CM RizwanColumn

ریڈیو پاکستان کا گلا نہ گھونٹا جائے

سی ایم رضوان

ریڈیو پاکستان کو اگر موجودہ دور کا تباہی سے دوچار ادارہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا حالانکہ وطن عزیز کی جملہ زبانوں، ثقافتوں اور قومی تہذیب و تمدن کے امین اس ملک گیر ادارہ کی سابقہ ادوار میں بھی اہمیت اور فضیلت مسلم ہے اور موجودہ دور میں بھی اس کی اہمیت اور ضرورت سے انکار ناممکن ہے۔ آج بھی ملک بھر میں اس کی عمارات، نیٹ ورک اور اس سے منسلک موجودہ اور سابقہ ملازمین موجود ہیں جو کہ پچھلے کئی سالوں سے حکومتی بدسلوکی اور انتظامی غفلت و لاپرواہی کا رونا رو رہے ہیں۔ اس ظلم پر ملک کے حساس طبقات اور اہل قلم و دانش شدید پریشان ہیں۔ اس ضمن میں سینئر صحافی شہزاد حسین بٹ اور معروف براڈ کاسٹر زاہد محمود بھٹہ سے ایک غیر رسمی ملاقات میں ان دونوں صاحبان نے کہا کہ اس مفید ترین ادارہ کے ملازمین اور افسران کو عضو ناکارہ سمجھ کر بیروزگاری اور کسمپرسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا کسی طور بھی گوارا نہیں۔ تقاضائے عدل تو یہ ہے کہ اس ادارہ سے منسلک افرادی قوت کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہونا چاہیے مگر کیا کریں کہ یہ ظلم کئی دہائیوں سے جاری ہے اور اب تو یہ مسئلہ ایک ناسور کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ادارے کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے کیا یہ کافی نہیں کہ وطن عزیز کے قیام کا اعلان کرنے کا اعزاز ریڈیو پاکستان کو حاصل ہے۔ جب تیرہ اور چودہ اگست 1947ء کی درمیانی شب لاہور سٹیشن سے اردو میں مصطفیٰ علی ہمدانی اور انگریزی میں ظہور آذر نے قیام پاکستان کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت وطن عزیز کے حصہ میں لاہور پشاور اور مسقوط مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ میں قائم تین ریڈیو سٹیشن آئے تھے۔ پشاور سے پشتو زبان میں عبداللہ جان مغموم نے اس وقت کے صوبہ سرحد کے باسیوں کو پاکستان قائم ہونے کی نوید سنائی تھی۔ ریڈیو پاکستان دسمبر 1972ء تک ایک سرکاری محکمہ کے طور پر کام کرتا رہا۔ اس وقت کے صدر اور بعد میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے بی بی سی اور وائس آف امریکہ کی طرز پر ریڈیو پاکستان کو کارپوریشن میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لئے پارلیمنٹ سے ایک ایکٹ منظور کر کے پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن قائم کی گئی۔ اس ایکٹ کے تحت حکومت پاکستان نے ریڈیو پاکستان کے جملہ اخراجات پورے کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
1964ء میں پاکستان ٹیلی ویژن نے ریڈیو پاکستان لاہور ہی کے احاطہ میں ایک الگ ادارے کے طور پر جنم لیا اور ابتدائی طور پر پاکستان ٹیلی ویژن میں معمولی کارکن سے لے کر اعلیٰ ترین سطح تک تمام لوگ ریڈیو پاکستان ہی سے لئے گئے۔ تین سٹیشنوں سے شروع ہونے والے ریڈیو پاکستان کے اب بتیس سٹیشن گوادر سے لے کر چترال اور مٹھی سے لے کر لورالائی اور ژوب تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان سٹیشنوں سے وطن عزیز میں بولی جانے والی تقریباً تمام زبانوں میں پروگرام اور خبریں بھی نشر کی جاتی ہیں۔ احمد ندیم قاسمی، شوکت تھانوی، امتیاز علی تاج، اشفاق احمد، ن م راشد، امیر حمزہ شینواری، احمد فراز، افتخار عارف، ضیاء محی الدین، طلعت حسین، زاہد محمود بھٹہ اور محمد قوی خان جیسے نابغہ روزگار لیجنڈز نے اپنی فنی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا تھا۔ اس وقت بھی ریڈیو پاکستان ملک میں علم و فن، شعر و ادب، صدا کاری اور موسیقی کی سرپرستی کا سب سے بڑا اور معتبر ادارہ ہے لیکن اس ادارے سے وابستہ اہلکار، صدا کار اور جز وقتی کارکنانِ طویل عرصہ سے حکومتی سرد مہری کا شکار ہیں۔ ریڈیو پاکستان کا موجودہ مالیاتی بحران سابقہ ہی ٹی آئی دور میں بھی تھا۔ 2018ء میں برسر اقتدار آنے پر اس کے وزیر اطلاعات فواد چودھری وزارت کا حلف اٹھاتے ہی ریڈیو پاکستان کے صدر دفتر آئے اور اس عمارت کو نجی ٹیلی ویژن کمپنیوں کے حوالے کر کے کروڑوں روپے کمانے کا دعویٰ کیا اور یہ بھی کہا کہ ریڈیو تو ایک کمرے سے بھی چلایا جا سکتا ہے۔ تب ان کی اس بے ڈھنگی پیش قدمی کو ریڈیو پاکستان کے کارکنوں اور صداکاروں نے ایوان وزیر اعظم اور پارلیمنٹ ہائوس سے باہر احتجاج کر کے روک تو دیا لیکن اس بات کو انہوں نے ذاتی انا کا مسئلہ بنا لیا اور ساڑھے تین برس جب تک پی ٹی آئی برسراقتدار رہی ریڈیو پاکستان کے سالانہ بجٹ میں ایک روپے کا اضافہ نہ کیا گیا۔ اس دوران کرونا کی وبا، سیلاب، زلزلے، دھماکے اور دیگر قدرتی آفات کی صورت میں ریڈیو پاکستان کو جو اضافی پروگرام کرنے پڑے ان کے لئے بھی الگ سے بجٹ فراہم نہ کیا گیا اور نہ ہی مہنگائی کے تناسب سے ریڈیو پاکستان کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا۔ فواد چودھری کی ریڈیو پاکستان سے دشمنی اس قدر شدید تھی کہ جب انہیں وزارت اطلاعات سے ہٹا کر سائنس و ٹیکنالوجی کا بھٹہ بٹھانے کی ذمہ داری دی گئی تو بھی انہوں نے ریڈیو پاکستان کے لئے کبھی اضافی رقم منظور نہ ہونے دی۔ نتیجہ یہ کہ گزشتہ پانچ سال میں ریڈیو پاکستان کو ملنے والے بجٹ اور اخراجات میں فرق دو ارب روپے سے زاءد ہو چکا ہے۔ 1063کنٹریکٹ ملازمین کو گھر بھیجا جا چکا ہے۔ ریٹائر ہونے والے تین سو سے زائد ملازمین کو کموٹیشن کی رقم نہیں مل سکی۔ مالی بحران سنگین تر ہو چکا ہے۔ جاری اخراجات کے لئے درکار رقم بھی مختص نہیں کی گئی۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کہ تنخواہ کی طرح پنشن ریٹائرڈ ملازمین کا حق ہے جس کو روکا یا ملتوی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے باوجود وزارت خزانہ اور وزارت اطلاعات ریڈیو پاکستان کے متعدد ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن اور کموٹیشن ادا نہ کر رہی ہے
انتظامی سطح پر بھی ریڈیو پاکستان کو ناکارہ کرنے کی پالیسی جاری ہے۔ فنڈز کی کمی کا بہانہ بنا کر یکے بعد دیگرے ریڈیو پاکستان میں سینٹرل پروڈکشنز لاہور، کراچی، عالمی و بیرونی نشریات، ریڈیو آزاد کشمیر کا تراڑ کھل سٹیشن، پی بی سی پبلیکیشنز اور پاکستان براڈکاسٹنگ اکیڈمی جیسے کلیدی ادارے بند کر دیئے گئے۔ ریڈیو پاکستان چترال، عوب، خضدار، کوئٹہ، خیرپور، لاہور، کراچی، سکردو، گلگت، ایبٹ آباد، تربت، لورالائی اور حیدر آباد جیسے اہم شہروں کے میڈیم ویو کے ٹرانسمیٹرز بھی تکنیکی یتیمی کے باعث بند کیے جا چکے ہیں۔ اب یہاں لگائے گئے ایف ایم کے ناقص ٹرانسمیٹرز اپنے سٹیشنوں کی دیواروں سے آگے نہیں سنائی دیتے۔ سینئر صحافی شہزاد حسین بٹ نے بتایا کہ ریڈیو پاکستان کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین یا ان کے زیرکفالت افراد کے لئے ضروری طبی امداد اور جان بچانے کے لئے ضروری آپریشنوں کے لئے پیشگی رقوم کی فراہمی بھی بند ہے۔ صداکاروں کو بروقت معاوضہ دینے، شدید ترین سردی میں سکردو، گلگت، چترال، عوب اور کوئٹہ جیسے سٹیشنوں پر دفاتر کو گرم رکھنے کے لئے مٹی کے تیل یا گیس کے سلنڈروں کے لئے کوئی رقم مہیا نہیں کی جا رہی۔ ملک بھر کے سٹیشنوں پر بجلی کی فراہمی میں تعطل کی صورت میں جنریٹر چلانے کے لئے ڈیزل تک موجود نہیں ہوتا۔ چند سو یا چند ہزار روپوں کی معمولی مرمت کی منتظر درجنوں گاڑیاں سٹیشنوں پر کھڑی کھڑی تباہ ہو چکی ہیں۔ 1063جز وقتی ملازمین کو 2020ء میں بیک جنبش قلم فارغ کر دینے کی وجہ سے درجنوں سٹیشنوں پر سینٹری ورکرز نہیں رہے۔ اب صفائی کی ذمہ داری بھی ان دفاتر میں بیٹھنے والے خود سرانجام دے رہے ہیں۔
