Column

حضرت سخی لعل شہباز قلندرؒ

ضیا الحق سرحدی
منم عثمان مروندی کہ یار خواجہ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بردار می رقصم
( ترجمہ: میں عثمان مروندی ہوں کہ خواجہ منصور میرے دوست ہیں ساری دنیا مجھے ملامت کرتی ہے اور میں اس ملامت کے بوجھ کو اٹھائے ہوئے رقص کرتا ہوں)
برصغیر میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اقدس کی کرم نوازی اور سرور کائنات حضرت محمد مصطفیؐ کا صدقہ ہے کہ اس سر زمین کو اولیاء کرام اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے ما لا مال کیا ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ اس سرزمین پر ہندو مذہب کا راج تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ کی ذات کی نظر عنایت ہوئی تو اس سر زمین پر سید عثمان مروندی المعروف حضرت سخی لعل شہباز قلندرؒ، حضرت داتا گنج بخشؒ، حضرت خواجہ غریب نواز سرکارؒ، سید شاہ عبد الطیف المعروف بری امام سرکارؒ، حضرت بو علی قلندر ؒ، حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت علائوالدین احمد صابر کلیری ؒ، پیر و مرشد پیر سید عبد الرحمان شاہ با با چشتی صابری ؒ اور پیر و مرشدی رئیس الفقراء حضرت پیر سید مستان شاہ سرکار حق با باؒ وارد ہوئے تو ان کی آمد کے بعد اس پاک سر زمین کی کایا پلٹ گئی اور ان کی محنتوں، کوششوں کی وجہ سے غیر مذہب اپنی موت خود مر گئے اور دین اسلام کا عروج شروع ہو گیا ۔ سندھ کی سر زمین پر اگر کسی ہستی نے دین اسلام کو پھیلایا تو وہ شخصیت دنیا کے پہلے قلندر حضرت سخی لعل شاہ قلندر ؒ کی ہستی ہے ۔
دنیا میں قلندر اس ہستی کو کہتے ہیں کہ جو دنیا کی ہر آرائش و زیبائش کو ترک کر کے اپنے آپ کو یاد الٰہی میں محو کر دیں قلندر کو حقیقت سے معرفت ہوتی ہے اور معرفت کی نگاہ رکھتے ہیں ۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام جعفر صادقؒ سے ملتا ہے ۔ پیر و مرشد نے ’’ لال شہباز ‘‘ کا لقب عطا کیا کچھ روایتوں کے مطابق آخری عمر میں آپ پر جذب و سکر کی کیفیت طاری ہوگئی تھی اس لئے قلندرکہلائے حضرت لعل شہباز نے تلاش علم میں مختلف علاقوں کے طویل سفر اختیار کئے۔ شیخ فرید الدین عطار ؒ ، شیخ صدرالدین ملتانیؒ اور حضرت مخدوم جلال الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت ؒ جیسے عظیم صوفیائے سے آپ کی صحبتیں رہتی تھیں ۔
حضرت لعل شہباز قلندر آذر بائیجان ( آرمینا) کے ایک گائوں مروند میں 538ہجری میں پیدا ہوئے آپ کا حقیقی نام سید محمد عثمان تھا لیکن آپ نے سخی لعل شہباز قلندر کے نام سے شہرت پائی آپ کے والد گرامی کا نام سید کبیر الدین تھا ۔ حضرت سخی لعل شہباز قلندر کے والد کو سیرو سیاحت کا بڑا شوق تھا آپ حضرت امام حسین کے مزار اقدس کی زیارت کے لئے کربلا تشریف لے گئے اور وہاں سے معرفت و ولایت کے اسرار و رموز میں آگہی حاصل کی ۔ شادی کا خیال ترک کر دیا لیکن ایک رات خواب میں ان کو حضرت سخی لعل شہباز قلندر نظر آئے اور انہوں نے عرض کی با با مجھے باہر نکالو اس پر آپ نے جواب دیا کیا جنت سے باہر نکلنا افضل ہے عرض کی ہاں دنیا میں ظہور پذیر ہونا احسن ہے اس اشارہ کے بعد سید کبیر الدین نے شادی کا ارادہ کیا ۔ ادھر مروند کے حاکم سلطان شاہ کو باطنی طور پر حکم ملا کہ اپنی بیٹی کی شادی سید کبیر الدین سے کر دو چنانچہ اس طرح سید کبیر الدین کی شادی ہوئی اور یوں حضرت سخی لعل شہباز قلندر رہبر روحانی مولود ہوئے ۔
