Columnمحمد مبشر انوار

خوف اور انقلاب

محمد مبشر انوار( ریاض)
انتخابی نتائج نے تقریبا سب سیاسی جماعتوں کے ہوش ٹھکانے لگا دئیے ہیں البتہ حکومت میں شامل جماعتوں کے نزدیک ان نتائج سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اہمیت ’’ قبولیت‘‘ کی ہے، مقبولیت کی نہیں۔ حتی کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے لگایا جانے والا نعرہ کہ ووٹ کو عزت دو یا یہ زعم کہ ووٹ نواز شریف کا ہے، دونوں دعوے ان انتخابی نتائج میں زمین بوس نظر آ رہے ہیں، اس کے باوجود حکومت مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کی تشکیل پا چکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس اتحاد کے ثمرات سمیٹتے ہوئے آصف علی زرداری ایک مرتبہ پھر صدر مملکت منتخب ہو چکے ہیں اور صدارتی انتخاب میں بھی، آئینی رکاوٹوں کو جس طرح عجلت میں عبور کیا گیا ہے، وہ بذات خود شرمندگی ہے لیکن اس عمل میں شامل کسی کو بھی اس شرمندگی کا احساس تک نہیں اور ڈھٹائی کے ساتھ جو منصوبے بھی رجیم چینج سے تیار کئے گئے تھے، ان پر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ عمل ہو رہا ہے۔ تاہم یہاں ایک ایسا منصوبہ بھی ہے کہ جس پر کوشش کے باوجود عمل درآمد نہیں کرایا جاسکا اور ایک ’’ بیمار شخص‘‘ کو لندن سے یہ آس دلا کر بلوایا گیا کہ نئے انتخابات میں اسے چوتھی مرتبہ وزیر اعظم کے عہدہ جلیلہ پر فائز کرایا جائے گا اور اس بیمار شخص کو یہ خوش کن تاثر دیا گیا کہ عوام آپ کی راہ تک رہی ہے ،عوام میں صرف جناب ہی کی پذیرائی ہے اور ووٹ بھی صرف آپ کے دم قدم ،ذات بابرکات کے طفیل انتخابی بکسوں کی زینت بنے گا۔ یہ تاثر اس قدر پر اثر تھا کہ بیمار شخص کی بیماری، جو چار سال تک ٹھیک نہ ہو سکی تھی، فوری ٹھیک ہو گئی اور ڈاکٹرز نے باقی دنیا کے علاوہ پاکستان سفر کرنے کی بھی بخوشی اجازت مرحمت فرما دی،کہ جیسے ہی موصوف پاکستان وارد ہونگے ،ہر طرف سے عوام کے ہجوم استقبال کو باہر نکل آئیں گے،انتخابی عمل یکطرفہ ہو جائے گا اور مخالفین کی ضمانتیں ضبط ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔اس خوش گمانی میں انتخابی جلسوں کی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ انتخابی بکسوں سے نکلنے والے ووٹوں کا انبار بہرحال انہی کی کامیابی و کامرانی کا اعلان کرے گا ،کہ یہ تو طے شدہ امر تھا اور اس کے حصول کی خاطر تو تنہا مخالف کو سخت ترین ریاستی جبر کا سامنا تھا،پھر یہ کیسے او رکیونکر ممکن تھا کہ عوام اس کے حق میں ووٹ دیتی؟یات یہاں تک رہتی تو ٹھیک رہتا لیکن عوام کے سامنے ہر وقت جمہوریت کی گردان نے ،عوام کو بھی جمہوری بنا کر رکھ دیا کہ وہ واقعتا یہ سمجھنے لگے کہ وہ ایک جمہوری ملک کے شہری ہیں،کیا ہوا اگر ان کے سیاسی قیادت اسیری میں ہے،وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے ،اس جمہوری ملک میں ،اپنی سیاسی قیادت کو جمہوری طریقے سے اس غیر قانونی اسیری سے رہائی دلوا دیں گے۔