CM RizwanColumn

بلیک ڈالر، بلیک مارکیٹ اور آپریشن

سی ایم رضوان
یہ بات تو طے ہے کہ خطے میں جرائم پیشہ گروہ حد درجہ طاقتور، منظم، چالاک اور خطرناک حد تک موقع پرست ہیں۔ ناجائز کرنسی مارکیٹنگ کے خلاف جب ہماری فوج نے حالیہ سخت آپریشن کیا تو ناجائز دھندہ کرنے والوں نے دیگر طریقے آزمانا شروع کر دیئے ہیں ان میں سے حربہ اس طرح سامنے آیا کہ محکمہ ایکسائز کی ٹیم نے رنگ روڈ پشاور میں گزشتہ روز معمول کی گشت کے دوران ایک گاڑی سے تلاشی لے کر دو لاکھ بلیک ڈالر پکڑ لئے۔ مخصوص سائز کے بینک نوٹوں کی مانند کالے رنگ کے یہ بظاہر سادہ کاغذ ابتدائی طور پر جعلی کرنسی سمجھے گئے لیکن ملزم سے پوچھ گچھ پر معلوم ہوا کہ یہ کالے رنگ کے کاغذ نہیں امریکی ڈالر ہیں جنہیں عام آدمی پہچان نہیں سکتا۔ مزید تفتیش کے لئے ملزم اور برآمد شدہ بلیک ڈالر اب ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں کیونکہ کرنسی سمگلنگ کی روک تھام محکمہ ایکسائز کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ گرفتار ملزم کا تعلق وزیرستان سے ہے اور وہ یہ امریکی بلیک ڈالر مردان لے جا رہا تھا۔
واضح رہے کہ بلیک ڈالر کا رنگ مکمل طور پر کالا ہے۔ عام بندہ اسے پہچان نہیں سکتا کہ یہ کوئی کرنسی ہے۔ گو کہ پاکستان کی مارکیٹ میں بلیک ڈالر زیر استعمال نہیں ہیں اور نہ ہی کھلے عام ملتے ہیں لیکن یہ کرنسی کی بلیک مارکیٹنگ کرنے والے استعمال کرتے ہیں۔ شنید ہے کہ امریکا افغانستان جنگ کے دوران پاکستان سے بلیک ڈالر نیٹو سپلائی کے ذریعے افغانستان منتقل کرتا تھا کیونکہ نیٹو سپلائی کنٹینر لوٹ لئے جاتے تھے جس سے بچنے کے لئے یہ طریقہ اپنایا گیا۔ بعد ازاں یہ سلسلہ ختم ہو گیا تھا۔ اب یہ سلسلہ حکومت پاکستان کے حالیہ کریک ڈائون سے بچنے کے لئے دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ بلیک ڈالر ایک اصلی ڈالر ہی ہوتا ہے جس کو اصلی حالت میں تبدیل کرنے کے لئے ایک مخصوص کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ امریکی حکام نے خود اپنی کرنسی کو محفوظ طریقے سے افغانستان منتقل کرنے کے لئے شروع کیا تھا۔ اب اس مقصد کے لئے کام کرنے والے سمگلر اس کو پہچانتے بھی ہیں کہ اصل امریکی ڈالر پر ایک خاص قسم کا کیمیکل ڈالا جاتا ہے جس سے اس کا رنگ کالا ہو جاتا ہے اور پھر یہ رنگ کسی اور طرح سے آسانی سے اترتا بھی نہیں جب تک کہ اس پر مخصوص کیمیکل نہ لگایا جائے۔ جب ڈالر کو اس کیمیکل میں ڈالا جاتا ہے تو اس پر سے کالا رنگ ہٹ جاتا ہے اور یہ اپنی اصل حالت میں واپس آ جاتا ہے، خاص بات یہ ہے کہ اس ڈالر کو ہر کوئی استعمال نہیں کر سکتا۔ گزشتہ چند سالوں سے بلیک ڈالر مارکیٹ سے ختم ہو گئے تھے لیکن خطہ میں ڈالر کی حالیہ اونچی اڑان سے بلیک ڈالر کی مانگ بھی بڑھ گئی تھی جس بنا پر یہ بھی بلیک مارکیٹ میں آ گئے۔ ان سمگلروں کو علم نہیں تھا کہ ایک نیا کریک ڈائون شروع ہونے والا ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ ملزم پکڑا گیا۔ گو کہ بلیک ڈالر کی قدر عام ڈالر کی نسبت کم ہے کیوں کہ اس کے لئے ایک خاص کیمیکل کی ضرورت ہوتی ہے جو عام مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ اس لئے بلیک ڈالر کا کوئی ایک ریٹ مقرر نہیں۔ یہ ریٹ خریدار اور فروخت کرنے والے خود طے کرتے ہیں۔ تاہم بلیک ڈالر کیس میں گرفتار مذکورہ ملزم نے ایف آئی اے کو بتایا کہ اس نے بلیک ڈالر اسی روز پشاور میں ایک شخص سے خریدے تھے اور اب وہ انہیں لے کر مردان جا رہا تھا جہاں اسے کیمیکل کے ذریعے ان کا کالا رنگ ہٹانے کا کہا گیا تھا۔ ملزم نے ایف آئی اے کو مزید بتایا کہ ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے کے بعد منافع کمانے کے لئے بلیک ڈالر خریدا تھا۔ ملزم نے وزیر ستان سے تعلق رکھنے والے ایک اور شخص کی بھی نشاندہی کی ہے جس کی گرفتاری کے لئے کوششیں جاری ہیں۔
