Ali HassanColumn

سیاست داں اور احتساب

علی حسن
ہمارا اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم اختیار، اقتدار ، اہم منصب، تمام مواقع حاصل اور استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن احتساب سے ہر قیمت پر فرار چاہتے ہیں۔ احتساب کے ذمہ دارانہ عمل کی غیر موجودگی نے پاکستان کو ایک کھائی کے کنارے پہنچا دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب بندیال نے شہباز شریف کی حکومت کی جانب سے نیب کے معاملات پر کئے گئے فیصلوں کو جمعہ (15 ستمبر) منسوخ کر دیا جس پر شہباز شریف سمیت سارے ہی لوگ چراغ پا ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے نیب ( ترمیمی) ایکٹ مجریہ 2022کیخلاف دائر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی آئینی درخواست سے متعلق مختصر فیصلہ جاری کیا ۔ جس کے مطابق آئینی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نیب ( ترمیمی) ایکٹ مجریہ 2022کے ذریعے کی گئی10 ترامیم میں سے9 اور50کروڑ روپے کی حد سے کم بدعنوانی کے مقدمات پر نیب کا دائرہ اختیار ختم کرنے کی شق کو بھی کالعدم قرار دے دیا، جس کے نتیجے میں سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانہ ریفرنسز سمیت متعدد دیگر سیاستدانوں کے خلاف بند ہونے والے ریفرنسز/مقدمات دوبارہ بحال ہوگئے، اس فیصلے کی روشنی میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف احتساب عدالت سے منتقل ہونے والا ایل این جی ریفرنس جبکہ سابق وزیراعظم/سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے خلاف احتساب عدالت سے منتقل ہونے والا رینٹل پاور ریفرنس بھی دوبارہ بحال ہوگیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نیب 7دن کے اندر ختم کئے گئے ریفرنسز، تفتیش، انکوائریاں احتساب عدالتوں کو بھیجے لیکن جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے علیحدہ نوٹ میں اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اس آئینی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے دیا ہے اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023سے متعلق مقدمہ کے حتمی فیصلے تک زیر غور مقدمہ پر کسی بھی قسم کی کارروائی کو روکنے یا فل کورٹ تشکیل دیکر اس مقدمہ کی سماعت کرنے کی رائے دی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کی جانب سے جاری کئے گئے مشترکہ اکثریتی فیصلے کے ذریعے نیب ترمیمی ایکٹ 2022کے تحت ختم کئے گئے تمام ریفرنسز، تفتیش اور انکوائریاں بحال کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے، عدالت نے اپنے اکثریتی فیصلے میں چیئرمین نیب کو7روز کے اندر اندر بند کئے گئے ریفرنسز کا تمام ریکارڈ متعلقہ احتساب عدالتوں کو بھیجنے کا حکم جاری کیا ، اکثریتی فیصلے میں عدالت نے عوامی نمائندوں کے خلاف بدعنوانی کے تمام مقدمات بحال کرتے ہوئے پبلک آفس ہولڈرز ( عوامی نمائندوں) کے خلاف ریفرنسز ختم کرنے سے متعلق نیب ترامیم کالعدم قرار دے دی ہیں، عدالت نے50 کروڑ روپے کی حد سے کم بدعنوانی کے مقدمات پر نیب کا دائرہ اختیار ختم کرنے کی شق کو بھی کالعدم کرتے ہوئے اس نوعیت کے معاملات میں نیب کا دائرہ اختیار دوبارہ بحال کر دیا اور پچاس کروڑ روپے سے کم بدعنوانی کے تمام مقدمات کو بحال کرکے انہیں متعلقہ احتساب عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا ہے جبکہ اس ضمن میں چلنے والی تفتیش اور انکوائریاں دوبارہ جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے، اکثریتی فیصلے میں پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی ترمیم بھی کالعدم قرار دے دی گئی ہے جبکہ ملک بھر کی تمام احتساب عدالتوں کی جانب سے نیب ( ترمیمی) ایکٹ مجریہ 2022کی روشنی میں ملزمان کو دی گئی داد رسی سے متعلق جاری کئے گئے تمام تر احکامات کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا ہے، اکثریتی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ نیب ترامیم سے مفاد عامہ کے حوالے سے آئین میں درج شہریوں کے حقوق متاثر ہوئے ہیں، اس لئے نیب ( ترمیمی) ایکٹ مجریہ 2022کے تحت بند کی گئی تمام تحقیقات اور انکوائریاں بحال کی جاتی ہیں، اکثریتی فیصلے میں بے نامی کی تعریف تبدیل کرنے اور پلی بارگین سے متعلق ترامیم جبکہ بدعنوانی کے الزام پر بار ِثبوت پراسیکیوشن پر منتقل کرنے اور نیب ترمیمی ایکٹ 2022کے ماضی سے اطلاق کی شقوں کو بھی غیرآئینی قرار دے کر کالعدم کر دیا ۔ عدالت نے چیئرمین نیب کی تقرری کا اختیار قومی اسمبلی اور سینیٹ کو دینے سے متعلق ترمیم بھی غیرآئینی قرار دیا۔ اکثریتی فیصلے میں ٹیکس معاملات، وفاقی اور صوبائی کابینہ کے فیصلوں، کابینہ کی کمیٹیوں، مشترکہ مفادات کونسل، نیشنل اکنامک کونسل، نیشنل فنانس کمیشن اور سٹیٹ بینک کے اقدامات اور فیصلوں کو نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کرنے سے متعلق ترامیم کی شقوں کو بھی کالعدم کردیا گیا ۔ عدالت نے بدعنوانی کے مقدمات میں وہ افراد جن کا براہ راست عوامی عہدیداروں سے کوئی تعلق نہ ہو، کو نیب دائرہ اختیار سے نکالنے، سرکاری اسکیموں اور پراجیکٹس میں خرابیوں اور عوامی عہدیداروں کی جانب سے کئے گئے فیصلوں پر نیب کی کارروائی کا اختیار ختم کرنے کی ترمیمی شقوں کو بھی کالعدم کردیا ہے، نیب آرڈیننس ترمیمی ایکٹ 2022کے تحت چیئرمین نیب کی مدت ملازمت کم کرکے تین سال کرنے کی شق کو بھی کالعدم کرکے چار سال کی مدت ملازمت دوبارہ بحال کردی گئی ہے۔
نیب قوانین میں متنازع ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے نے قومی احتساب بیورو ( نیب) کو 50کروڑ روپے سے کم کے وائٹ کالر جرائم میں ملوث سیاستدانوں اور بااثر شخصیات پر ہاتھ ڈالنے کا دوبارہ اختیار دے دیا ہے جس کی وجہ سے تقریباً ایک ہزار 800بند کیس اب دوبارہ کھل جائیں گے۔ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے نیب کو وہ اختیارات دے دئیے ہیں جن سے وہ ترامیم کی وجہ سے محروم ہو گیا تھا، تاہم نیب ذرائع کے مطابق نیب کی جانب سے پہلے ہی بند یا عدالتوں کی جانب سے نمٹائے گئے کیسز کو دوبارہ نہیں کھولا جائے گا۔ دوسری جانب نیب سیکڑوں کیسز پر اس وقت تک کارروائی نہیں کر سکے گا جب تک نیب میں ڈپٹی چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کی 2اہم اسامیوں پر تعیناتیاں نہیں ہو جاتیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں جن اہم شخصیات کے مقدمات دوبارہ کھولے گئے ہیں، ان میں سابق وزرا خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ، جاوید لطیف، اکرم درانی، سلیم مانڈوی والا، شوکت ترین، پرویز خٹک، عامر محمود کیانی، خسرو بختیار اور فریال تالپور کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی شامل ہیں۔
بینچ کے ایک رکن جسٹس سید منصور علی شاہ نے اپنے علیحدہ اختلافی نوٹ میں عمران خان کی آئینی درخواست کو خارج کرتے ہوئے قرار دیا کہ یہ معاملہ نیب قوانین میں کی گئی غلط ترامیم کا نہیں بلکہ پاکستان کے کروڑوں عوام کی جانب سے منتخب کی گئی پارلیمنٹ کی بالادستی کا ہے۔ پارلیمنٹ کی قانون سازی کی طاقت کبھی ختم نہیں ہوتی ہے وہ نیب کا قانون بنا بھی سکتی ہے اور پورے قانون کو منسوخ بھی کر سکتی ہے۔ اکثریتی ججوں ( چیف جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن) نے خود کو ایک سیاستدان ( پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان ) کے ایسے غیر آئینی جال میں پھنسا لیا ہے جس کے تحت پارلیمنٹ کے منظور شدہ قانون کے مقصد اور پالیسی پر ہونے والی سیاسی بحث کو سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت میں گھسیٹ لایا گیا ہے ۔دو صفحات کے اختلافی نوٹ میں فاضل جج نے قرار دیا ہے کہ میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کے اکثریتی فیصلے کے ساتھ اتفاق نہیں کر تا لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے، میں اس وقت اختلاف کی مکمل وجوہات قلمبند نہیں کر سکتا ہوں، جوکہ بعد میں کی جائیں گی، تاہم میری رائے میں، اس معاملے میں بنیادی سوال، نیب قانون میں مبینہ یکطرفہ ترامیم کے بارے میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی اہمیت سے متعلق ہے، جوکہ پاکستان کے تقریبا 240ملین لوگوں کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے، فاضل جج نے قرار دیا ہے کہ یہ سوال پارلیمانی جمہوریت کی اہمیت اور آئین کے تین ستونوں ( مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ) کے بیچ اختیارات کی تقسیم کا ہے، یہ سوال ان غیر منتخب ججوں پر مشتمل عدالت کے اختیارات کا ہے جو پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون کے مقاصد اور پالیسی پر بادی النظر میں بغیر کسی معقول وجہ کے نظرثانی کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو جواز بنا رہے ہیں، جس کا عدالت میں شکوک سے بالاتر کوئی ثبوت بھی پیش نہیں کیا گیا ہے۔ فاضل جج نے قرار دیا ہے کہ اکثریتی فیصلے نے آئین کے اس واضح حکم کو بھی نظر انداز کیا ہے جس میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ ریاست اپنا اختیار منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کریگی۔ فاضل جج نے قرار دیا ہے کہ اکثریتی فیصلے نے آئین کے تین ستونوں کے بیچ اختیارات کی تقسیم جیسے پارلیمانی جمہوریت کے بنیادی اصول کو بھی نظر انداز کر دیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button