Columnمحمد مبشر انوار

دائو پیچ اور واپسی

محمد مبشر انوار( ریاض)
پاکستان میں بچھی سیاسی بساط کی خوبصورتی کہیں یا بدصورتی، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس سیاسی بساط پر چالیں چلنے والے بہرطور غیر سیاسی افراد قابض ہیں جبکہ سیاستدانوں کی حیثیت بے وقعت مہروں کی سی ہے۔ دوسری بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ بالعموم موجودہ سیاستدان، حقیقتا1985کے بعد جبرا سیاست میں گھسائے گئے ہیں جبکہ ایبڈو ایکٹ کے ذریعے ایوب خان نے سیاستدانوں کو، سیاست کے لئے نااہل کیا تھا تاہم ان کی موجودگی نو آموز اور دیگر کے لئے ایک نعمت تھی۔ ان کہنہ مشق سیاستدانوں کی اولین ترجیح ہمیشہ سے نئی ریاست کی ترقی رہی اور اس کے ساتھ ساتھ نئی ریاست کو جمہوری اطوار کے مطابق چلانا شامل تھا لیکن بعد ازاں فوجی آمروں نے سیاسی نرسری میں جو سیاستدان پروان چڑھائے، ان کی اکثریت ذاتی مفادات کی تابع نظر آتی ہے اور انہوں نے اہم ترین مواقع پر ملک وقوم کے مفادات سے صرف نظر کرتے ہوئے، ذاتی مفادات کو ترجیح دی ہے۔ اس میں ایک فوجی آمر بالخصوص قابل ذکر ہے کہ جس نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے، ویسے تو سب فوجی آمروں کا یہی وتیرہ رہا ہے، ریاست پاکستان کے مفادات کو بھی کسی حد تک پس پشت ڈال دیا اور افغانستان کی جنگ میں پاکستان کے کندھے امریکہ کو فراہم کر دئیے۔ سیاستدانوں کے دو معروف خاندان، یکے بعد دیگرے میوزیکل چیئر کی مانند اس ملک پر حکومت تو کرتے رہے لیکن اس دوران انہیں کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا رہا، ملکی عدالتوں سے یا مجرم ٹھہرائے جاتے رہے یا مقدمات کو درمیان میں ادھورا چھوڑ کر بیرون ملک سکونت اختیار کرتے رہے۔ پانامہ لیکس، منظر عام پر کیا آئیں، کرپشن میں ملوث دیگر کئی حکومتوں کی طرح، نواز شریف حکومت کے ستون بھی بری طرح لرز گئے، نواز شریف نے اولا تو ان سے انکار کیا لیکن بعد ازاں یکے بعد دیگرے، ایسے موقف اپنائے کہ جن سے معاملات سلجھنے کی بجائے مزید الجھ گئے۔ عدالتوں نے باربار ثبوت طلب کئے لیکن ثبوت ہوتے تو ملتے اور قانونی معاملات کو سیاسی رنگ دے کر عوام میں مظلوم بننے کی کوششیں کی گئی، جو کسی بھی طور کام نہ آئیں تو براہ راست عدالتوں اور مقتدرہ پر حملے کئے گئے۔2018ء کے انتخابات کے نتائج سامنے آنے پر، سیاسی بساط پر سیاسی چالیں چلنے والوں کی یہی کوشش رہی کہ کسی طرح عمران خان کو اقتدار سے الگ ہی رکھا جائے، جس کا ثبوت بھی خود شہباز شریف نے فراہم کیا جب انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل ہی ان کے ساتھ کابینہ تک کی بحث ہو چکی تھی لیکن ’’ وڈے پائی جان‘‘ نہیں مانے تھے، لہذا بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی تھی۔ البتہ رجیم چینج کے موقع پر ’’ وڈے پائی جان‘‘ کو حالات کی نزاکت کا احساس ہو چکا تھا، جس پر شہباز شریف کو وزیراعظم بننے کا گرین سگنل دے دیا گیا تھا، اس مقصد کے لئے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنا، غیر سیاسی فیصلہ سازوں کے لئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا، لہذا شہباز شریف وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہو گئے اور اپنے اصل ایجنڈے پر اپنے تئیں کامیابی کے عملدرآمد بھی کر لیا لیکن عدالت عظمی نے یہ بیل بھی منڈھے نہیں چڑھنے دی، اور نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا، یوں خواب چکنا چور ہوتے نظر آتے ہیں۔
اسی دوران لندن پلان کے خوب چرچے سننے کو ملے کہ لندن میں ’’ ایک صحت مند مریض‘‘ جو بغرض علاج ؍ دوا وہاں موجود ہے، اس کی شدید خواہش ہے کہ پاکستانی سیاسی بساط سے، اس کے ایک مخالف کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے، جو اس شدید مریض کے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔ مساوات قائم کرنے کے لئے یہ لازم تھا کہ نہ صرف اس سیاسی مخالف پر مقدمات قائم کئے جائیں، اسے جیل بھیجا جائے اور اسے سیاسی طور پر نااہل قرار ہی نہ دیا جائے بلکہ اس کی سیاست کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے، صحت مند مریض اور اس کے رفقاء نے ماسوائے سانس لینے، ہر سیاسی عمل، احتجاج وغیرہ پر اپنی پروردہ افسر شاہی کے ذریعہ مقدمات کی بھرمار کر رکھی ہے کہ ایک مقدمہ میں ضمانت کے باوجود بیسیوں ایسے دوسرے مقدمات موجود ہیں، جو اسے سانس لینے نہیں دیں گے اور نہ ہی اپنی سیاسی جدوجہد کو جاری رکھنے دیں گے۔ عمران خان کے ساتھ کیا جانے والا سلوک، دوسرے سیاسی حریفوں کے لئے ایک مثال ہے کہ اگر ’’ شاہی خاندان‘‘ کے ساتھ سینگ اڑانے کے کوشش کرو گے تو نتیجہ ایسا ہی نکلے گا۔
