اپنی سب سے بڑی اور سخت سیاسی حریف پی ٹی آئی کو یوٹرن کا طعنہ دینے والی ن لیگ اپنے ہی بیانیوں سے مکرنے لگی جس سے کارکن گومگو کا شکار ہیں۔
اپنی سب سے بڑی اور سخت سیاسی حریف کو یوٹرن کا طعنہ دے کر اس لفظ کو سیاسی گالی بنا دینے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن اپنے دیے گئے بیانیوں سے مکرنے لگی اور جیسے جیسے قائد نواز شریف کی وطن واپسی کی تاریخ قریب آ رہی ہے لیگی قیاددت مٹی پاؤ فارمولے میں تیزی لا رہی ہے۔
پہلے ن لیگ کا ووٹ کو عزت دو کا نعرہ قصہ پارینہ بنا اور اب احتساب کا بیانیے پر بھی یو ٹرن لیا جانے لگا۔ ریٹائرڈ آرمی چیف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی قمر باجوہ اور فیض حمید کے احتساب کا جو پر زور مطالبہ اور اعلان جو حال ہی میں نواز شریف اور سیکنڈ لائن قیادت کی جانب سے کیا گیا تھا وہ بھی اب دم توڑ گیا ہے اور اب یہ معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا گیا ہے اور نیا بیانیہ 9 مئی کے کرداروں کے احتساب کا مطالبہ بلند کیا جا رہا ہے۔
تین بار پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف جنہوں نے اپنی تیسری وزارت عظمٰی قبل از وقت ختم ہونے اور بیماری کے علاج کے لیے لندن جانے کے بعد ببانگ دہل یہ بیان دیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ آپ نے ہماری اچھی بھلی چلتی حکومت کو آپ نے ہی چلتا کرایا ملک وقوم کو اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھایا۔ جواب آپ کو ہی دینا پڑے گا۔
پھر سابق وزیراعظم اور اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی جانب سے اپنی وطن واپسی کی باضابطہ 21 اکتوبر کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد لندن میں ہی اپنی رہائشگاہ پر میڈیا سے گفتگو میں بڑا جذباتی انداز اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ
نے دو ہفتے قبل ہی وطن واپسی کی باضابطہ 21 اکتوبر کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد لندن میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے میرا اور آپ کا تو ایک منٹ میں احتساب ہوتا ہے لیکن اس سب کے پیچھے باجوہ اور فیض ہیں ہمارا سسٹم اس قابل ہے کہ ان کا بھی احتساب کرے۔ جس کو بعد ازاں رانا ثنا اللہ نے اپنے بیان سے تڑکا بھی لگایا تھا۔
تاہم جیسے جیسے وطن واپسی کی تاریخ قریب آ رہی ہے اب لگتا ہے کہ ن لیگ کے اس نئے بیانیے کے غبارے سے بھی ہوا نکلتی جا رہی ہے اور وہ احتساب کے مطالبے سے پیچھے ہٹتی جا رہی ہے اور جو چند دن قبل تک فیض اور باجوہ کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی باتیں کرتے تھے وہاں اب خاموشی چھائی ہوئی ہے۔
نواز شریف کی وطن واپسی کرنے کا اعلان کرنے کے بعد پاکستان واپس آنے والے سابق وزیراعظم شہباز شریف کی اگلے ہی روز اچانک دوبارہ لندن واپسی کیا ہوئی احتساب احتساب کرنے والے مٹی پاؤ کا نعرہ لگانے لگے اور سارے کردار یکدم ہی بدل گئے۔ انتقام کی گونج کے بجائے اب غلطیوں کا اعتراف کر رہے ہیں۔
گزشتہ پی ڈی ایم دور حکومت میں بے محکمہ وزیر جاوید لطیف جو پہلے کہتے تھے کہ 2017 کے کرداروں کو بے نقاب کرنا پڑے گا ان پر مٹی ڈالنے سے گزارا نہیں ہوگا۔ اب کہتے ہیں کہ ہماری مستحکم حکومت ختم کرنے کے جتنے قصور وار ریٹائرڈ جنرل فیض تھے اتنے ہی باجوہ تھے لیکن ہم اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر کسی سے یہ ڈیمانڈ نہیں کرتے کہ ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
سابق وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ جو سابق آرمی چیف کے احتساب کا نعرہ لگا رہے تھے وہ اب احتساب کے بجائے اپنی پارٹی کی غلطی بتا رہے ہیں اور کہتے ہیں باجوہ کی ایکسٹینشن ہماری غلطی تھی۔
ن لیگ کے سینیٹر عرفان صدیقی بھی باجوہ کے ایکسٹیشن کی کھل کر حمایت کرنے اور اس کے حق میں ووٹ دینے کے ن لیگ کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہیں۔
لیگی رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر بھی ماضی بھلا کر آگے بڑھنے کی بات کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں کبھی بھی باجوہ کا احتساب کرنے کی بات نہیں کی۔
سابق وزیر خزانہ اور نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار بھی ن لیگ کے یو ٹرن گروپ میں شامل ہوچکے ہیں اور اب وہ کہتے ہیں کہ میاں صاحب نے فیض اور باجوہ کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ کیونکہ آپ کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ ملک کو ٹھیک کرنے میں لگ جائیں یا پھر اپنے انتقام اور اس کی سیٹلمنٹ میں کی کوششوں میں توانائیاں صرف کریں۔
ووٹ کو عزت دو سے چلتا ہوا احتساب تک آنے والا بیانیہ اور پھر معاملہ اللہ پر چھوڑنے تک کا سفر اور اب 9 مئی کے واقعات کے کرداروں کے احتساب کا مطالبہ، ن لیگ کا اصل بیانیہ ہے کیا؟ لیگی قیادت کے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے بیانات سے کارکن گومگو کا شکار ہیں۔