CM RizwanColumn

ایک کریڈٹ تو باجوہ کو جاتا ہے

سی ایم رضوان
میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا۔ میں کیسے صلح کر لوں قتل کرنے والوں سے۔ کے مصداق نواز شریف نے لندن میں پاکستان سے آئے مسلم لیگ ن کے رہنمائوں سے ملاقات کے دوران کہہ دیا ہے کہ جنرل ( ر) باجوہ، فیض حمید، جسٹس ( ر) ثاقب نثار، جسٹس ( ر) کھوسہ، عظمت سعید 22کروڑ عوام کے مجرم ہیں کیونکہ انہوں نے سازش کر کے ان کی منتخب حکومت کو گرایا تھا۔ جب تک اس سازش میں شامل ان تمام کرداروں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جائے گا، پاکستان آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ 2017ء کے ہنستے بستے پاکستان کو ایک سازش کے تحت بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کیا گیا اور کھلنڈروں کے ٹولے کو پاکستان پر مسلط کیا گیا۔ یعنی جس اسٹیبلشمنٹ کے مہروں نے ان کی حکومت کا قتل کیا وہ ان مہروں کو سزا دلوائے بغیر ان سے صلح نہیں کریں گے لیکن یہاں علامتی قابیل یعنی باجوہ نے تو ساڑھے تین سال بعد ہی اقرار جرم کر لیا تھا اور سابقہ غلطیاں تسلیم کرتے ہوئے ان کے ازالے کا بندوست کر دیا تھا۔ فوج کو سیاست سے الگ کرنے اور رہنے کی پالیسی بنا کر دے دی تھی اور اس پر کسی حد تک عمل بھی شروع کر دیا تھا اسی پالیسی کے بعد ہی قابیل دوئم نے یہ بیانیہ بنایا تھا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں۔ جنرل ( ر) باجوہ اس ازالہ کی پاداش میں جتنی گالیاں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا دستوں سے اب تک کھا چکے ہیں کیا یہ اس جرم کا کافی خمیازہ نہیں۔ بہرحال آرڈر از آرڈر کی بناء پر فوج آج تک نیوٹرل ہے اور یہ کریڈٹ بھی جنرل ( ر) باجوہ کو ہی جاتا ہے کہ انہوں نے ملک کو ایک بڑی تباہی سے بچانے کے لئے پی ٹی آئی حکومت کا بوریا بستر گول کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ نہ صرف نواز شریف اور وزارت عظمیٰ کے خواہشمند ان کے قریبی متعدد ساتھیوں کو بلکہ پوری قوم کو جنرل ( ر) باجوہ کو یہ کریڈٹ دینا چاہئے اور اب باجوہ کے احتساب کی بجائے جنرل ( ر) فیض حمید کے احتساب کی بات کرنی چاہیے جن کے خلاف اس وقت کی عدالت نے اپنے فیصلے میں اس وقت کی حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ ایسے فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نی اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ واضح رہے کہ تب تحریک لبیک کی قیادت نے رکن پارلیمنٹ کے حلف میں مبینہ تبدیلی کے خلاف اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والے علاقے فیض آباد پر دھرنا دیا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور تقریباً تین ہفتے تک اسلام آباد اور راولپنڈی میں نظام زندگی مفلوج ہو گیا تھا۔ عدالت نے آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے علاوہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو بھی ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔ عدالت نے اس وقت کے آرمی چیف، بحری اور فضائی افواج کے سربراہان کو وزارتِ دفاع کے توسط سے حکم دیا تھا کہ وہ فوج کے ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کی۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کا آئین مسلح افواج کے ارکان کو ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں بشمول کسی سیاسی جماعت، دھڑے یا فرد کی حمایت سے روکتا ہے۔
