اٹک جیل سیاست دانوں کا مسکن

امتیاز عاصی
ایک صدی سے زیادہ قدیم اٹک کی ضلعی جیل کسی نہ کسی دور میں سیاست دانوں کا مسکن ضرور رہتی ہے۔ تقسیم سے پہلے اس ضلع کا نام کیمبل پور تھا اسی کی دہائی میں اس کا نام تبدیل کرکے ضلع اٹک رکھ دیا گیا۔ موسمی اعتبار سے اٹک کی آب ہوا گرمی میں شدید گرم اور سردی میں شدید سرد ہوتی ہے۔ مارشل لاء ہو یا نام نہاد جمہوری دور یہ جیل سیاست دانوں کا مسکن ہوتی ہے۔ آج کل یہ جیل ملکی اور بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ پنجاب کے آخری ضلع کی اس جیل میں عام طور پر جیلرز آنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ جیل ملازمین کی نظر میں دیگر ضلعی جیلوں کے مقابلے میں یہ جیل مال پانی کے مالی لحاظ سے زیادہ منفعت بخش تصور نہیں کی جاتی ہے۔ پنجاب کی ضلعی اور سنٹرل جیلوں کا اس جیل سے موازنہ کریں تو بعض سنٹرل اور ضلعی جیلوں کے مقابلے میں یہاں سہولتوں کا بہت فقدان ہے۔ دراصل سیاست دانوں کو یہاں بھیجنے کا مقصد انہیں آزاد فضا اور جیل کی زندگی کا احساس دلانا مقصود ہے۔ چونکہ ضلعی جیلوں میں بی کلاس نہیں ہوتی اس لئے ضلعی جیلوں میں سہولتوں کا فقدان ہو تا ہے۔ عمران خان ویسے تو سنٹرل جیل اڈیالہ آنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور نہیں لگا رہے ہیں۔ راولپنڈی میں1986 میں تعمیر ہونے والی سنٹرل جیل کی بی کلاس کسی گیسٹ ہائوس سے کم نہیں یہاں بیڈ کے علاوہ اٹیچ باتھ کی سہولت میسر ہے۔ گرم پانی کے لئے الیکٹرک گیز کی سہولت موجود ہے۔ ہم کچن کی بات کریں تو وہاں ڈی فریزر، فریج، اوون اور سوئی گیس کی سہولت کے ساتھ قیدیوں کی سہولت کے لئے سرسبز خوبصورت لان موجود ہے۔ کچن میں موجودہ اشیاء سرکاری طور پر میسر نہیں ہیں بلکہ جو وی آئی پیز قیدی رہتے ہیں وہ اپنے استعمال کے لئے یہ اشیاء ذاتی طور پر خرید کر رکھتے ہیں رہائی کے وقت وہ تمام اشیاء وہیں چھوڑ جاتے ہیں۔ سیاست دان اقتدار میں ہوتے ہیں تو انہیں جیل اصلاحات کا خیال نہیں آتا ۔ جیل جانے کے بعد وہ بنیادی سہولتوں کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ حکومت میں ہوتے ہوئے انہیں قیدیوں کو ملنے والی بنیادی سہولتوں کا خیال کرنا چاہیے۔ ضلعی جیلوں میں سہولتوں کے فقدان کے باعث قیدیوں کی بھرپور کوشش ہوتی ہے وہ سزا کے بعد کسی نہ کسی سنٹرل جیل میں چلیں جائیں۔ عمر قید والے قیدیوں کو ضلعی جیلوں میں ویسے بھی نہیں رکھا جاتا کیونکہ ان جیلوں میں فیکٹری نہیں ہوتی کہ انہیں مشقت کے لئے فیکٹری بھیجا جا سکے۔ جب سے سابق وزیراعظم عمران خان کو اٹک جیل میں بھیجا گیا ہے۔ اخبارات، سوشل اور الیکٹرناک میڈیا سے وابستہ حضرات طرح طرح کی خبریں پھیلا کر اپنی رٹینگ بڑھانے کی کوشش میں لگے ہیں۔ عمران خان کو سی پی ون میں رکھا گیا ہے۔ عام لوگ لفظ سی پی سے آشنا نہیں ہوتے سی پی کے لفظی معانی condmined prisioner کے ہیں یہ وہ جگہ ہے جہاں سزائے موت کے قیدیوں کو رکھا جاتاہے ۔ عمران خان کو اسی جگہ رکھا گیا ہے اس سیل کے باہر ایک چھوٹا سا سرسبز لان ہے جہاں وہ چہل قدمی کر سکتے ہیں۔ عمران خان سے پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹے حسین نواز، میاں شہباز شریف، سابق سینیٹر سیف الرحمان، سرحد کے دو سابق وزراء اعلیٰ اعظم خان ہوتی، سردار مہتاب خاں، کے علاوہ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار اور پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی بھی رہ چکے ہیں۔ نواز شریف اور حسین نواز کو قاسم بلاک کی بیرک میں رکھا گیا تھا۔ ڈاکٹر فاروق ستار بیرک نمبر نو میں رہ چکے ہیں۔ اعظم سواتی کو جیل میںگھاس اور پودے لگانے کے حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے۔ جیل مینوئل کے مطابق قیدیوں اور حوالاتیوں کو اپنی بیرکس سے دوسری بیرکس میں جانے کی اجازت نہیں، یہاں تک کسی قیدی یا حوالاتی نے جیل کے ہسپتال جانا ہو تو اسے ہیڈ وارڈر کی نگرانی میں لے جایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود سینٹرل جیلوں میں قیدی اور حوالاتی سب اچھا کرنے کے بعد با آسانی آپس میں مل لیتے ہیں۔ بعض جیلوں میں قیدی اور حوالاتی اپنی بیرکس سے دوسری بیرکس میں پورا پورا دن بیٹھے رہتے ہیں، شام کو گنتی بند ہونے سے پہلے اپنی بیرکس میں واپس چلے جاتے ہیں۔ پنجاب کی ضلعی جیلوں میں ماحول خاصا مختلف ہے، بہت کم ایسا ہوتا ہے قیدی اپنی بیرکس سے کسی دوسری بیرکس میں چلے جائیں۔ جہاں تک سیاست دانوں سے قیدیوں اور حوالاتیوں کی ملاقات کی بات ہے، سینٹرل جیلوں میں سب اچھا کرنے کے بعد قیدی بی کلاس اور سیلوں میں بند سیاست دانوں سے با آسانی مل لیتے ہیں۔ اٹک جیسی جیل میں عمران خان سے کسی قیدی یا حوالاتی کی ملاقات کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ عمران خان کی نگرانی کے لئے پنجاب کی دوسری جیلوں سے خصوصی طور پر عملہ منگوا کر تعنیات کیا گیا ہے، جن کی موجودگی میں اٹک جیل کے عملے کا کوئی رکن عمران خان والی سی پی ون جانے کی اجازت نہیں ہے۔ دراصل قید تنہائی انسان کے لئے بہت بڑی سزا ہے۔ اللہ کے بنی حضرت یوسف ؑ نے ایسے تو نہیں فرمایا تھا قید خانہ جہنم کا ایک ٹکڑا ہے۔ جیسا کہ اخبارات میں آیا ہے سابق وزیراعظم کو بی کلاس دے دی گئی ہے۔ بی کلاس کیا ہوتی ہے، ایک میٹریس مہیا کر دیا گیا ہے کیونکہ اٹک جیل کے جس سیل میں عمران خان کو رکھا گیا ہے وہاں بیڈ نہیں رکھا جا سکتا۔ جیل مینوئل کی رو سے قیدی کسی کلاس کا ہو وہ کانچ اور سٹیل کا برتن نہیں رکھ سکتا۔ بلیڈ اور تکیہ نہیں رکھ سکتا۔ یہ علیحدہ بات ہے پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم کو کچھ سہولتیں مہیا کی گئی ہوں البتہ انہیں سینٹرل جیل راولپنڈی کی بی کلاس میں رہنے والے قیدیوں کو ملنے والی سہولتیں اٹک کی جیل میں میسر نہیں ہیں، اسی لئے وہ راولپنڈی جیل منتقلی کے لئے کوشاں ہیں۔ کڑی نگرانی میں رکھے جانے والے کپتان کے لئے آنے والے وقتوں میں بہت سی مشکلات کا قومی امکان ہے۔ جن مقدمات میں ضمانتیں ملیں تھیں وہ عدم پیشی کی بنا خارج ہو رہی ہیں۔ توشہ خانہ کیس کی سزا معطل بھی ہو جائے تو عمران خان کی جلد رہائی کا بہت کم امکان ہے انہیں کسی نہ کسی اور مقدمہ میں دوبارہ گرفتار کر لیا جائے گا۔