Column

بجھے چراغوں کی طرح بجھے چہرے

تحریر : سیدہ عنبرین
جمہوری عمل کی تشکیل میں جمہور کو اپنی پسند و ناپسند کے اظہار کی آزادی ہوتی ہے یہی نکتہ اول ہے پھر اس اظہار کے نتیجے میں ووٹ کاسٹ کرنا اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنا اور انہیں حکومت سازی کا حق دینا ازحد ضروری ہے۔ حالیہ انتخابات جس ماحول میں ہوئے ہیں اس میں قدم قدم پر جمہور کے حق تلفی ہوتی رہی لیکن اس کے باوجود آج عوامی رائے کے اظہار کے نتیجے میں سیاسی مطلع صاف اور ہر طرح کے ابہام ختم ہو چکے ہیں۔
حکومت سازی کا حق انہیں ہی ہے جنہیں مینڈیٹ ملا ہے اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا دانشمندی نہ ہو گی جہاں جس کا مینڈیٹ ہے اسے حکومت بنانے کا اولین موقع ملنا جمہوریت کی روح کو سیراب کرنا ہو گا بصورت دیگر ہم بنجر نظام میں زندگی تو عرصہ دراز سے گزار ہی رہے ہیں اور ثمر بار نہیں ہو رہے، 70یا 80قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے سے قبل وکٹری سپیچ کرنے کا کوئی جواز نہ تھا ہوس اقتدار کے مارے لوگ تو فقط 15فیصد نتائج کے بعد اپنی ملک گیر فتح کا اعلان کرنا چاہتے تھے لیکن کسی سیانے نے بروقت مشورہ دیا کہ ذرا صبر سے کام لیں ایسا نہ ہو کہ صبح منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں پھر وہی ہوا آنے والی صبح ان کیلئے خوشیوں کا پیغام لانے کی بجائے ندامت کا پیغام لاتی ہے پہلے دو تہائی اکثریت کا خواب چکنا چور ہوا پھر سادہ اکثریت کے لالے پڑ گئے اب حالت یہ ہے کہ جنہیں سڑکوں پر گھسیٹنا تھا جن کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالنا تھی اب ان ہی کی گود میں بیٹھے ہیں اور یاد دہانی کرا رہے ہیں کہ ہم تو ہمیشہ سے بھائی بھائی تھے اور منافقت کیا ہو سکتی ہے۔
قوم کو یہ بھاشن بھی دیا جا رہا ہے کہ ہم ملک کی کشتی کو سمجھدار سے نکالنے کیلئے اکٹھے ہو رہے ہیں اس بات میں ذرہ بھر بھی حقیقت نہیں معاملہ صرف حصول اقتدار کا ہے اور اقتدار کاروبار کا اب دوسرا نام ہے خدمت تو فسانہ ہے حسب اصول طے ہے کہ قومی اسمبلی ہو یا کوئی اسمبلی عددی اکثریت رکھنے والے کا پہلا حق ہے کہ وہ حکومت بنائیں اب یہ ان کی سوچ پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں ڈیڑھ سیٹوں کی طاقت رکھنے والی سیاسی جماعت کا حق چھین کر سو سیٹوں والی سیاسی جماعت کو اقتدار میں لایا گیا تو نظام نہ چل سکے گا سیاسی انتشار بڑھے گا جس کا براہ راست اثر ملک کی دگرگوں معاشی حالت پر پڑے گا اگر یہ سوچا جا رہا ہے کہ قرض اٹھا کر آئندہ 5برس گزار لئے جائیں گے تو یہ چنداں آسان نہیں اب تو سود ادا کرنے کی سکت باقی نہیں، قوم کے کپڑے تو تن سے کب کے اتر چکے اب تو اس کے جسم پر فقط ایک جانگیہ باقی ہے جس سے ستر پوشی میں ناکامی کا سامنا ہے جو کچھ اندر ہے وہ باہر جھانکتا نظر آتا ہے ہماری اگلی پہچان ننگ دھڑنگ قوم کی ہو گی قوم کے وسیع تر مفاد میں اکٹھے ہونے والے قوم کو جھانسا دے رہے ہیں کہ ہم ملک کی تقدیر سنوار دیں گے تو ان سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ آپ یقیناً اسی طرح ملک کی تقدیر سنواریں گے جس طرح 18ماہ کی پی ڈی ایم حکومت جو دراصل ن لیگ اور ہمنوائوں کی حکومت تھی اس میں قوم کی کمر میں خنجر گھونپا گیا تھا اس وقت نہ کسی نے ہاتھ باندھے نہ کسی نے جائز ناجائز یاد دلایا فری ہینڈ دیا گیا اس فری ہینڈ نے ملک برباد کر کے رکھ دیا۔
