ColumnHabib Ullah Qamar

کشمیری لیڈر محمد اشرف صحرائی کی یاد میں

کشمیری لیڈر محمد اشرف صحرائی کی یاد میں

حبیب اللہ قمر
بزرگ کشمیری قائد سید علی گیلانی کے قریبی ساتھی اور تحریک حریت جموں کشمیر کے چیئرمین محمد اشرف صحرائی کی شہادت کو دو برس گزر گئے۔ وہ مقبوضہ جموں میں دوران حراست فوت ہوئے۔ ان کی شہادت کو ٹارگٹ کلنگ کا شاخسانہ قرار دیا گیا جس پر پوری کشمیری قوم کی طرف سے زبردست احتجاج کیا گیا۔ اشرف صحرائی کی شہادت سے چند دن قبل ہی اس امر کا انکشاف ہوا تھا کہ بھارتی جیلوں میں قید بعض کشمیری لیڈر اور سرگرم کارکنان کرونا کے خوفناک مرض میں مبتلا ہوئے ہیں تاہم ہندوستانی حکومت انہیں علاج معالجہ کی سہولیات فراہم نہیں کر رہی جس سے ان کی زندگیوں کو سخت خطرات لاحق ہیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان اور حریت قیادت سمیت تمام کشمیری رہنمائوں نے بھارت میں کرونا کی خوفناک تباہ کاریوں اور جیلوں میں وائرس پھیلنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہزاروں کشمیری جنہیں بلاوجہ بھارتی جیلوں میں رکھا گیا ہے، انہیں وادی کشمیر کی جیلوں میں منتقل کیا جائے۔ اس کے لیے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں کی توجہ بھی اس جانب مبذول کروائی گئی کہ وہ بھارت پر دبا بڑھائیں کہ وہ کشمیری قیدیوں کو رہا کرے اور حریت لیڈروں کو طبی سہولیات فراہم کی جائیں لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ تحریک آزادی کشمیر کے انتہائی اہم لیڈر بھارتی سازش کا شکار ہو کراس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے ۔ کشمیری لیڈر اشرف صحرائی سے متعلق بھارتی میڈیا کی طرف سے یہ خبریں پھیلائی گئیں کہ ان کی وفات گورنمنٹ میڈیکل کالج جموں میں ہوئی اور وہ وہیں زیر علاج تھے لیکن دنیا کو یہ نہیں بتایا گیا کہ ستتر سالہ بزرگ لیڈر کی جیل میں طبیعت تو کئی دن سے خراب تھی۔ سانس صحیح طرح بحال نہ ہونے پر انہیں آکسیجن کی فوری ضرورت تھی لیکن جان بوجھ کر انہیں اس طبی سہولت سے محروم رکھا گیا اور جب صحت تشویشناک صورتحال اختیار کر گئی اور یقین ہو گیا کہ اب وہ زندہ نہیں رہ سکیں گے تو دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے جموں ہسپتال داخل کروا دیا گیا۔ یہاں ڈاکٹروں نے ان کی حالت کے پیش نظر وینٹی لیٹر سپورٹ پر رکھا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے اور کچھ دیر بعد ہی وفات پا گئے۔ محمد اشرف صحرائی تحریک آزادی کشمیر کے عظیم رہنما تھا جنہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں میں گزارا اور ہندوستانی فوج کے بے پناہ مظالم برداشت کیے لیکن بھارتی فوج کے سامنے کبھی سر نہیں جھکایا۔ وہ وادی لولاب کے ٹکی پورہ علاقہ میں قیام پاکستان سے تین سال قبل شمس الدین خان کے گھر پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقہ سے حاصل کی اور دسویں کا امتحان اعلیٰ نمبروں میں پاس کرنے کے بعد بھارت کی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں داخلہ لے لیا جہاں سے اردو آنرز کا امتحان پاس کیا۔ وہ زمانہ طالب علمی سے ہی زبردست تحریکی ذہن رکھتے تھے اور اسی دور میں ہی انہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ انہیں شاعری سے بے حد لگا تھا اور انہوں نے بہت سی نظمیں اور غزلیں لکھیں جن میں کشمیر میں جاری بھارتی ظلم و دہشت گردی اور تازہ صورتحال کو خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ شہید رہنما کو پہلی مرتبہ بائیس سال کی عمر میں گرفتار کیا گیا جس پر وہ سری نگر کی سینٹرل جیل میں چھ ماہ قید رہے ۔ اسی طرح بعد میں بھی گرفتاریوں اور رہائی کا سلسلہ وقتا فوقتا جاری رہا۔ تحریک آزادی کشمیر کے عظیم قائد سید علی گیلانی نے جب جماعت اسلامی کو خیرباد کہہ کر تحریک حریت جموں کشمیر کی بنیاد ڈالی تو محمد اشرف صحرائی بھی اسی تنظیم سے وابستہ ہو گئے اور انہیں تنظیم کا سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔ بعد ازاں بزرگ لیڈر سید علی گیلانی نے جب خرابی صحت کی بنیاد پر تحریک حریت کی چیئرمین شپ سنبھالنے سے معذوری کا اظہار کیا تو اشرف صحرائی شہید کو تین سال کے لئے چیئرمین منتخب کر لیا گیا۔ وہ 2019ء میں بھی سید علی گیلانی کے ہمراہ نظربند رہے تاہم جولائی 2020میں انہیں دوبارہ کالے قانون پی ایس اے کے تحت حراست میں لیا گیا اور اس وقت کے بعد سے وہ مرتے دم تک جیل میں ہی جرم بے گناہی کی سزا کاٹتے رہے۔ کشمیری لیڈر اشرف صحرائی تحریک آزادی کے عظیم قائد سید علی گیلانی کے بعد بلا شبہ تحریک حریت کے سب سے قد آور رہنما تھے ۔ ان کے ایک بیٹے جنید صحرائی بھی بھارتی فوج کے ساتھ برسر پیکار رہتے ہوئے تین سال قبل شہید ہوئے۔ ان کا شمار بھارتی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں ہوتا ہے۔ جنید صحرائی نے برہان وانی کی شہادت کے بعد جب مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا تو بھارتی فوج نے تحریک حریت کے لیڈر اشرف صحرائی سے کہا کی کہ وہ اپنے بیٹے کو گھر واپس آنے کی اپیل کریں لیکن انہوں نے یہ کہہ کر صاف انکا ر کر دیا کہ جنید شعور کے راستے پر چل پڑا ہے۔ غاصب بھارت کے خلاف تحریک آزادی میں شریک سبھی نوجوان ان کے بیٹے ہیں۔ اگر وہ جدوجہد آزادی میں اپنا خون پیش کر رہے ہیں تو ان کے بیٹے کی شہادت پر بھی انہیں خوشی ہو گی۔ یعنی تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے شہید حریت لیڈر لازوال جذبوں کی ایک عظیم داستان تھے جن کی قربانیوں کو کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیر کے تازہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو بھارت کی مودی حکومت اس وقت حریت لیڈروں کے خلاف گھنانے منصوبوں پر عمل پیرا ہے اور ان کی زندگیوں کو جان بوجھ کر خطرات سے دوچار کیا جارہا ہے تاکہ اشرف صحرائی کی طرح دوسرے لیڈروں میں سے بھی کسی کی زندگی چلی جائے تو یہ پراپیگنڈا کیا جائے کہ ان کی شہادت ٹارگٹ کلنگ نہیں بلکہ طبی بنیادوں پر ہوئی ہے ۔ بھارت کا ماضی گواہ ہے کہ اس سے قبل بھی ہندوستانی جیلوں میں کشمیری لیڈروں کو سلو پوائزننگ کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جس سے وہ خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہوئے اور آج تک صحیح معنوں میں صحت یاب نہیں ہو سکے۔ اس وقت بھی کشمیری لیڈر یاسین ملک جن کی عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کرنے کے لیے دہلی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے، کے علاوہ ڈاکٹر محمد قاسم، مسرت عالم بٹ، سیدہ آسیہ اندرابی، شبیر احمد شاہ، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین اور دوسرے کشمیری قیدیوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان میں سے کئی لیڈر مختلف قسم کے امراض میں مبتلا ہیں لیکن انہیں کسی قسم کے علاج معالجہ کی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔ مودی سرکار کے کشمیری لیڈروں کے حوالے سے عزائم اچھے نہیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی فورمز پر مضبوط آواز اٹھائے کہ ہندوستانی جیلوں میں قید کشمیریوں کو فوری رہا کیا جائے یا کم سے کم انہیں وادی کشمیر کی جیلوں میں منتقل کیا جائے تاکہ ان کی زندگیاں محفوظ بنائی جاسکیں۔ اس مشکل وقت میں مظلوم کشمیریوں کے حق میں بھرپور سفارتی مہم چلانی چاہیے اور دنیا بھر میں قائم سفارت خانوں کو متحرک کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائی جائیں۔ حقیقت ہے کہ اس وقت کشمیری مسلمان اگر اپنے سینوں پر گولیاں کھاتے ہوئے پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں تو ہمیں بھی ان کی مدد و حمایت سے کسی طور پیچھے نہیں رہنا چاہیے اور نا ہی اس حوالے سے کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ شہداء کی قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ جلد مظلوم کشمیریوں کو آزادی کی نعمت سے سرفراز کرے گا۔ ان شاء اللہ

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button