ColumnImtiaz Aasi

منصف اعلیٰ کا عزم

امتیاز عاصی
حق تعالیٰ نے ملک بھر کے سائلین کی آخر سن لی، برسوں پرانی اپیلوں کو نپٹانے کا وقت آگیا ہے۔ ملک کے منصف اعلیٰ جناب قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ کی تاریخ میں ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی طرف گامزن ہیں۔ منصف اعلیٰ کے اشاروں سے توقع کی جا سکتی ہے عدالتوں میں رلنے والے عوام کو کم سے کم وقت میں انصاف مل سکے گا۔ چیف جسٹس نے مقدمات کے فیصلوں کی تاخیر کا موجب بننے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ انہوں نے متعلقین پر یہ بات واضح کر دی ہے مقدمات میں اب التواء نہیں ملے گا بلکہ پہلی تاریخ پر فریقین کو نوٹس اور اگلی تاریخ پر دلائل کے بعد اپیلوں کا فیصلہ ہو جائے گا۔ پاکستان کی تاریخ میں کتنے چیف جسٹس آئے اور چلے گئے۔ ہر ایک نے منصب سنبھالنے کے بعد مقدمات کی جلد سماعت کا عندیہ دیا مگر عملی طور پر وہ مقدمات کی تعداد میں خاطر خواہ کمی لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ البتہ سابق چیف جسٹس جناب آصف سعید خان کھوسہ نے اپنے دور میں برسوں پرانی فوجداری اپیلوں کا فیصلہ کرنے کا ریکارڈ ضرور قائم کیا۔ نئے منصف اعلیٰ اپنی ذمہ داریوں کے آغاز میں مقدمات کی سماعت میں تیزی لا رہے ہیں جس سے عوام کو قوی امید ہے وہ اپنے ایک سالہ دور میں مقدمات کی تعداد میں کمی لانے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ اب وکلاء برادری کی یہ ذمہ داری ہے وہ چیف جسٹس سے مقدمات کی جلد سماعت میں پورا تعاون کریں اور مقدمات کے فیصلوں کو یقینی بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ ایک عام تاثر ہے ہر نیا آنے والا منصب اعلیٰ مقدمات کی سماعت اور ان کے جلد فیصلوں کے عزم کا اظہار کرتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ جس جوش و ولولے سے وہ اپنے منصب کے آغاز میں مقدمات کے جلد فیصلوں کی سائلین کو نوید دیتا ہے اس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی نہ ہونے کی وجہ سے برسوں پرانے مقدمات جوں کے توں پڑے رہتے ہیں۔ اگرچہ جناب قاضی فائز عیسیٰ ایسے نیک نام اور راست باز منصف اعلیٰ ان باریک بینوں سے اچھی طرح شناسا ہیں جو مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں، نے رکاوٹوں کو دور کر لیا تو ان شاء اللہ وہ اپنے اس مقصد میں ضرور کامیاب ہو سکیں گے۔جناب چیف جسٹس نے وکلاء برادری اور سائلین پر یہ بات واضح کردی ہے ماضی کو بھلا دیں اور مقدمات کو التواء میں رکھنے کا دور جا چکا ہے لہذا عدلیہ ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے جس میں اپیلوں کے التواء کا تصور نہیں ہونا چاہیے۔ درحقیقت حصول انصاف کی جلد فراہمی اسی وقت ممکن ہے جب وکلاء برادری عدلیہ سے بھر پور تعاون کرے ورنہ مقدمات کی جلد سماعت ممکن نہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے منصف اعلیٰ نے وکلاء برادری کو بھی واضح پیغام دے دیا ہے اب مقدمات کی سماعت میں التواء کا تصور نکال دیں۔ ماضی قریب میں زیر التواء مقدمات پر نظر ڈالیں تو 2013میں اپیلوں کی یہ تعداد 20480تھی جو بڑھتے بڑھتے اب 57000تک پہنچ گئی ہے گویا ایک دہائی میں مقدمات کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے جو منصف اعلیٰ کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ بادی النظر میں اس وقت سپریم کورٹ کے سامنے کئی بڑے چیلنج ہیں جن میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے علاوہ نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی صورت میں ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج کئی ہزار زیر التواء اپیلوں کا ہے جس سے نئے منصف اعلیٰ تنہا نبردآزما نہیں ہو سکتے بلکہ اس کے لئے انہیں ساتھی جج صاحبان اور وکلاء برادری کا تعاون درکار ہوگا۔ دراصل جب کوئی کسی نیک مقصد کے حصول کا مصمم ارادہ کر لئے تو حق تعالیٰ کی ذات اس کی معاون و مددگار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں اس بات سے بھی صرف نظر نہیں کرنا چاہیے غریب ریاست کے منصف اعلیٰ سمیت جج صاحبان کو معقول مشاہروں کے ساتھ جو دیگر مراعات حاصل ہیں وہ کسی بیوروکریٹ اور دیگر اعلیٰ افسران کو حاصل نہیں ہیں۔ جناب چیف جسٹس نے اپیلوں کی سماعت کا آغاز بہت اچھا کیا ہے۔ غیر حاضر رہنے والے وکلاء پر سابق چیف جسٹس جناب کھوسہ بھی جرمانے کیا کرتے تھے جس کے بعد مقدمات کی سماعت میں بہت تیزی آئی تھی اور فوجداری مقدمات کی تعداد برائے نام رہ گئی تھی۔ افسوسناک پہلو یہ ہے بسا اوقات اعلیٰ عدلیہ میں برسوں اپیلوں کی سماعت نہیں ہوتی تو بعد از مرگ جب فیصلے کی خبریں نظر سے گزرتی ہیں تو انسان کا دل دہل جاتا ہے لہذا نئے منصف اعلیٰ کے لئے یہ بھی بہت بڑا چیلنج ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں برسوں پڑی اپیلوں سے گرد جھاڑے بغیر انصاف کا حصول ممکن نہیں۔ جناب قاضی فائز عیسیٰ نے منصب سنبھالنے کے بعد جس بات کا عندیہ ہے اس سے امید کی نئی کرن کی جھلک دکھائی دے رہی ہے کہ اب انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کا مقولہ غلط ثابت ہوگا۔ اس کے ساتھ وفاقی حکومت اور منصف اعلیٰ کو عدالت عظمیٰ میں جج صاحبان کی منظور شدہ تعداد کو پورا کرنے کے ساتھ جج صاحبان کی تعداد میں اضافہ کی طرف توجہ دینا ہوگی تاکہ سائلین کو انصاف کے حصول میں زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑے۔ اس ناچیز کو ایک مہربان جج کی عدالت میں جانے کا اتفاق ہوا۔ جج صاحب دونوں فریقوں کے وکلاء سے سوالات کر رہے تھے۔ دونوں طرف سے جواب آنے کے بعد کم سے کم وقت میں مقدمات کا فیصلہ کر رہے تھے۔ میرے سوال پر انہوں نے بتایا اگر وکلا حضرات فائل کو بغور پڑھ کر آئیں تو مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر نہیں ہوتی لہذا جو وکلاء فائل پڑھ کر نہیں آتے وہی مقدمات کی سماعت میں التواء کے متمنی ہوتے ہیں ورنہ جو وکیل تیاری کرکے آتا ہے اسے مقدمہ کی سماعت میں التواء کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بہرکیف چیف جسٹس نے مقدمات کی سماعت میں التواء کے تصور کو نکالنے کا جو عندیہ دیا ہے اس سے امید کی جاسکتی ہے سپریم کورٹ میں برسوں سے زیر التوا پڑی اپیلوں پر جلد فیصلے ہونے کی امید ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button