بس پھر کیا تھا،عوام نے جلسوں ،جلوسوں ،ریلیوں یا امیدواران کی طرف سے ’’ بریانیوں‘‘ کی پروا نہ کرتے ہوئے،انتخابات کے روز اپنے ووٹ سے زیر عتاب سیاسی جماعت کے حمایت یافتہ امیدواران کے حق میں ووٹ بیلٹ بکسوں میں بھر دئیے۔اس دن سے منصوبہ سازوں کے لئے،دردسر اس قدر بڑھ چکا ہے کہ لندن سے درآمد شدہ چی گویراکو کامیاب کروانے کے جتن ہنوز جاری وساری ہیں لیکن تمام تر کاوشوں و کوششوں کے باوجود،جو انتخابی کارروائیاں جاری ہیں،ان میں کئی ایک مسائل منہ کھولے کھڑے،ان کی ناکامی و نااہلی کی داستان سنارہے ہیں۔بات یہیں تک رہتی تو ممکنہ طور پر قابل فہم ہوتی لیکن اس داستان زوال کو دیکھتے ہوئے،ماضی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے ،ہوس اقتدار میں کیا کچھ نہیں کیا اور اقتدار میں آ کر ہوس زر میں پاکستانی معیشت کو کس طرح کھوکھلا کر دیا ہے،اور آج اس زوال میں کوئی غیر نہیں بلکہ اپنے ہی دکھائی دے رہے ہیں۔
بہرکیف پاکستان میں ہونے والے تقریبا تمام تر انتخابات کے نتائج پر ہمیشہ دھاندلی کے الزامات لگتے رہے ہیں اور کسی ایک انتخاب کو بھی صاف وشفاف نہیں کہا جا سکتا البتہ انتخابی عمل میں دن بدن دھاندلی اس طرح منظم ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کو دھاندلی زدہ بھی کہتی ہیں اور پارلیمان کا حصہ بھی دکھائی دیتی ہیں۔ انتخابی عذرداریوں کا عمل اس قدر عجیب و غریب ہے کہ کسی بھی متاثرہ فریق کے لئے اس کے اندر رہتے ہوئے اپنا حق حاصل کرنا تقریبا ناممکن دکھائی دیتا ہے کہ قانونی کارروائیوں کے دوران پوری مدت گزر جاتی ہے اور فیصلہ آنے پر ،اس فیصلے کی حیثیت قطعی غیر متعلق ہو چکی ہوتی ہے۔ہم ایسے نظام میں جی رہے ہیں کہ جہاں انصاف کا حصول تقریبا ناممکن ہو چکا ہے،یہ بات عام شہری کی نہیں بلکہ ان مراعات یافتہ افراد کی ہو رہی ہے ،جو عوامی نمائندے کے طور پر پارلیمان کا انتخاب لڑتے ہیں،جہاں انہیں عوامی مسائل کے حل کے لئے آواز اٹھانا ہوتی ہے،اپنے انتخاب کے حوالے سے ان کی قانونی چارہ جوئی پر فیصلے مدت پارلیمان کے بعد دئیے جاتے ہیں ،جن کا ہونا نہ ہونا ایک برابر تصور ہوتا ہے۔اس پس منظر میں ،کسی زیر عتاب مقبول سیاسی جماعت کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ قانونی کارروائیوں کے راستے اپنا حق حاصل کرسکے،انصاف لے سکے؟دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ حکمرانی پر ایسے افراد فائز ہو جائیں کہ جن کے انتخابی نتائج واضح طور پر ردو بدل کرکے ،انہیں کامیاب کروایا گیا ہو،جن میں منتقم مزاجی کا عنصرایک ایک قدم سے عیاں ہوتا ہو، رواداری سے جن کا دور کا واسطہ نہ ہو،ریاستی مشینری کو وہ گھر کی باندی سمجھتے ہوں اور ریاستی مشینری بھی شاہی خاندان کی ذاتی جاگیر بنی ہو،ایسے ماحول میں یہ کیسے ممکن ہے کہ متاثرہ فریق کو انصاف مل سکے؟