بلاگتازہ ترینخبریں

تحریک ختم نبوت کی کامیابی کا روشن دن7ستمبر1974ءمولانا شاہ احمد نورانی کی زبانی

رشید احمد رضوی سیکر ٹری اطلاعات جمعیت علماءپاکستان

جمعیت علماءپاکستان نے 1970ءکے انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کی 7نشستوں پر کامیابی حاصل کی جے یوپی کے 3ارکان ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں شامل ہوگئے باقی 4ارکان اسمبلی نے علامہ شاہ احمد نورانی کی قیادت میں ایسا کردار ادا کیا جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکے گی1970میںملک بے آئین تھا اور 71ءمیں مشرقی پاکستان کا سانحہ بھی ہو چکا تھا علامہ شاہ احمد نورانی نے 73ءکے دستور پاکستان کے لئے بنائی گئی کمیٹی میں اہم کردار ادا کیا وطن عزیز کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان منظور کروانے کے علاوہ اہم دستوری خدمات سرانجام دیںپھر 30جون1974ءمیں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لئے قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کی اور 7ستمبر74ءکو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ جمعیت علماءپاکستان ہرسال 7ستمبر کو یوم ختم نبوت مناتی ہے امسال بھی ملک بھر میں یوم ختم نبوت منایا جائے گا ۔لاہور میں آج(7ستمبر) کو عظیم الشان تاجدار ختم نبوت کانفرنس جامعہ المرکز الاسلامی لاہور کینٹ میںہوگی۔تحریک ختم نبوت کا ذکر کرتے ہوئے علامہ شاہ احمد نورانی کہتے ہیں۔
”قادیانیت پچھلی صدی کا منحوس فتنہ ہے جس نے اسلام کے نام پر مسلمانوں کو کافر بنانے کا کام سنبھال رکھا ہے مرزا قادیانی 1908ءمیں مرا اور پچھلی صدی کا وہ سب سے بڑا فتنہ پرور شخص تھا۔ اس نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بے ادبیاں، گستاخیاں کیں۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس کا عقیدہ وہ نہیں جو ایک مسلمان کا ہونا چاہیے۔ اس نے خدا کے وجود کو اس انداز میں بیان کیا جیسے ہندوﺅں وغیرہ کا تصور ہے۔ عقیدئہ ختم نبوت کا بارہا انکار کیا۔ اس نے درجنوں دعوے کیے وہ ایک مخبوط الحواس اور فاتر العقل شخص تھا ۔ وہ کہتا تھا کہ ” میں ہی محمد اور میں ہی احمد ہوں۔“ لیکن اس کو بے وقوف ، احمق، جاہل اور بے عقل لوگوں نے اپنا سب کچھ مان لیا۔ بلکہ جو کچھ وہ بکتا گیا وہ مانتے گئے ۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ فتنہ ہندوستان میں انگریزوں نے برپا کیا۔ ان کا پیسہ اور پلاننگ تھی۔ یہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے اور مرزا خود ملکہ برطانیہ کے گن گاتا تھا۔ میرے حضرت والد ماجد، خلیفہ اعلیٰ حضرت سفیر اسلام مولانا شاہ عبدالعلیم میرٹھی صدیقی( رحمتہ اللہ علیہ) چونکہ ایک مبلغ و مصلح تھے ۔ انہوں نے ساری زندگی خدمت دین میں گزاری ۔ جنوبی امریکہ میں انہوں نے مرزائیت کے خلاف عملی جہاد کیا ۔ تبلیغ دین کے لئے سب سے پہلے 1935ءمیں وہ سرینام ( جنوبی امریکہ ) گئے ان کے ہاتھ پر الحمد اللہ ایک لاکھ افراد نے اسلام قبول کیا ۔
