ColumnTajamul Hussain Hashmi

محمد اورنگزیب کون ہیں؟

تجمل حسین ہاشمی
محمد اورنگزیب تجربہ کار بینکر ہیں، جنہیں پاکستان اور بیرون ممالک کے بینکوں کا تین دہائیوں پر محیط وسیع تجربہ ہے۔ اس وقت محمد اورنگزیب اپریل 2018سے حبیب بینک لمیٹڈ (ایچ بی ایل) کے صدر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ہیں۔ یہ کئی سال سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے سی ای اوز میں سرفہرست رہے ہیں۔ محمد اورنگزیب نے امریکی ریاست پنسلوانیا کے شہر فلاڈیلفیا میں واقع پنسلوانیا یونیورسٹی کے وہرٹن سکول سے اکنامکس میں بیچلرز آف سائنس اور بعد میں ماسٹرز آف بزنس ایڈمنسٹریشن (ایم بی ای) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ حبیب بینک لمیٹڈ کی ویب سائٹ کے مطابق محمد اورنگزیب نے اپنے کیریئر کا آغاز سٹی بینک سے کیا تھا، جس کے بعد وہ سٹی بینک نیویارک چلے گئے۔ بعد ازاں انہوں نے نیدرلینڈز کے تیسرے بڑے بینک اے بی این ایمرو بینک میں سینئر لیڈرشپ کی پوزیشن کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی، جہاں ان کے کام کی بدولت انہیں اے بی این ایمرو بینک پاکستان کے کنٹری منیجر کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ محمد اورنگزیب اے بی این ایمرو بینک ایمسٹرڈیم اور آر بی ایس سنگاپور میں ریجنل اور گلوبل عہدوں پر بھی تعینات رہے۔ 2011میں جے پی مورگن بینک کے ایشیا پیسیفک، گلوبل کارپوریٹ بینک کے سی ای او بھی رہے۔ محمد اورنگزیب کو عالمی مارکیٹ کے ساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق محمد اورنگزیب کو وزارت خزانہ میں ممکنہ طور پر اہم عہدے میں شامل کیا جارہا ہے جو مالی معاملات میں مہارت رکھتے ہیں لیکن اس وقت انہیں بہت سے چیلنجز درپیش ہوں گے۔ اس وقت ملک کے جو حالات ہیں، اس میں ان کیلئے کام کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ ان کیلئے چند بڑے چیلنجز ہوں گے، جن میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنا، شرح سود کو بیلنس کرنا، دن بدن ڈالر کے بڑھتے ریٹ کو کنٹرول کرنا اور روپے کی قدر میں اضافہ کرنے سمیت اداروں کی کارکردگی، لا اینڈ آرڈر کی صورت حال، تاجر مافیا، قیمتوں میں عدم استحکام، روزگار کی فراہمی جیسے دیگر بڑے چیلنجز شامل ہیں جبکہ پاکستان میں اس وقت بجلی اور گیس کے نرخ سب سے زیادہ ہیں اور ٹیکس کلیکشن بھی بڑا چیلنج ہے۔ سابق چیئرمین نادرا طارق ملک کا کہنا تھا کہ نادرا کو صاحب حیثیت افراد کا ڈیٹا دیدیا گیا، اگر ان افراد سے 15ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ اب ان طاقتوروں کا حساب کرنا اداروں کی ذمہ داری ہے اور ادارے اس وقت سیاسی مقاصد کیلئے استعمال ہو رہے ہیں، جن کو آئین پاکستان کے تحت کام کرنا تھا وہ سیاسی پشت پناہی میں بیٹھے ہیں۔ بیوروکریسی اور اب نچلی سطح پر بھی سرکاری ملازمین سیاسی بنیادوں پر پوسٹ کئے جارہے ہیں جو کہ انتہائی الارمنگ صورت حال کی پیش گوئی ہے۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران مجموعی طور پر ملک میں گیس کی قیمت میں 520فیصد جبکہ بجلی کی قیمت میں 71فیصد تک کا اضافہ ہوا۔ مہنگائی کی شرح 25فیصد سے زیادہ رہی۔ ان تمام چیلنجز کو پورا کرنے کیلئے لمبا عرصہ درکار ہے۔ اگر انہیں کام کرنے دیا جائے تو ممکن ہے ملکی حالات پہلے سے بہتر ہوں گے۔ شبر زیدی، مفتاح اسماعیل بھی قابل شخص تھے مگر انہیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔ ملک میں سرمایہ لانے کیلئے ‘ایس آئی ایف سی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ لیکن ابھی تک کوئی خاص ورکنگ نظر نہیں آرہی، ممکن ہے آنے والے دنوں میں کوئی بہتر اقدامات نظر آئیں۔ سب سے بڑا اور اہم کام پرسکون الیکشن کرانا تھا، جو مکمل ہوچکا ہے۔ اسمبلیوں کی تشکیل کی قوم منتظر ہے تاکہ کوئی بہتر معاشی فیصلہ سامنے آئے۔ گزشتہ 4سال سے ایک خوف و ہراس کی فضا تھی۔ لاہور کی لمز یونیورسٹی کے شعبہ اکنامکس سے منسلک ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر علی حسنین نے انٹرنیشنل میڈیا کو انٹرویو میں کہا کہ اگر ایس آئی ایف سی کا مقصد ملک میں سرمایہ لانا ہے تو صرف سرمایہ لانے سے معیشت بہتر نہیں کی جاسکتی جب تک آپ اپنی مینجمنٹ ٹھیک نہیں کرتے۔ میرے مطابق ہمارے ہاں مسائل کی پیدائش اور ان کے حل کیلئے کسی کے پاس کوئی مناسب پلان نہیں ہے۔ اداروں میں مس مینجمنٹ اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ ادارے ٹھیکیداری سسٹم میں چل رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنا حصہ وصول کر رہا ہے۔ ہمیں اس وقت مضبوط معاشی پلان کی ضرورت ہے۔ نگران حکومت نے کئی اقدامات کئے لیکن بعض جگہ خاموش نظر آئی۔ نگران وزیر آئی ٹی کے دعوے کھوکھلے نظر آئے کیوں کہ آئی ٹی کی سب سے بری مارکیٹ سوشل میڈیا ہے جس کو بندش کا سامنا رہا۔ پکڑدھکڑ اور لا اینڈ آرڈر کے کافی مسائل رہے۔ نگران حکومت کے دور میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ دیکھا گیا، اس اضافہ کی بنیادی وجہ اداروں کی طرف سخت اقدامات کئے گئے تھے۔ ہمارے ہاں ماضی کی سیاسی جماعتوں کی طرف کوئی خاص فیصلے نہیں کئے۔ سب سے زیادہ قرض انرجی سیکٹر کیلئے حاصل کئے گئے۔ آج عوام سب سے زیادہ پریشان (انرجی سیکٹر) بجلی اور گیس کے بلوں سے ہیں۔ نیشنل اور انٹر نیشنل مالیاتی اداروں سے حاصل قرض کو بے دردی سے غیر پیداواری اور ذاتی مفادات کی تسکین میں صرف کیا گیا۔ قرض ملک کیلئے بوجھ ہے۔ یہ بوجھ کئی نوجوان کا قتل ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button