خداوند کریم نے آپ کو حسن و جمال سے اس قدر نوازا تھا کہ آپ کی پیشانی کے نور کے آگے چاندنی بھی مات تھی آپ بہت ذہین تھے آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی سات سال کی عمر میں آپ نے قرآن مجید حفظ کر لیا تھا ۔ عربی اور فارسی میں آپ نے بہت کم عرصہ میں مہارت حاصل کر لی آپ کی والدہ صاحبہ آپ کی اوائل عمری میں وفات پا گئیں اور والد کا سایہ بھی ان کے کچھ عرصہ کے بعد آپ کے سر سے اٹھ گیا ۔
ایک بار آپ اپنے ہم عصر بزرگوں حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ، حضرت جلال الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت ؒ اور مخدوم بہائوالدین زکریا ملتانیؒ کے ہمراہ کہیں جا رہے تھے کہ اچانک چلتے چلتے آپ رک گئے اور چہرہ مبارک سے پریشانی کے آثار ظاہر ہو نے لگے ۔ ’’ مخدوم کیا ہوا ‘‘ ؟ ساتھی بزرگوں نے پوچھا میرا ایک مرید اس وقت بڑی مشکل میں ہے آپ نے فر ما یا آپ حضرات اپنا سفر جاری رکھیں یہ کہہ کر آپ نے اس طرح جست لگائی جیسے ہوا میں پرواز کر رہے ہوں اور نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔ کچھ دیر بعد حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ، حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشتؒ اور مخدوم بہائو الدینؒ نے حضرت سید عثمان المعروف سخی لعل شہباز قلندرؒ کو سامنے سے اپنی طرف آتے دیکھا ۔ آپ کے ہمراہ ایک اجنبی شخص تھا جب چاروں بزرگ اپنی منزل پر پہنچ گئے تو ایک بزرگ نے سوال کیا ’’ مخدوم کیا یہی وہ مرید ہے جس کی وجہ سے آپ کو پریشانی تھی ؟ آپ ؒ نے فر ما یا حق تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے میرے مرید کو گرداب بلا سے نکال کر عافیت کے ساحل تک پہنچایا ! آپ کی یہ کرامت دیکھ کر تینوں عارفان وقت نے بے ساختہ فر ما یا مخدوم ! آپ ’’ شاہ باز ‘‘ ہیں اسی دن سے حضرت سید عثمان شہباز کے لقب سے مشہور ہو گئے پھر یہ لفظ کثرت استعمال کی سبب ’’ شہباز ‘‘ ہو گیا ۔
حضرت سخی لعل شہباز قلندر ؒنے سیاحت کے دوران دنیا کا کونہ کونہ دیکھا بہت سارے بزرگان دین سے ملاقاتیں کیں فیوض و برکان کی دولتوں سے اپنا دامن مراد بھرا اور پھر مکہ معظمہ پہنچے وہاں حج کیا پھر حضور کے روضہ مبارک پر حاضری دی یہاں سے آپ شہر مشہد پہنچے اور ساتھ ہی تاجدار اسیر بغداد حضرت امام موسیٰ کاظم کے مزار پر آئے یہاں پر ہی آپ کی ملاقات حضرت با با ابراہیم سے ہوئی جن سے آپ نے بیعت و خلافت حاصل کی ان کے حکم سے آپ نے برصغیر کی طرف قدم بڑھایا اور سیون شریف میں اپنا ٹھکانہ بنایا اسی سفر میں آپ کی ملاقات حضرت بو علی شاہ قلندر سے بھی ہوئی۔ کراچی سے آگے منگو نامی پہاڑ پر حضرت شیخ بہائو الدین ملتانیؒ کے ایک ہم عمر بزرگ دفن ہیں اس پہاڑی پر ایک شہر حضرت لعل شہباز قلندر کے نام پر ہے جن کے دونوں طرف خوبصورت باغ ہیں یہ درویشوں کا مسکن ہے ۔