ختم نبوت کا عقیدہ مسلمانوںکے درمیان ایک متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے اور سب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ختم نبوت کا منکر کافر اور مرتد ہے ۔ اس امت میں فتنہ ارتداد اور فتنہ انکار ختم نبوت کو بیخ و بن سے اکھاڑنے والے سب سے پہلے اور سچے عاشق رسول ، حضور ختمی مرتبت ﷺ کے پہلے خلیفہ راشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ، انہوں نے ہر مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر فتنہ ارتداد ، فتنہ انکار ختم نبوت کی سرکوئی کی ، مسلیمہ کذاب کے خلاف جنگ یمانہ میں ہزاروں صحابہ کرام شہید ہوئے ، جن میں سینکڑوں حفاظ و قرائے قرآن بھی تھے اور بالآخر مسلیمہ کو کفر کردار تک پہنچایا۔ برصغیر میں غلام قادیانی کے خلاف بھی علماءحق نے کفر و ارتداد کے فتاویٰ جاری کئے ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی ،اعلیٰ حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی، مولانا لطف اللہ علی گڑھی اور دیگر تمام مکاتب فکر کے اکابر علماءنے مرزا غلام احمد قادیانی کی تکفیر کی ۔ علماءحق نے مناظر ے اور مباہلے کے چیلنج دیئے اور قبول کیے یہی وجہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی محض ایک چھوٹی سی تعداد کو اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہو سکا اور امت مسلمہ کا سواداعظم اس فتنے میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہا۔
میرے والد گرامی کا موضوع ردقادیانیت و مرزائیت تھا ۔ ایک حوالے سے تو یہ موضوع مجھے ورثہ میں ملا۔ اور پھر اس موضوع کا مطالعہ انسان کے ضمیر کو جھنجوڑتا ہے۔انسان سوتے سے جاگتا ہے اسے احساس ہوتا ہے کہ اے مصطفیﷺ کے غلام، اٹھ اور جاگ، تیرے ہوتے ہوئے تیرے نبی ﷺ کے گستاخ کیسے جرا¿ت و جسارت کے ساتھ دندنارہے ہیں۔ یہ قادیانی سیاہ بخت اللہ کے پیارے محبوبﷺ کی محبت ختم کرکے ہندوستان کے جھوٹے نبی کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ایسے میں ہر صاحب ایمان کا فرض ہے کہ وہ اٹھ کھڑا ہو اور میدان میں کود پڑے ۔اس فتنہ کی سرکوبی ہر بڑے فریضے سے اہم فریضہ ہے ۔ یہ ایسا زہر ہے جو گڑ کی شکل میں کھلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
ایسے حالات میں بہت ضروری ہے کہ فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لئے موثر اقدام اٹھائے جائیں۔ مرزا قادیانی1908ءمیں مرا۔ اس کی موت بدترین قسم کی موت تھی وہ ہیضہ میں مبتلا ہوا۔ اور علمائے عصر کے چیلنج کا مقابلہ نہ کر سکاسانپ مر گیا لیکن لکیر ابھی باقی ہے۔اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے سب سے پہلے ہمارے بزرگوں اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان بریلوی، حضرت اقدس پیر مہر علی شاہ گولڑوی ،امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محمدث علی پوری جیسے بزرگوں نے ابتدائی ایام میں مرزائیت کا محاسبہ کیا اور بعد میں اور لوگ بھی اس قافلہ میں شامل ہوتے چلے گئے۔
