تازہ ترینخبریںروشنی

قرآن مجید کے بعد سب سے صادق کتاب لکھنے والے امام بخاری کون ہیں ؟ کیا آپ جانتے ہیں ؟

اس روح ارض پر قرآن مجید ہی سب سے صادق کتاب ہے لیکن بعض علماء کا کہنا ہے کہ قرآن مجید کے بعد آگ اس روح ارض پر کوئی سچی کتاب موجود ہے تو سہر فرست صحیح البخاری ہے ۔

امام بخاری نے اپنی تصنیف صحیح البخاری میں ابن الصلاح کے مطابق صحیح بخاری میں احادیث کی کل تعداد 9086 ہے۔ یہ تعداد ان احادیث کو شامل کر کے ہے جو ایک سے زیادہ مرتبہ وارد ہوئی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر ایک سے زیادہ تعداد میں وارد احادیث کو اگر ایک ہی تسلیم کیا جائے تو احادیث کی تعداد 2761 رہ جاتی ہے۔

سلسلۂ نسب

ابو عبداﷲ محمد (امام بخاری ؒ) بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بردزبہ البخاری الجعفی۔ امام بخاری ؒ کے والد حضرت اسماعیل ؒ کو جلیل القدر علمااور امام مالک رحمتہ اﷲ علیہ کی شاگردی کا بھی شرف حاصل تھا۔
پیدائش:

امام بخاریؒ 13 شوال 194؁ھ (20 جولائی

810؁ئ) کو بعد نمازِ جمعہ بخارا میں پیدا ہوئے۔ امام بخاری ؒ ابھی کم سن ہی تھے کہ شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور تعلیم و تربیت کیلئے صرف والدہ کاہی سہارا باقی رہ گیا۔ شفیق باپ کے ا ٹھ جانے کے بعد ماں نے امام بخاری ؒ کی پرورش شروع کی اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ امام بخاری ؒ نے ابھی اچھی طرح آنکھیں کھولی بھی نہ تھیں کہ بینائی جاتی رہی۔ اس المناک سانحہ سے والدہ کو شدید صدمہ ہوا۔

امام بخاری ؒ کا حافظہ:

امام بخاری ؒ کو اﷲ تعالیٰ نے غیر معمولی حافظہ اور ذہن عطا کیا تھا۔ ایک مرتبہ بغداد آئے، محدثین جمع ہوئے اور آپؒ کا امتحان لینا چاہا، امتحان کی ترتیب یہ رکھی کہ دس آدمیوں نے دس دس حدیثیں لے کر ان کے سامنے پیش کیں، ان احادیث کے متن (عبارت) اور سندوں کو بدلا گیا، متن ایک حدیث کا اور سند دوسری حدیث کی لگا دی گئی۔ امام بخاری ؒ حدیث سنتے اور کہتے، مجھے اس حدیث کے بارے میں علم نہیں جب سارے محدثین اپنی دس دس حدیثیں سنا چکے اور ہر ایک کے جواب میں امام بخاری ؒ نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں، تو سارے لوگ ان سے بدظن ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ کیسے امام ہیں کہ 100 احادیث میں سے چند حدیثیں بھی نہیں جانتے۔

اس مجلس میں امام صاحب کی اس طرح حدیثوں کی صحت، پر سارا مجمع حیران اور خاموش تھا، علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ یہ واقعہ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں، یہاں امام بخاری ؒ کی امامت تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ تعجب یہ نہیں کہ امام بخاری ؒ نے غلط احادیث کی تصحیح کی اسلئے کہ وہ تو تھے ہی حافظ حدیث، تعجب تو اس کرشمہ پر ہے کہ امام بخاری ؒ نے ایک ہی دفعہ میں ان کی بیان کردہ ترتیب کے مطابق وہ تمام تبدیل شدہ حدیثیں بھی یاد کر لیں۔ (فتح الباری ، شرح صحیح بخاری)

امام بخاری ؒ کی شرط کا بیان:

آپ ؒ وہی حدیث بیان کرتے تھے جس کو ثقہ نے ثقہ سے مشہور صحابی تک روایت کی ہو اور معتبر ثقات اس حدیث میں اختلاف نہ کرتے ہوں اور سلسلۂ اسناد متصل ہو۔ اگر صحابی سے دو شخص راوی ہوں تو بہتر ورنہ ایک معتبر راوی بھی کافی ہے۔امام مسلم ؒ نے امام بخاری ؒسے علم حدیث حاصل کیا اور فائدہ اٹھایا لیکن وہ امام بخاریؒ کے اکثر اساتذہ کے بھی شاگرد ہیں (یعنی دونوں نے ایک ہی ا ستادوں سے علم حا صل کیا) اور ان دونوں کی کتابیں قرآن مجید کے بعد تمام کتابوں سے زیادہ صحیح ہیں۔ علما کااس امر پر اتفاق ہے کہ صحیح بخاری صحت میں صحیح مسلم سے افضل ہے۔ بخاری شریف کے علاوہ بھی امام صاحب کی 22 اہم اور بلند پایہ تصانیف ہیں۔ آپ کی مجالسِ درس زیادہ تر بصرہ، بغداد اور بخارا میں رہیں، لیکن دنیا کا غالباً کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں امام بخاری ؒکے شاگرد سلسلہ بسلسلہ نہ پہنچے ہوں۔

تدوینِ حدیث
تدوینِ حدیث (احادیث کوجمع کرنا) کی ابتدا خلفائے راشدین ہی سے ہوئی ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کو اگر ذرا بھی شبہ ہو جاتا تو دلیل اور گواہ طلب کر لیتے تھے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ کے بارے میں محدثین لکھتے ہیں کہ روایت میں انتہائی سختی برتتے تھے اور اگر کوئی شاگرد الفاظِ حدیث یاد کرنے میں کوتاہی کرتا تو ڈانٹتے تھے۔ تحقیق و تنقید کی بنیاد حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ نے ڈالی۔ تابعین ؒ نے اس کے اصول و ضوابط مرتب کئے اور تبع تابعین ؒ نے مستقل اور باضابطہ فن کی حیثیت دی ۔

وفات

محمد بن ابی حاتم وراق ؒفرماتے ہیں میں نے غالب بن جبریل ؒسے سنا کہ امام بخاری ؒخرتنگ میں انہیں کے پاس تشریف فرما تھے۔ امام بخاری ؒچند روز وہاں رہے پھر بیمار ہوگئے۔ اس وقت ایک ایلچی آیا اور کہنے لگا کہ سمرقند کے لوگوں نے آپ ؒ کوبلایا ہے۔ امام بخاری ؒنے قبول فرمایا۔ موزے پہنے، عمامہ باندھا۔ بیس قدم گئے ہوں گے۔ کہ ا نہوں نے کہا مجھ کو چھوڑ دو ، مجھے ضعف ہو گیا ہے۔ ہم نے چھوڑ دیا۔ امام بخاریؒ نے کئی دعائیں پڑھیں پھر لیٹ گئے۔ آپؒ کے بدن سے بہت پسینہ نکلا۔ دس شوال 256؁ھ بعد نماز عشاء آپؒ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ اگلے روز جب آپؒ کے انتقال کی خبر سمرقند اور ا طراف میں مشہور ہوئی تو کہرام مچ گیا۔ پورا شہر ماتم کدہ بن گیا۔ جنازہ اٹھا تو شہر کا ہر شخص جنازہ کے ساتھ تھا۔ نماز ظہر کے بعد اس علم و عمل اور زہد و تقویٰ کے پیکر کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔ جب قبر میں رکھا تو آپؒ کی قبر سے مشک کی طرح خوشبو پھوٹی اور بہت دنوں تک یہ خوشبو باقی رہی۔ (ابن ابی حاتم ؒ)
ا نا للہ وا نا ا لیہ راجعون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button