے میں یہ نیک کام شروع ہوا اس وقت جنگی قیدی ہوا کرتے تھے جنہیں غلام بنا لیا جاتا تھا جرائم نہ تھے نہ ہی جرائم پیشہ لوگ ہوا کرتے تھے اب صورتحال مختلف ہے پاکستان کی مختلف جیلوں میں مجموعی طور پر لاکھوں قیدی موجود ہیں ان میں عورتوں اور بچوں کے علاوہ بزرگ قیدی بھی موجود ہیں مردوں میں ایسے افراد ہیں جو قتل و غارت گری، اغوا، اغوا برائے تاوان، زمین وراثت کے جھگڑوں، لین دین کے معاملات منشیات کے کاروبار اور دیگر مذموم سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں، بہت کم تعداد ایسے افراد کی ہے جن کا کوئی گناہ کوئی قصور نہیں انہیں ان کے مخالفین نے نظام اور اس کے کل پرزوں کے ساتھ ساز باز کر کے مختلف مقدمات میں الجھا دیا ہے وہ مقدمات اور ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔
خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد مجرمانہ گرمیوں میں ملوث ہونے کے سبب جیلوں میں ہے، ان میں بیشتر کے مقدمات کے فیصلے ہو چکے ہیں وہ سزا کاٹ رہی ہیں کچھ ایسی بھی ہیں جن کے مقدمات ابھی زیر سماعت ہیں انہیں ضمانت کا انتظار ہے جیلوں میں بند خواتین پر قتل، اقدام قتل، قتل میں معاونت، چوری، ڈکیتی، ڈکیتی میں معاونت، منشیات فروشی اور عصمت فروشی کے جرائم اور دیگر الزامات ہیں۔ نصف سے زائد خواتین جرائم پیش گروہوں کی رکن ہیں کئی مقدمات میں مردوں کے ساتھ سزا یافتہ ہیں اور مجرمانہ ریکارڈ رکھتی ہیں، ان میں شادی شدہ کئی بچوں کی مائیں اور کنواری عورتیں شامل ہیں، سیکڑوں خواتین ایسی ہیں جنہوں نے اپنی قید کے دوران ہی بچوں کو جنم دیا ہے وہ بچے جیل میں ان کے ساتھ ہی زندگی گزارتے ہیں، قیدیوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو میاں بیوی دونوں جیل میں اپنی سزا بھگت رہے ہیں انہیں جیل مینوئیل اور اصلاحات کے بعد شب بسری کی سہولت ملتی ہے لیکن ایک قیمت ادا کرنے کے بعد جیل میں پیدا ہونے والے بچے کئی برس اپنی مائوں کے ساتھ اسی ماحول میں رہتے ہیں بہت کم ایسی عورتیں ہیں جن کے بچے ان کے عزیز و اقارب کے پاس پرورش پاتے ہیں یا انہیں جیل سے باہر کوئی سنبھالنے والا موجود ہے۔ یہ بچے ہوش سنبھالنے کے بعد کس قسم کے شہری بنتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کیونکہ جیلوں کے اندر ایک مختلف دنیا آباد ہے جہاں ہر قسم کے جرائم ہوتے ہیں، جیل کے ماحول کو بہتر رکھنے اور نیک چلنی کے قانون کے مطابق قیدیوں کو سزا میں معافی دی جاتی ہے معمولی جرائم کرنے والوں کو معافی اور بعض اوقات جرمانہ ادا نہ کرنے کی سکت رکھنے والوں کے جرمانے ادا کر کے انہیں رہا کرنے کی گنجائش کا ناجائز فائدہ بھی اٹھایا جاتا ہے مخیر حضرات اپنے من پسند قیدیوں کے جرمانے ادا کر کے انہیں رہا کراتے ہیں پھر وہ انہیں اپنی غلامی میں لے لیتے ہیں یہ غلام رہا کرانے والے آقا کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ رمضان عبادات کا مہینہ ہے اس مہینے میں قیدیوں کو معافی اور رہائی دیکھنے میں آتی ہے قیدیوں سے بہتر سلوک کا سرکاری حکم آتا ہے سحری و افطاری کا خاص انتظام کیا جاتا ہے جیل کی مسجد میں تراویح کا انتظام بھی ہوتا ہے، روز عید اپنے رشتہ داروں سے ملنے کی سہولت ان سے فون پر لمبی گفتگو کی اجازت بھی ملتی ہے لیکن سب کچھ جیل کی دنیا کے اصولوں کے مطابق چلتا ہے۔
تحریک انصاف نے اپنے زمانہ حکومت میں نوجوانوں اور عورتوں کو بہت اہمیت دی انہیں زندگی کے تمام شعبوں میں آگے لایا گیا اب تمام سیاسی جماعتیں اس روش کو اپنانے میں لگی ہیں کوئی اس سے کنارا کش نہیں ہو سکتا۔ پنجاب میں ن لیگی حکومت کی سربراہ وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز نے بھی خواتین سے رابطوں کا آغاز کیا ہے۔ لاہور کی جیلوں میں مختلف جرائم میں قید خواتین کو سب سے پہلے ملاقات کیلئے چنا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے ان کے ساتھ روزہ افطار کیا، مختلف ٹی وی چینلز پر چلنے والی فوٹیج میں وہ اپنے ہاتھ سے سامان افطار ان عورتوں کو پیش کرتی اور دودھ ملا لال شربت ان کے گلاسوں میں انڈیلتی نظر آئیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب ان عورتوں میں گھل مل گئیں تاکہ انہیں اپنائیت کا احساس ہو، لاہور کی جیلوں میں بند جرائم پیشہ خواتین اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ خاتون وزیراعلیٰ نے انہیں سب سے پہلے ملنا اور ساتھ روزہ افطار کرنا مناسب سمجھا اب زندگی کے دیگر شعبوں سے وابستہ خواتین پرامید ہیں کہ انہیں بھی ملاقات کا موقع دیا جائے گا اور افطار ڈنر پر مدعو کیا جائے گا ان میں بینکرز پڑھی لکھی خواتین، ڈاکٹرز، پروفیسرز، انجینئرز، آئی ٹی سپیشلسٹ اور زندگی کے دیگر شعبوں میں گرانقدر خدمات انجام دینے والی خواتین شامل ہیں ۔ دوسری طرف زمانے کی ٹھکرائی ہوئی اور دنیا میں تنہا رہنے جانے والی خواتین اور مختلف شیلٹر ہومز میں رہنے والے ماں باپ کی شفقت سے محروم بچے بھی ان کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی جرائم پیشہ خواتین سے جیل میں ملاقات نیک عمل ہے، پر ملک کے طول و عرض میں تنقید ہو رہی ہے، کیا ہی اچھا ہوتا وہ ان ملاقاتوں کا آغاز زندگی کے کسی اور شعبے سے کرتیں۔ ضروری ہے وہ سب کچھ اپنے بزرگ میڈیا منیجر پر نہ چھوڑیں بلکہ اپنے ذہن سے کام لیں۔ قارئین کی خدمت میں ایک شعر جس کا کالم سے کوئی تعلق نہیں۔
کند ہم جنس بہ ہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر باز بہ باز