میرے والد گرامی حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم میرٹھی رحمتہ اللہ علیہ نے سرینام( جنوبی امریکہ) میں اس فتنہ کے خلاف جہاد کیا اور پھر میں بھی کچھ عرصہ وہاں رہ کر خدمت کرتا رہا۔ قادیانی پاکستان میں ربوہ کو ” منی اسرائیل“ بنانا چاہتے تھے اس سلسلہ میں ہم نے بھی پلاننگ کی اور ہر موڑ پر اس فتنے کا تذارک کیا ۔1953ءکی تحریک ختم نبوت میں کراچی میں حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی رحمتہ اللہ علیہ اور دیگر چند علماءکرام کے ساتھ شریک رہا۔ پاکستان آنے کے بعد سب سے پہلا بیان قادیانیت کے خلاف جاری کیا اور اس بے دین ٹولے کے خلاف کام کرتے رہنا ہی ایمان کا تقاضا ہے ۔ پھر 30 جون 1974ءکو قومی اسمبلی کے فلور پر یہ تاریخی قرار داد بھی اللہ تعالیٰ نے اس گناہ گار کو پیش کرنے کی سعادت بخشی ۔اس قرار داد پر حزب اختلاف کے 22 ارکان نے دستخط کیے۔ بعد میں یہ تعداد بڑھتی گئی۔ حتیٰ کہ 37 ہو گئی۔قسمت کی بات ہوتی ہے اللہ تعالیٰ جس سے چاہے کام لے لے اور جس کو چاہیے محروم کردے عبدالولی خان جیسے افراد نے بلاتر دوصرف ہمارے کہنے پر فوراً دستخط کردیئے غوث بخش بزنجو نے کوئی اعتراض نہ کیا اور بلاتامل دستخط کردیئے۔ لیکن جمعیت علمائے اسلام کے مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولوی عبدالحکیم بار بار کہنے کے باوجود یہ سعادت حاصل نہ سکے۔
مولانا شاہ احمدنورانی فرماتے ہیںکہ” ایمان ایک ایسی قوت ہے جس کی بے شمار برکات ہیں۔اور تحفظ ختم نبوت خالصتاً ایمانیات کا مسئلہ ہے جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ قادیانیوں نے ربوہ کو اسرائیل کی طرز پر اپنا مرکز و مستقر بنالیا تھا ، وہاں کے تمام سرکاری ادارے بھی ان کے تابع تھے اور یہ دراصل ریاست کے اندر ایک خود مختار ریاست تھی ، جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ملی و ریاستی مفادات کے خلاف سرگرم عمل تھی ، مئی 1974ءمیں کچھ طلبہ جو اپنے مطالعاتی اور تفریحی دورے پر تھے ، دوران سفر ایک ٹرین میں ربوہ کے اسٹیشن پر رکے تو ربوہ کے غنڈوں نے ان پر ہلہ بول دیا، مارا پیٹا اور ختم نبوت مردہ باد کے نعرے لگائے ، یہ قادیانیوں کی جانب سے ملت اسلامیہ پاکستان کی دینی حمیت اور جذبہ عشق مصطفیﷺ کی ایمانی قوت کو پرکھنے کے لئے ایک ٹیسٹ کیس تھا ، اگر اس موقع پر غلامان مصطفی ﷺ جذبہ عشق مصطفیﷺ سے سرشار ہو کر اٹھ کھڑے نہ ہوتے تو قادیانیوں کے حوصلے اور بلند ہو جاتے اور وہ اسٹبلشمنٹ میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مملکت کے اقتدار اعلیٰ پر قبضے کی تدبیریں بھی کرسکتے تھے جو ان کا اصل ہدف تھا ، لیکن الحمد اللہ علی احسانہ! ان کا یہ خواب ناتمام رہا، بلکہ یہ سازش ان کے لئے پیام اجل ثابت ہوئی اور یہ دراصل خاتم الانبیاءﷺ کا معجزہ تھا اور ہمیں یہ دعا قبولیت کے پیکر میں ڈھلتی ہوئی نظر آئی کہ ” اے اللہ تو ان (باطل پرستوں) کے مکروہ فریب ہی میں ان کی تباہی و بربادی کے اسباب مقدر فرما۔“
