Column

گفتار سے زیادہ عمل کی ضرورت

شکیل امجد صادق
تاریخ کے اوراق پلٹتے رہیں تو انسان کے ایک مثبت سوچ بہترین فکر اور تبدیلی کا عمل اپنی منازل طے کرتا ہے۔ انسان اپنی اصل اور اساس سے واقف رہتا ہے۔ انسان اپنی ذمہ داریوں سے آشنا رہتا ہے۔ انسان کے اندر خوف خدا اور اس کی مخلوق کا احساس گاہے گاہے جنم لیتا رہتا ہے۔ ہماری ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ انہوں نے تاریخ سے موڑ لیا ہے، قرآن و سنت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور سیرت صحابہؓ سے نابلد ہو گئے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سات پشتوں میں کوئی بادشاہ نہیں گزرا تھا، آپؓ بھیڑ بکریاں اور اونٹ چراتے چراتے بڑے ہوئے تھے اور آپؓ نے تلوار بازی اور تیراندازی بھی کسی اکیڈمی سے نہیں سیکھی تھی۔ سکندر اعظم نے آرگنائزڈ آرمی کے ساتھ 10برس میں 17 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا تھا، جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے 10برس میں آرگنائزڈ آرمی کے بغیر 22 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا اور اس میں روم اور ایران کی دو سپر پاور بھی شامل تھیں۔ آج کے سیٹلائٹ، میزائل اور آبدوزوں کے دور میں بھی دنیا کے کسی حکمران کے پاس اتنی بڑی سلطنت نہیں جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نہ صرف گھوڑوں کی پیٹھ پر فتح کرائی تھی، بلکہ اس کا انتظام و انصرام بھی چلایا تھا۔ الیگزینڈر نے فتوحات کے دوران اپنے بے شمار جرنیل قتل کرائے، بے شمار جرنیلوں اور جوانوں نے اس کا ساتھ چھوڑا، اس کے خلاف بغاوتیں بھی ہوئیں اور ہندوستان میں اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار بھی کر دیا، لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کسی ساتھی کو ان کے حکم سے سرتابی کی جرات نہ ہوئی وہ ایسے کمانڈر تھے کہ آپؓ نے عین میدان جنگ میں عالم اسلام کے سب سے بڑے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو معزول کر دیا اور کسی کو یہ حکم ٹالنے کی جرات نہ ہوئی۔ آپؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو کوفے کی گورنری سے ہٹا دیا۔ آپؓ نے حضرت حارث بن کعب رضی اللہ عنہ سے گورنری واپس لے لی۔ آپؓ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا مال ضبط کرلیا اور آپؓ نے حمص کے گورنر کو واپس بلا کر اونٹ چرانے پر لگا دیا لیکن کسی کو حکم عدولی کی جرات نہ ہوئی۔ الیگزینڈر نے 17لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا، لیکن دنیا کو کوئی نظام، کوئی سسٹم نہ دے سکا جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دنیا کو ایسے سسٹم دئیے جو آج تک پوری دنیا میں رائج ہیں، آپؓ نے سن ہجری کا اجرا کیا۔ آپؓ نے جیل کا تصور دیا اور موذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ آپؓ نے مسجدوں میں روشنی کا بندوبست کرایا، آپؓ نے امن و امان کے لیے پولس کا محکمہ بنایا۔ آپؓ نے ایک مکمل عدالتی نظام کی بنیاد رکھی۔ آپؓ نے آب پاشی کا نظام قائم کرایا۔ آپؓ نے فوجی چھائونیاں بنوائیں اور فوج کا باقاعدہ محکمہ قائم کیا۔ آپؓ نے دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیوائوں اور بے آسرائوں کے وظائف مقرر کئے، آپؓ نے دنیا میں پہلی بار حکمرانوں، سرکاری عہدیداروں اور والیوں کے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا تصور دیا۔ آپؓ نے بے انصافی کرنے والے ججوں کو سزا دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا، آپؓ نے دنیا میں پہلی بار حکمران کلاس کی اکائونٹیبلٹی شروع کی۔ آپؓ راتوں کو تجارتی قافلوں کی چوکیداری کرتے تھے۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے جو حکمران عدل کرتے ہیں، وہ راتوں کو بے خوف سوتے ہیں۔ آپؓ کا فرمان تھا: قوم کا سردار قوم کا سچا خادم ہوتا ہے۔ آپؓ کی مہر پر لکھا تھا: عمر ! نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے۔ آپؓ کے دسترخوان پر کبھی دو سالن نہیں رکھے گئے۔ آپؓ زمین پر سر کے نیچے اینٹ رکھ کر سو جاتے تھے۔ آپؓ سفر کے دوران جہاں نیند آجاتی تھی، آپؓ کسی درخت پر چادر تان کر سایہ کرتے تھے اور سو جاتے تھے اور رات کو ننگی زمین پر دراز ہوجاتے تھے۔ آپؓ کے کرتے پر 14پیوند تھے اور ان پیوندوں میں ایک سرخ چمڑے کا پیوند بھی تھا۔ آپؓ موٹا کھردرا کپڑا پہنتے تھے، آپؓ کو نرم اور باریک کپڑے سے نفرت تھی۔ آپؓ کسی کو جب سرکاری عہدے پر فائز کرتے تھے تو اس کے اثاثوں کا تخمینہ لگوا کر اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور اگر سرکاری عہدے کے دوران اس کے اثاثوں میں اضافہ ہوجاتا تو آپؓ اس کی اکائونٹیبلٹی کرتے تھے۔ آپؓ جب کسی کو گورنر بناتے تو اسے نصیحت فرماتے تھے: کبھی ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑے نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا دربان نہ رکھنا اور کسی فریادی پر دروازہ بند نہ کرنا۔ آپؓ فرماتے تھے ظالم کو معاف کر دینا مظلوموں پر ظلم ہے۔ آپؓ کا یہ فقرہ آج انسانی حقوق کے چارٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔ مائیں بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں، تم نے انہیں کب سے غلام بنالیا۔ فرمایا میں اکثر سوچتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں۔ عمر بدل کیسے گیا۔ آپؓ اسلامی دنیا کے پہلے خلیفہ تھے، جنہیں ’’ امیر المومنین ‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ دنیا کے تمام مذاہب کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہے ، اسلام کی سب سے بڑی خصوصیت عدل ہے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں جو اس خصوصیت پر پورا اترتے ہیں۔ آپؓ کے عدل کی وجہ سے عدل دنیا میں عدل فاروقی ہوگیا۔ آپؓ شہادت کے وقت مقروض تھے، چنانچہ آپؓ کی وصیت کے مطابق آپؓ کا واحد مکان بیچ کر آپؓ کا قرض ادا کر دیا گیا اور آپؓ دنیا کے واحد حکمران تھے جو فرمایا کرتے تھے میرے دور میں اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرگیا تو اس کی سزا عمر ( حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ) کو بھگتنا ہوگی۔ میں دنیا بھر کے مورخین کو دعوت دیتا ہوں، وہ الیگزینڈر کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھ کر دیکھیں انہیں الیگزینڈر حضرت عمر فاروقؓ کے حضور پہاڑ کے سامنے کنکر دکھائی دی گا، کیونکہ الیگزینڈر کی بنائی سلطنت اس کی وفات کے 5سال بعد ختم ہوگئی، جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں جس جس خطے میں اسلام کا جھنڈا بھجوایا ، وہاں سے آج بھی اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں آتی ہیں، وہاں آج بھی لوگ اللہ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ دنیا میں الیگزینڈر کا نام صرف کتابوں میں سمٹ کر رہ گیا ہے، جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بنائے نظام دنیا کے 245 ممالک میں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ آج بھی جب کسی ڈاک خانے سے کوئی خط نکلتا ہے پولس کا کوئی سپاہی وردی پہنتا ہے، کوئی فوجی جوان 6ماہ بعد چھٹی پر جاتا ہے یا پھر حکومت کسی بچے، معذور بیوہ یا بے آسرا شخص کو وظیفہ دیتی ہے تو وہ معاشرہ، وہ سوسائٹی، بے اختیار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو عظیم تسلیم کرتی ہے، وہ انہیں تاریخ کا سب سے بڑا سکندر مان لیتی ہے۔ ماسوائے ان مسلمانوں کے جو آج احساس کمتری کے شدید احساس میں کلمہ تک پڑھنے سے پہلے دائیں بائیں دیکھتے ہیں۔ لاہور کے مسلمانوں نے ایک بار انگریز سرکار کو دھمکی دی تھی اگر ہم گھروں سے نکل پڑے تو تمہیں چنگیز خان یاد آجائے گا۔ اس پر جواہر لال نہرو نے مسکرا کر کہا تھا: افسوس آج چنگیز خان کی دھمکی دینے والے مسلمان یہ بھول گئے، ان کی تاریخ میں ایک ( حضرت) عمر فاروق رضی اللہ عنہ) بھی تھا۔ جن کے بارے میں مستشرقین اعتراف کرتے ہیں کہ ’’ اسلام میں اگر ایک عمر اور ہوتا تو آج دنیا میں صرف اسلام ہی دین ہوتا‘‘۔ ہم آج بھی یہ بھولے ہوئے ہیں کہ ہم میں ایک حضرت عمر فاروقؓ بھی تھے، جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ حضرت عمرؓ بن خطاب ہوتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button