ادھر فوج کی مدد سے کرنسی کی بلیک مارکیٹ کے خلاف کریک ڈائون مسلسل جاری ہے۔ گو کہ پاکستان میں غیر قانونی فارن ایکسچینج ٹریڈرز کے خلاف ماضی میں بھی کریک ڈائون ہو چکے ہیں لیکن یہ مافیا کچھ دن روپوش رہنے کے بعد پھر سے فعال ہو جاتا رہا ہے، امید ہے کہ اس بار کے آپریشن کے نتائج دوررس ثابت ہوں گے یا پھر یہ امید تو لگائی جا سکتی ہے کہ موجودہ فوجی رجیم کی موجودگی تک یہ آپریشن بھی جاری رہے گا اور بہتر نتائج بھی موصول ہوتے رہیں گے۔ اب تک کی اچھی رپورٹس کے مطابق کراچی، پشاور اور دیگر شہروں میں چلنے والے غیر قانونی فارن ایکسچینج ٹریڈرز کے خلاف کریک ڈائون کی وجہ سے روپے کی قدر مستحکم ہوئی ہے۔ کچھ کرنسی مارکیٹوں پر مارے گئے چھاپوں میں تو فوجی دستے بھی شامل تھے اور پشاور، کراچی اور دیگر شہروں میں غیر لائسنسی کرنسی چینجرز کے خلاف کریک ڈائون سے ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت پر قابو پا لیا گیا ہے۔ اس کریک ڈائون کے شروع ہونے کے کچھ دنوں بعد ہی ڈالر کافی حد تک سستا ہو گیا ہے۔ چھاپہ مار ایجنسیوں کو نوٹ کرنا چاہئے کہ بعض غیر لائسنسی کرنسی چینجرز کو ان چھاپوں سے قبل ہی خبردار کر دیا گیا تھا، لہٰذا اس غیر قانونی کام میں ملوث زیادہ تر بااثر لوگ اپنی دوکانیں بند کر کے پہلے ہی روپوش ہو گئے تھے۔ یہ خدشہ بھی ہے کہ کچھ دنوں بعد یہ روپوش ہو جانے والے غیر لائسنس یافتہ کرنسی چینجرز دوبارہ فعال ہو سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ عمران حکومت کے دوران ایسے لوگ بہت کم تھے جو منی چینج کے لئے قانونی طریقے استعمال کر رہے تھے جس کا نقصان حکومت اور پاکستانی معیشت کو بہت زیادہ ہوتا تھا اور ڈالر کی قیمت زیادہ سے زیادہ ہوتی گئی اور روپیہ بے قدر ہوتا گیا۔ جائز منی ایکسچینج والوں کے پاس گاہک نہیں آتے تھے اور نوے فیصد صارفین بلیک مارکیٹ کے ڈیلرز سے رابطے میں تھے۔ یاد رہے کہ لائسنس یافتہ کرنسی ڈیلروں نے گزشتہ سے پیوستہ ہفتے آرمی چیف عاصم منیر سے درخواست کی تھی کہ اس غیر قانونی کام میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔ آرمی چیف نے اس بات کا نوٹس لیا اور یہ آپریشن شروع کیا گیا۔ اس وقت بالخصوص آئی ایم ایف کے تین بلین ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج کے تناظر میں پاکستانی حکومت کی طرف سے اوپن مارکیٹ کو کنٹرول کرنا انتہائی اہم ہے۔ خاص طور پر اس وقت روپے کی قدر مستحکم رکھنے سے ملک کی اقتصادی صورتحال بھی بہتر ہو گی جبکہ قرضوں کی ادائیگی میں بھی سہولت رہے گی۔ نگران حکومت کا ارادہ ہے کہ ملک کو شدید مالیاتی بحران سے نکالنے کے لئے آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج کی اگلی قسط کی وصولی کے لئے سخت شرائط بھی مان لی جائیں گی۔
اس تمام صورتحال سے ہٹ کر ادھر بلوچستان میں سرحدی تجارت کی بندش کے خلاف احتجاج بڑھتا جا رہا ہے۔ مقامی تاجروں اور بلوچ قوم پرست جماعتوں کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ سرحدی تجارت کے خلاف حکومتی کریک ڈائون سے لاکھوں لوگوں کا روزگار متاثر ہو رہا ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ سمگلنگ کے خلاف کارروائی کے مثبت اثرات برآمد ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں نظر بھی یہی آ رہا ہے کہ ایک طرف پورے ملک اور اس کی معیشت کا معاملہ ہے اور دوسری طرف سمگلنگ جیسے مکروہ دھندے میں ملوث ان چند سو لوگوں کا وہ روزگار ہے جو کہ ناجائز ہے اس کے باوجود ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ یہ لوگ احتجاج کر رہے ہیں دراصل یہ احتجاج ملک میں پڑ جانے والی اس غلط روایت کا تسلسل ہے کہ یہاں تقسیم شدہ گروہ محض اپنے مفادات کے لئے تو سڑکوں پر آ جاتے ہیں مگر مجموعی مفادات کے لئے کسی کو سوچنے یا اس کے لئے سڑکوں پر نکلنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اس رویہ کی زیادہ تر حوصلہ افزائی عمرانی ٹولے نے ماضی قریب میں کی ہے جس نے محض اپنے سیاسی فائدے کے لئے ملک کی فوج تک کے خلاف جنگ مسلط کر دی۔ جو کہ اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے عبرتناک انجام کو پہنچنے والا ہے۔ ایسے مذموم مقاصد کے حامل احتجاجی مظاہروں کو سخت حکومتی اقدامات سے فوری کچل دینا چاہئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button