ہم نے تحریک کو دومحاذوں پر منظم کیا ۔ ایک پارلیمنٹ کے اندر اور دوسرا پارلیمنٹ سے باہر ۔ بیرونی محاذ پر کام کرنے کے لئے تمام مکاتب فکر کے اتفاق رائے اور اجماع سے مجلس عمل تحفظ ختم نبوت تشکیل دی گئی ۔ جس نے ملک بھر میں مسلمانوں کو منظم کیا اور ایسی فضاءپیدا ہوئی کہ حکومت کے لئے اس مسئلے کو نظر انداز کرنا ممکن نہ رہا، مولانا محمد یوسف بنوری اس مجلس عمل کے صدر اور علامہ سید محمود احمد رضوی ناظم اعلیٰ تھے اور جس طرح 1953ءکی تحریک میں اس خانواد ے کا قائدانہ کردار تھا ،اسی طرح 1974ءکی تحریک میں انہوں نے اسی روایت کو قائم رکھا ۔علامہ سید ابوالحسنات قادری ، علامہ رضوی کے تایا تھے اور تحفظ و ناموس ختم نبوت کی پاداش میں سزائے موت پانے والوں میں ایک ان کے تایا زاد بھائی مولانا سید خلیل قادری تھے۔پارلیمنٹ کے اندر 1974ءکے بجٹ اجلاس کے فوراً بعد30جون کو میں(شاہ احمد نورانی) نے قادیانیوں کو کافر مرتدد قرار دینے کے لئے قرار داد پیش کی ، اسمبلی کے اندر جو دیگر علماءکرام تھے ، یعنی مفتی محمود ، علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری ، مولانا سید محمد علی رضوی ، مولانا عبدالحق اور پروفیسر غفور احمد وغیرہ ہم اس کے مویدین میں سے تھے ۔
اگر چہ پاکستان کی پچھلی اسمبلیوں میں بھی علماءارکان رہے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت مجھے نصیب فرمائی اور مجھے یقین کامل ہے کہ بارگاہ شفیع المذنبینﷺ میں میرے لئے یہی سب سے بڑا وسیلہ شفاعت و نجات ہو گا ۔اس دوران غلام قادیانی کے خلیفہ نے پیش کش کی کہ وہ اسمبلی میں پیش ہو کر اپنا موقف پیش کرنا چاہتے ہیں، ہم نے خوش آمد ید کہا قادیانی اور لاہوری دونوں گروپوں کے سربراہان آئے ۔ پوری قومی اسمبلی کو ایک خصوصی کمیٹی کی شکل دے دی گئی اور اس کے In Camera اجلاس شروع ہوئے ، جن میں صرف ارکان کو شرکت کی اجازت تھی۔ طریقہ کار کے مطابق ہم یعنی تمام علمائے کرام اپنے سوالات تحریری شکل میں جناب یحییٰ بختیار اٹارنی جنرل آف پاکستان کو دیتے تھے اور قواعد و ضوابط کے مطابق وہ سوالات پوچھتے، ان کا اس مسئلے میں کردار بلاشبہ بہت جاندار تھا، ان سوالات کے نتیجے میں مرزا غلام احمد قادیانی اور قادیانیات کا دجل و فریب کھل کرارکان اسمبلی کے سامنے آگیا اور سب کی غیرت ایمانی جاگ اٹھی اور اب ان کے سامنے دوراستے تھے یا تو مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوے کو تسلیم کرکے خود کو اور پوری امت مسلمہ کو غیر مسلم کریں اور یا انکار ختم نبوت اور جھوٹے ادعائے نبوت کے سبب مرزا غلام احمد قادیانی ،اس کو نبی ماننے والے قادیانی گروپ اور مجدد ماننے والے لاہوری گروپ کو کافر و مرتد قرار دیں ۔ اس طرح الحمد اللہ ! پاکستان میں یہ معجزہ خاتم الانبیا ﷺ ہم عاجزو ناکارہ غلامان مصطفیﷺ کی مساعی اور پوری ملت اسلامیہ پاکستان کی تائید و حمایت اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام مکاتب فکر کے علماءکی بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا۔ اوراسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں 7 ستمبر 1974ءکو قادیانیوں کو کافر و مرتد قرار دینے کی قرار داد اتفاق رائے سے منظور کی گئی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button