ریڈیو پاکستان ایک ایسا ادارہ ہے جو سیاچین گلیشئر کی برف پوش چوٹیوں پر تعینات سپاہیوں سے لے کر گوادر کے ساحل پر مصروف کار مچھیروں تک کو قومی وحدت کی ایک اکائی میں پروئے ہوئے ہے، حتی المقدور معلومات، اطلاعات اور تفریح پہنچا رہا ہی۔ اس ادارے کے اخراجات پورے کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ گو کہ اس کے پاس پیش کرنے کے لئے صرف ایک اپنی آواز ہے۔ جس کو سننے کے لئے کبھی لائسنس فیس ادا کرنا ہوتی تھی۔ وفاقی حکومت نے 1980ء کے عشرے میں متبادل انتظام کیے بغیر ریڈیو لائسنس ختم کر دیئے تھے۔ شہزاد حسین بٹ کا کہنا تھا کہ پاکستان ٹیلی ویعن کے جاری اخراجات کے لئے تو مساجد، مدارس سمیت بجلی کے تمام صارفین سے معقول ماہانہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ اس مد میں پانچ ارب روپے سے زائد رقم سالانہ جمع کر کے پاکستان ٹیلی ویژن کے حوالے کی جاتی ہے۔ پی ٹی وی کو ہر سال اربوں روپے مزید بھی مہیا کیے جاتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بھی اسی نوعیت کا ٹیکس لگانے کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ بروقت اطلاع کی اہمیت کے پیش نظر آل انڈیا ریڈیو نے گزشتہ سات برس میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں ڈیڑھ سو سے زائد طاقت ور ٹرانسمیٹرز نصب کیے ہوئے ہیں جبکہ چترال، گلگت، سکردو، ژوب، گوادر، چاغی، تربت، مٹھی اور کوئٹہ جیسے تزویراتی اہمیت کے حامل علاقوں اور شہروں میں ریڈیو پاکستان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ان جگہوں پر آل انڈیا ریڈیو اور دنیا بھر کے دیگر چینلز نہایت آسانی سے سنے جا سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں ڈیجیٹل میڈیا کے فروغ کے باوجود انٹرنیٹ، فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام جیسی سہولیات پاکستان کی ساری آبادی کو میسر نہیں۔ نصف سے زائد ملک میں بجلی اور ٹیلی ویژن کی سہولت تک نہیں ہے۔ اتنی ہی آبادی کا معلومات اور اطلاعات کے لئے انحصار صرف ریڈیو پر ہے مگر ضرورت کے باوجود ریڈیو پاکستان کو اپنی موت آپ مرنے کے لئے لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کی آواز پھیلانے کی بجائے اس کا گلا گھونٹنے کی خودکار پالیسی پر عمل جاری ہے۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو اس صورت حال پر غور کرنا چاہیے اور ریڈیو پاکستان کو نہ صرف نئے ڈیجیٹل ٹرانسمیٹرز کے لئے خاطرخواہ فنڈز مہیا کرنے چاہئیں بلکہ اس کے ملازمین کو بلا تعطل تنخواہیں، کموٹیشن اور پنشن دینے اور اس میں کام کرنے والے رائٹروں، صداکاروں، موسیقاروں، گلوکاروں اور نیوز کاسٹروں کے معاوضے بڑھانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں جن کے معاوضے 2015ء کے بعد سے اب تک نہیں بڑھائے جا سکے ہیں اور جو قلیل معاوضوں کے حصول کے لئے بھی برسوں سے انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں۔ یادرہے کہ سابقہ حکومت کی جانب سے ریڈیو پاکستان کے سٹیشن اور یونٹ بند کرنے، نئے ٹرانسمیٹرز لگائے بغیر پرانے بند کر دینے، خالی اسامیوں پر نئی بھرتیاں نہ کرنے، ملازمین کے لئے ہائرنگ، میڈیکل الائونس، تنخواہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن اور کموٹیشن ادا نہ کرنے جیسے اقدامات کیے گئے۔ موجودہ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ افراط زر، مہنگائی اور جاری اخراجات کے ساتھ ساتھ تنخواہوں میں ہونے والے اضافوں کے تناسب سے ریڈیو پاکستان کے لئے مختص رقم بڑھائے۔ نہ کہ اس ادارہ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button