ColumnImtiaz Aasi

حملے کا خطرہ ملاقات پر پابندی

امتیاز عاصی
ساہیوال کی ہائی پروفائل سکیورٹی جیل پر حملے کے خطرے کی خبر آتی تو دل اور عقل دونوں تسلیم کر لیتے جیل پر حملے کا خطرہ ہو سکتا ہے لیکن سینٹرل جیل اڈیالہ پر حملے کے خطرے کے پیش نظر قیدیوں کی ملاقاتوں پر دو ہفتے کے لئے پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ایک اردو معاصر نے پنجاب کی پانچ جیلوں میں سیکورٹی تھریٹ کی وجہ سے ملاقاتوں پر عارضی پابندی کی سپر لیڈ لگائی ہے جس میں اٹک، میانوالی، ڈیرہ غازی خان اور بھکر کی ڈسٹرکٹ جیل بھی شامل ہے۔ جس روز پابندی کی خبر آئی اسی رات ہماری راولپنڈی کی سنٹرل جیل کے ایک افسر سے فون پر بات ہوئی تو اس نے بتایا جیل کے باہر نوٹس چسپاں کر دیا گیا ہے نہ ملاقات ہوگی اور نہ کسی قسم کا کوئی سامان قیدیوں اور حوالاتیوں کو اندر بھیجا جا سکتا ہے۔ دراصل دل اس بات کو ماننے کو تیار نہیں کیا کیا جائے وہ جہاں ملک بھر سے گرفتار اور پھانسی کے منتظر دہشت گرد اور ڈاکٹر شکیل آفریدی ایسے معروف قیدی بند ہیں اس جیل کو کوئی خطرہ نہیں خطرہ ہے تو اسی جیل کو ہے جہاں عمران خان بند ہے ۔ بہرکیف جس کے ذہن کی بھی اختراع ہے اس کو داد دینی چاہیے۔ ویسے تو ہم کون سا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی احکامات کی پروا کرتے ہیں۔ ڈیڑھ عشرے تک ہم بھی اسی جیل کی بی کلاس میں گزار آئے ہیں ڈاکٹر عثمان جیسے سنگین جرم میں گرفتار حوالاتی جس نے جی ایچ کیو پر حملہ کیا تھا اور بعد میں اسے پھانسی کی سزا ملنے کے بعد سنٹرل جیل فیصل آباد میں پہلی بار کسی کو پھانسی پر چڑھایا گیا وہ عثمان ہی تھا اڈیالہ جیل کے سیل نمبر دو میں ہوتے ہوئے بھی جیل کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ نواز شریف اور مریم نواز کے علاوہ شاہد خاقان عباسی یہیں رہ چکے تھے تب جیل کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔تاہم چند روز پہلے خبر تھی چند افغان دہشت گردوں کو سیکورٹی اداروں نے اسلحہ سمیت گرفتار کیا ہے وہ جیل پر حملہ کرنے والے تھے ۔ جیل کی سیکورٹی وارڈ میں آرمی سے سزا یافتہ فوجی افسران رکھے گئے کبھی سکیورٹی تھریٹ کی خبر نہیں سنی تھی۔ پرانے وقتوں میں جیلیں کچی ہوا کرتی تھیں۔ جیل کی بیرونی دیوار جسے کوٹ موکا کہتے ہیں قیدیوں کی بیرکس کے خاصی قریب ہوتی تھی اس بات کا خدشہ رہتا تھا کہیں قیدی سرنگ لگا کر فرار نہ ہو جائیں۔ ڈسٹرکٹ جیل گجرات کا مشہور واقعہ ہے جہاں سے قیدی سرنگ لگا کر فرار ہو گئے تھے یا پھر ڈیرہ غازی خان کی جیل سے قیدیوں نے سرنگ لگائی تھی۔ ایک شخص کو قید کرکے بھی جی نہیں بھرا ہے بس مسئلہ یہ ہے کسی طریقہ سے عوام کی حمایت ختم ہو جائے۔ اللہ کے بندوں جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لئے کتنے جتن کئے پارٹی آج بھی آب و تاب سے زندہ ہے بلکہ اسی پارٹی کا دوسری مرتبہ صدر بنا ہے۔ ہمارے سیاست دان جانے ملک سی کیا کرنا چاہتے ہیں۔ انتخابات ہو چکے ہیں حکومت وجود میں آچکی ہے۔ ایک طرف حکومت قیدیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے کی دعویٰ دار ہے آئی جی جیل خانہ جات آئے روز قیدیوں کی فلاح و بہبود کا پرچار کرتے رہتے ہیں۔ چلیں ہم آج عمران خان اور میاں نواز شریف کی قید کا موازنہ کرتے ہیں۔ نواز شریف جن دنوں جیل میں تھے انہیں بی کلاس کے لئے مختص کمرے میں رکھا گیا تھا جہاں اٹیچ باتھ الیکٹرک گیزر اور ایسے کچن کی سہولت میسر تھی جہاں ڈی فریزر، فریج، سوئی گیس، اوون جیسی سہولتیں موجود تھیں۔ چار دیواری کے اندر پھولوں سے مزین احاطہ میاں صاحب کی چہل قدمی کیلئے موجود تھا۔ ہمیں ان باتوں کا پوری طرح اس لئے علم ہے ہم اسیری کے دوران وہیں رہ چکے ہیں۔ عمران خان کو بی کلاس ہوتے ہوئے بھی سزائے موت کا ایک پہرہ جو جیل کے سکول سے متصل ہے وہاں رکھا گیا ہے جہاں نہ تو باقاعدہ کچن ہے نہ الیکٹرک گیزر اور نہ بیڈ ہے بلکہ سیل کے دروازے پر سردی سے بچائو کے لئے پلاسٹک شیٹ لگانے کی اجازت ہے جو سزائے موت کے قیدیوں کو لگانے کی اجازت ہوتی ہے۔ جیلوں کے سیلوں کے دروازوں کی سلاخوں میں کافی فاصلہ ہوتا ہے عام دروازوں کی طرح دروازہ نہیں ہوتا۔ سیلوں کو قیدی اندر سے خود بند نہیں کر سکتے بلکہ جیل حکام جس وقت اور جب چاہیں اچانک کھول کر تلاشی لے سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان بھی رہ چکا تھا پر باغی بن گیا تھا کسی کو امید نہیں تھی وہ اتنا خود سر ہو سکتا ہے۔ تعجب ہے ٹی وی سکرین پر جب بھی آتا اس کے یہی الفاظ ہوتے ہم ایک پیچ پر ہیں۔ دراصل غلطی تو شروع میں ہو گئی تھی جو اسے عدم اعتماد سے نکالا گیا اگر وہ اپنی ٹرم پوری کر لیتا تو شائد عوام میں اتنا مقبول نہ ہوتا زنداں میں جانے کے بعد عوام کی آنکھ کا تارا بن گیا ہے نوجوان نسل اس کی گروید ہ ہے۔ پی ٹی آئی انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلیوں اور مخصوص نشستوں کے چھین جانے کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ ضلع اٹک کی جیل سے راولپنڈی سنٹرل جیل آنے کا عمران خان ایک یہی مقصد ہو سکتا تھا اسے بی کلاس قیدیوں کے لئے مختص کمرے میں رکھا جائے گا ورنہ سیل تو اٹک جیل میں تھے وہیں رہ سکتا تھا۔ عمران خان جن مقدمات میں قید ہے وہ کوئی ملکی سالمیت کے خلاف کسی مقدمہ میں سزا یاب نہیں ۔ عمران خان اور اس کی پارٹی کے سیکڑوں مرد اور خواتین کے خلاف حکومت نے مقدمات قائم کرنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے اس کے باوجود جی بھر نہیں رہا۔ راولپنڈی کی جیل جسے ہائی تھریٹ قرار دیا گیا ہے قیدیوں اور حوالاتیوں کے پاس پہنچنا اتنا آسان نہیں جیتنا سمجھ جا رہا ہے۔ کوٹ موکا پر وقفے وقفے پر ٹاور تعمیر کئے گے ہیں جہاں دن رات مسلح لوگ ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔ جیل کے ساتھ پولیس چوکی کی خاصی نفری موجود رہتی ہے جب سے عمران خان کو یہاں لایا گیا ہے جانے کتنے اداروں کے اہل کار جیل کے اندر اور باہر ڈیوٹی پر مامور ہیں۔ درحقیقت عمران خان کی جماعت کے سنیئر عہدے دار آئے روز عدالتوں سے ملاقات کے لئے احکامات لے آتے تھے۔ علی امین گنڈا پور نے کابینہ تشکیل کے لئے مشاورت کی۔ قیدی سے ہر روز اتنے روز ملاقات کرنے والے ہوں تو پھر قید کس بات کی۔ پھر عمران خان جیسے قیدیوں کے ہوتے ہائی تھریٹ نہ ملے تو کیا ملے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button