آپ کے متعلق ایک بات بڑی مشہور ہے کہ آپ نے بہت سے علاقوں میں چلہ کشی کی وہاں کے لوگوں کو اپنی سحر انگیز شخصیت سے متاثر کیا انہیں اسلام کی دولت سے ما لا مال کیا اور سندھ کے علاقے پر آپ نے اپنی شخصیت کے گہرے نقوش چھوڑے آپ کی کرامات لوگوں میں بہت مقبول ہیں چند کرامات سپرد قلم کر رہا ہوں ۔ لعل باغ جو کہ شہباز قلندر کے نام سے ہے جو کہ بہت بڑا باغ ہے اس باغ میں تندور ہے جس کے بارے میں یہ کرامت آپ کی مشہور ہے کہ لعل شہباز قلندر نے سوا کلو آٹا سے روٹی پکا کر سوا لاکھ افراد کا روزہ افطار کرایا تھا اس جیسی ایک بہت بڑی کرامت کہ اس باغ میں ایک قدیمی درخت کی بھی حفاظت کی جاتی ہے یہی درخت اس باغ کی بنیاد بنا تھا لعل شہباز قلندر اس وقت مسواک کر رہے تھے آپ نے وہی مسواک زمین میں گھاڑ دی چند دنوں میں وہی مسواک درخت کی شکل اختیار کر گئی اس سے بڑا کوئی درخت اس باغ میں نہیں ۔ حضرت لعل شہباز قلندر کے دربار کے باہر ایک لمبا علم جس کی 70فٹ کے لگ بھگ لمبائی ہو گی یہ بھی سرکار نے خود ہی اپنے دست مبارک سے لگا یا تھا ۔اس علم کو بھی محفوظ کر دیا گیا ہے کیونکہ عقیدت مند اور زائرین اس کی لکڑی جو کہ صندل کی ہے تبرک کے طور پر توڑ توڑ کر لے جاتے تھے ۔ حضرت لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر تین مرتبہ نوبت بجائی جاتی ہے نوبت بجانے کا اصل مقصد لوگوں کو ہر وقت برائیوں سے بچنے اور موت کو یاد دلانے کے لئے فقیرانہ انداز میں کوشش کی گئی ۔
نماز زاہداں سجدہ سجود است
نماز عاشقاں ترک وجود است
( ترجمہ: زاہدوں کی نماز یہ ہے کہ وہ رکوع و سجود کرتے ہیں اس کے برعکس عاشقوں کی نماز یہ ہے کہ وہ اپنے وجود نفس کو ترک کر دیتے ہیں)
آپ کا مزار فیروز شاہ تغلق کے دور میں ماہِ رجب بمطابق 775ھ میں سیوستان کے حاکم ملک اختیار الدین نے تعمیر کریا پھر 1228ھ میں سندھ کے حکمران غلام شاہ کلہوڑی نے اس میں توسیع کی ۔ آپ ؒ کو اس عالم فانی سے رخصت ہوئے سات سو سے زائد سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر آپ کا فیض روحانی آج بھی جاری ہے ۔ دھمال کو آپ کے ہاں ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے راقم کو بھی سیہون شریف جانے کا اتفاق ہوا اور یہ منظر دیکھنا نصیب ہوا حضرت لعل شہباز قلندر سرکار کی تاریخ وفات 21شعبان 673ھ بمطابق 1253ء بتائی جاتی ہے ہر سال آپ کے مزار اقدس سیون شریف میں آپ کا سالانہ عرس مبارک منایا جاتا ہے عرس مبارک میں آپ کے عقیدت مند بڑی تعداد میں ملک بھر سے شرکت کرتے ہیں اس کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک سے بھی زائرین عرس مبارک کی تقریبات میں شمولیت حاصل کرنے کے لئے تشریف لاتے ہیں سیون شریف میں آج بھی چھ گنبدوں پر مشتمل آپ کا مزار زیارت گاہ خاص و عام ہے ۔ جہاں ہر سال 18شعبان بمطابق29فروری بروز جمعرات سے لے کر 21شعبان تک آپ کا چار روزہ عرس منا یا جاتا ہے ۔
ولی اللہ تے مردے ناہیں کر دے پردہ پوشی
کی ہو یا جے دنیاں اتوں ٹر گئے نال خاموشی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button