جہاں تک باجوہ کے گناہوں کا تعلق ہے تو اس ضمن میں خود عمران خان نے کہا تھا کہ میری حکومت گرانے کے لئے واشنگٹن نے سازش نہیں کی تھی بلکہ جنرل ( ر) باجوہ نے ( ان کے بقول) ملک کے سب سے بڑے لٹیروں کا ساتھ دیا اور میری حکومت گرائی تھی۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی پہلی گرفتاری سے چند روز قبل وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے خود کہا تھا کہ فوج کی پالیسیوں کا تمام انحصار صرف ایک شخص پر ہوتا ہے۔ جنرل ( ر) باجوہ چاہتے تھے کہ ہم ان چوروں کی کرپشن معاف کر کے ان کے ساتھ مل کر کام کریں۔ انہوں نے یہ بھی بعد از وقت دلیل دی تھی کہ اختیار آرمی چیف کے پاس اور ذمہ داری وزیر اعظم کی ہو تو نظام نہیں چل سکتا۔ عمران خان نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ جنرل باجوہ کے شہباز شریف کے ساتھ بہت قریبی تعلقات تھے۔ انہی تعلقات کے نتیجے میں رجیم چینج آپریشن کی راہ ہموار ہوئی۔ سفارتی سائفر اور مبینہ سازش پر انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ یہ بات کھلی کہ یہ امریکا نہیں تھا جس نے میرے خلاف سازش کی بلکہ باجوہ نے امریکہ کو بتایا تھا کہ میں امریکہ مخالف ہوں، عمران خان کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف باجوہ نے ایک صحافی سے حکومت گرانے سے متعلق جو باتیں کیں مجھے اُس پر سب سے زیادہ حیرت ہوئی، یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، جس روز ہماری حکومت ہٹائی گئی تو قوم کو معلوم ہوگیا تھا کہ ہماری حکومت گرانے والا کون تھا۔ عمران خان نے کہا تھا کہ باجوہ نے اعتراف کیا تھا کہ ملک کی معاشی صورت حال خراب تھی اور خارجہ پالیسی بھی خراب، امریکہ عمران خان سے شدید ناراض تھا، عمران خان نے یہ اعتراف بھی کیا کہ جنرل ( ر) باجوہ کے پاس جو پاور تھی وہ سپر کنگ تھا اور سارے فیصلے کرتا تھا، جب ایک آدمی کے پاس اتنی طاقت آجائے تو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جنرل ( ر) قمر جاوید باجوہ سے متعلق سابق وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ہماری حکومت کا فیصلہ اُس وقت تک ہوتا تھا جب تک باجوہ کوئی فیصلہ نہ کرے، جس کی مثال یہ ہے کہ باجوہ نے احتساب نہ ہونے کا فیصلہ کیا اور پھر کسی کا احتساب نہیں ہوا، ایک آدمی کو اتنی زیادہ طاقت ملی مگر اُس کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا اور اگر تنقید ہوتی تھی تو پھر شدید ردعمل آتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرے دورِ حکومت میں فیصلوں پر تنقید مجھ پر ہوتی تھی مگر ساری طاقت باجوہ کے پاس تھی۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا۔ جنرل باجوہ نے سارے اچھے فیصلوں کا کریڈٹ خود لیا اور خرابی عمران خان پر ڈال دی۔
عمران خان نے ایک اور موقع پر کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں ایک سربراہ حکومت نے مجھے بتایا تھا کہ ’’ تمہاری حکومت گرانے کے لئے سازش ہو رہی ہے اور جو تمہارا آرمی چیف ہے وہ تم سے خوش نہیں ہے‘‘۔ میں اس وقت بڑا حیران ہوا میں تو سمجھ رہا تھا ہم ایک صفحہ پر ہیں اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا تو میں نے اسے کہا تم کیا باتیں کر رہے ہو، وہ ( مشرق وسطیٰ ملک کا سربراہ) مجھے کسی کانفرنس میں ملا تھا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت گرانے کی سازش امریکہ سے نہیں بلکہ ملک سے ہی شروع ہوئی تھی جب حسین حقانی کو ’ ہائر‘ کیا گیا کہ وہ یہ پروپیگنڈا کرے کہ میں امریکہ کے مخالف جبکہ جنرل ( ر) باجوہ امریکہ کے حامی ہیں اور جب سے ہماری حکومت گئی اور میں نے پیچھے سارا جائزہ لیا کہ کیا ایونٹ ہوئے اور کس کس طرح کی سازش ہوئی اور کون کون اس میں ملوث تھا۔ لیکن ایک کردار جو سب سے اہم تھا جو ماسٹر مائنڈ تھا تو آہستہ آہستہ ساری سمجھ آگئی کہ کدھر کدھر ہمارے ساتھ دھوکے ہوئے کدھر کدھر ہمیں لال بتی کے پیچھے لگایا گیا۔ کدھر کدھر جھوٹ بولے گئے اور پہلے سے پلان بنا ہوا تھا کہ مجھے ریپلیس کرنا تھا شہباز شریف سے۔ شہباز شریف سے انڈر سٹینڈنگ ہوچکی تھی جنرل ( ر) باجوہ کی۔
عمران خان کی زبانی بیان کردہ ان حقائق کے ہوتے ہوئے اب نواز شریف کو باجوہ کو یہ ایک کریڈٹ تو دینا چاہئے کہ وہ اگر عمران خان جیسی مصیبت اگر لائے تھے تو اسے دفع کرنے کا اعزاز بھی انہوں نے ہی حاصل کیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button