پاکستان میں غیر سیاسی چالیں کھیلنے والے افراد کی طاقت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ عدالتوں سے سزا یافتہ مجرم بذریعہ عدالت ، کتنی آسانی سے بیرون ملک جا سکتے ہیں، نہ صرف بیرون ملک جا سکتے ہیں بلکہ دوبارہ اقتدار تک رسائی بھی ان کے لئے انتہائی معمولی بات دکھائی دیتی ہے۔ یہاں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ ایک شخصیت پرست معاشرے میں رہتے ہوئے، شخصیت پرست عوام کس طرح ان سیاستدانوں کے گناہوں کا دفاع کرتی ہے کہ جس کا تصور بھی مہذب اور پڑھے لکھے معاشرے میں نہیں۔ گو کہ اس دوران اقتدار سے دور رہ کر وقت کیسے گزرتا ہے، یہ کوئی ان اقتدار سے محروم لوگوں سے سیکھے کہ کس طرح ایک ایک پل انگاروں پر لوٹتے نظر آتے ہیں اور اقتدار کے حصول کی خاطر کس طرح درپردہ جوڑ توڑ/سازشیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حتی کہ اہم ترین تعیناتیوں کے لئے کیا کیا سودے کئے جاتے ہیں، اس کا تصور بھی محال ہے لیکن کہیں بھی پاکستان یا پاکستانیوں کے حقوق کا سودا دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم رجیم چینج کا عمل پورا ہو چکا، لندن پلان کی خواہشات بھی کسی حد تک پایہ تکمیل تک پہنچ چکی او راب صورتحال یوں دکھائی دیتی ہے کہ معاملہ پاکستان کی سالمیت تک آن پہنچا ہے جہاں طاقتور حلقوں کو ادراک ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان کے طفیل ہے لہذا پاکستان کو بچانا ازحد ضروری ہے۔ تقریبا چار سال تک زیر علاج رہنے کے باوجود، ’’ مریض‘‘ دنیا کے دیگر ممالک کا دورہ کرتا رہا لیکن پاکستانی قانون کو جوتے کی نوک پر ہی لکھا اور پلٹ کر دیکھا تک نہیں لیکن چند دن پہلے ببانگ دہل واپسی کا اعلان کرتے ہوئے تاریخ کا اعلان بھی کر دیا۔ اس سے قبل ہی ایک محفل میں گفتگو کرتے ہوئے، اپنے اقتدار میں آنے کے لئے، لکھ کر دینے کو تیار ہوں، کہہ کر اپنی جماعت اور کارکنان کا حوصلہ بھی بڑھایا اور یہ تاثر مزید گہرا کر دیا کہ اقتدار کی یقین دہانی کرائی جا چکی ہے، اقتدار کا سودا ہو چکا ہے لہذا اب واپسی کا بگل بجانے میں کوئی امر مانع نہیں۔ حیرت لیکن اس وقت ہوئی، جب ماضی کی پرچھائیوں کو ایک مرتبہ پھر، متصور کرتے ہوئے، اقتدار سے نکالنے والوں کا احتساب کرنے کا نعرہ لگایا اور پانچ سابق اور ایک حاضر سروس عدالت عظمی کے جج کو اقتدار سے نکالنے پر منطقی انجام تک پہنچانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اصولی طور پر بساط سیاست میں، سیاستدانوں کو ہی ذمہ دار ہونا چاہئے اور غیر سیاسی طاقتوں کو اس کھیل سے باہر رہنا چاہئے لیکن یہ کیا کہ آپ اپنی واپسی کے لئے تو غیر سیاسی طاقتوں سے مدد مانگ رہے ہیں لیکن جنہوں نے آپ کو اقتدار سے نکالا، ان کے لئے زمین تنگ کرنا چاہتے ہیں۔ بالخصوص اس وقت جب آپ عدالتوں سے سزا یافتہ ہیں، عدالتوں کو مطلوب ہیں لیکن آپ قانون کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں اور اپنے مخالفین کو قانون کے شکنجے میں کسنا چاہتے ہیں، ایسے دہرے معیار کے ساتھ بھلا یہ کیونکر ممکن ہو سکے گا؟
ایسے سیاسی داؤ پیچ آپ سیاستدانوں کے خلاف ساری زندگی کھیلتے رہے ہیں لیکن آپ بھول جاتے ہیں کہ آپ اپنے استادوں سے یہ دائو پیچ نہیں کھیل سکتے، اس اعلان کے بعد، دوسری طرف سے ملکی صورتحال کے پیش نظر، یہ کہہ کر آئینہ دکھا دیا گیا ہے کہ سب کو قانون کے مطابق چلنا ہوگا۔ معاملات طے کرنے کے بعد، اقتدار ملنے کی یقین دہانی کے بعد اور تیار کھیر نوش کرنے کے لئے واپسی کی تاریخ دینے کے بعد اب اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ سیاسی دائو پیچ اپنے عروج پر نظر آ رہے ہیں اور ماضی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ قانون نہ صرف قیدی نمبر آٹھ سو چار کے لئے بلکہ بغرض علاج گئے ہوئے مفروروں کے لئے بھی روبہ عمل ہوگا اور قانون کے مطابق تاحال تحریک انصاف انتخابات میں حصہ لینے کی اہل ہے ۔ اس پس منظر میں، اگر فوری طور پر’’ محسنوں اور ججز‘‘ کے احتساب کے بیانیہ سے رجوع نہ کیا گیا تو کیا واپسی ممکن ہو سکے گی؟؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button