جمہوری معاشرے میں پر امن احتجاج کا حق ہر شہری او رہر متاثرہ شخص کو میسر ہے تاوقتیکہ یہ احتجاج پر امن رہے،لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی سیاسی بساط پر مخالفین درپردہ ایسے انتظامات کرنے میں بھی ماہر ہیں کہ مخالف کے پرامن احتجاج میں اپنے تربیت یافتہ اور زرخرید کارکنان کو شامل کروا کر ،ایسے احتجاج کو پر تشدد بنا کر،ریاست کو بروئے کار آنے کا موقع فراہم کردیا جائے۔ماضی میں ایسا بارہا ہو چکا ہے،حکمران جماعت یا آقاؤں نے جب اور جہاں چاہا، ایسا ماحول گرما دیا اور جس کو زنداں میں ڈالنا مقصود ہوا،اسے بآسانی ان حربوں سے اسیر کر لیا یا دوران احتجاج ہی اگلے جہاں پہنچا دیا گیا۔
تحریک انصاف انتخابی نتائج میں واضح برتری کی دعویدار ہے اور اس کے نزدیک میاں نواز شریف،مریم نوازشریف،میاں شہباز شریف،حمزہ شہباز شریف ،خواجہ آصف کے ساتھ کئی اور ایسے افراد رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے /کروائے گئے ہیں،جو بنیادی طور پر انتخابات میں ناکام ہو چکے ہیںلہذا ایک طرف تحریک انصا ف انتخابی عذرداریاں دائر کرنی کی پالیسی پر گامزن ہے تو دوسری طرف جس طرح الیکشن کمیشن جانبداری سے تحریک انصاف کے حقوق کو دیگر جماعتوں میں تقسیم کر کے،تحریک انصاف کو کمزور پوزیشن میں لا رہا ہے،اس کے خلاف عوامی احتجاج کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ کار دکھائی نہیں دیتا۔جس کے جواب میں وزیراعلیٰ پنجاب نے ایک طرف ایسے احتجاج کے خلاف بے رحمی سے نمٹنے کا اعلان کیاتو دوسری طرف پنجاب پولیس کی بربریت نے عوام میں خوف کی لہر دوڑا دی،حالانکہ بین السطور کہا یہ گیا تھا کہ احتجاج میں کسی بھی قسم کے تشدد پر، بے رحمی سے نپٹا جائیگا۔ گزشتہ اتوار کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے، پورے ملک میں احتجاج کی کال دے رکھی تھی، لیکن پنجاب میں سڑکوں پر احتجاجیوں کی نسبت میڈیا اور پولیس کی تعداد زیادہ دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے باوجود، پنجاب پولیس کو ہدایات تھی کہ کسی بھی طرح اس احتجاج کا رنگ بنتے دکھائی نہیں دینا چاہئی، لہذا چند ایک مظاہرین کو بھی منتشر کرنے سے گریز نہیں کیا گیا اور پارٹی پرچموں کو بھی لہرانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان ریاستی انتظامات کے تحت اگر کوئی سیاسی جماعت یہ تصور کرتی ہے کہ وہ ایک جمہوری طریقے سے پاکستان میں انقلاب بپا کر سکتی ہے،تو حالیہ انتخابی نتائج نے اس کی نفی کر دی ہے اور اگر کوئی سیاسی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ وہ عوامی مقبولیت کے بل بوتے پر عوامی احتجاج کے ذریعے حکومت یا آقائوں کو ہٹا سکتی ہے، تو خوف کے اس ماحول میں جب عوام سڑکوں پر ہی نہیں نکل سکتے، کیسا انقلاب بپا ہو سکے گا؟ خاکم بدہن ! ایسے ماحول میں کسی بھی قسم کے ’’ نرم انقلاب‘‘ کی توقع عبث ہے کہ خوف مسلسل تو بس ’’ خونی انقلاب‘‘ کی راہ ہموار کرتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button