جمہوریت کے نام نہاد علمبردار ہوش کے ناخن لیں اور آج وہ جمہوری سبق خود بھی یاد کریں جو ہمیشہ دوسروں کو سناتے رہے ہیں، بہتر تو یہ ہو گا کہ قوم و ملک کے وسیع تر مفاد میں نواز لیگ اعلان کرے کہ ہمیں وہ اکثریت نہیں ملی جو حکومت بنانے کیلئے درکار تھی ہم گھوڑے گدھے اونٹ خچر خریدنے فروخت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے لہٰذا اپوزیشن میں بیٹھیں گے اور اکثریتی پارٹی کے مثبت کاموں میں روڑے نہیں اٹکائیں گے۔ ملک وقوم سے محبت کا اس سے بہتر اظہار کسی اور طریق ممکن نہیں۔ مسلم لیگ ( ن) کے ضمیر میں ایسی وسیع القلبی کبھی موجود نہیں رہی لیکن کسی سے بھی اچھے عمل کی توقع کسی وقت بھی کی جا سکتی ہے مزید انہیں یہ بھی فراخدلانہ پیشکش کرنی چاہئے کہ آزاد گروپ کو جہاں جہاں جس جس حلقے میں نتائج پر تحفظات ہیے وہ حلقے بلاتاخیر کھولنے کی حمایت کرتے ہیں۔ یاد رہے گزشتہ سے پہلے انتخابات میں 4حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا گیا جہاں بدترین دھاندلی کے شواہد موجود تھے لیکن نظام اور عدالتی نظام کو یرغمال بنا کر پورے پانچ برس ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا اور حق داروں کو ان کا حق نہ ملا آج جو نفرت کما لی اس کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے۔
ہوس اقتدار کا یہ عالم ہے کہ ایک خاندان آج بھی وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب اپنے گھر اور 20سے 25وزارتیں اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں یوں70سے 80افراد کی کابینہ بنا کر پھر عام سے مطالبہ کیا جائے گا کہ خراب ملکی حالات کے پیش نظر عوام قربانی دیں۔ اس خطرے اور خدشے کے پیش نظر نواز لیگ آج عددی اکثریت حاصل نہیں کر سکی کیونکہ ان کی لیڈر شپ کی طرف سے اسی قوم کے بیانات نے عوام پر واضح کر دیا تھا کہ انہیں اکثریت دی گئی تو وہ اقتدار میں آ کر عام آدمی کا کیا حشر کریں گے۔ آج شریف خاندان کا ہر فرد کہیں نہ کہیں سے انتخاب جیت چکا ہے لیکن انتخابی نتیجہ ان کا اور ان کی پوری جماعت کا منہ چڑانے کیلئے کافی ہے کہ ایک فرد کو اتنے ووٹ حاصل ہو گے جتنے اس حلقے میں درج بھی نہ تھے مزید برآں ایک حلقے میں ان کے مخالف کو ایک بھی ووٹ حاصل نہ ہو سکا کیا عقل سلیم اس نتیجے کو تسلیم کر سکتی ہے پھر جب بات کی جاتی ہے کہ ایک منصوبے کے مطابق دھاندلی کی گئی ہے اور بین الاقوامی میڈیا اس پر بات کر رہا ہے تو الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ الزام تراشی پاکستان مخالف میڈیا کر رہا ہے۔ ایک اور پہلو بھی مرکز نگاہ ہے کہ جن افسران نے دھاندلی کا حصہ بننے سے انکار کیا انہیں نتیجہ جاری کرنے سے قبل تبدیل کر دیا گیا۔ مسلم لیگ ( ن) کو انتخابات میں کتنی بڑی کامیابی ملی ہے اس کا اندازہ اس کے سربراہ کے افراد خانہ کے بجھے چراغوں کی مانند بجھے چہرے دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ نواز شریف صاحب جب اپنی نام نہاد وکٹری سپیچ کر رہے تھے تو تمام افراد خانہ ان کے ساتھ کھڑے تھے لیکن چہروں پر وہ خوشی نہ تھی جو اس سے قبل الیکشن مہم کے دوران نظر آتی تھی ان کے دیکھے سبھی خواب ٹوٹ چکے تھے، از خود اختیارات کے تحت وزیراعظم بننے والی مریم صفدر حالت سوگ میں نظر آئیں، کچھ ایسی ہی صورت سابق شیر شاہ سوری نے بنا رکھی تھی۔ نواز شریف صاحب نے ایک دائو کھیلنے کی کوششیں ضرور کی جو ناکام ہوا۔

جواب دیں

Back to top button