Column

پاکستان آئی ایم ایف کے شکنجے میں

ڈاکٹر سبیل اکرام

اس بات میں کوئی آراء نہیں کہ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کے شکنجے میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عالمی مالیاتی ادارہ اپنی تمام تر جائز ناجائز شرائط منوانے کے باوجود اس معاہدے پر دستخط نہیں کر رہا، جس کے مدد سے حکمران مسلسل باور کرا رہے ہیں کہ اس کے بعد پاکستان کی معیشت جو کہ مسلسل بستر مرگ پر پڑی ہے، سنبھل جائے گی اور پاکستان معاشی اعتبار سے خود کفیل ہوسکے گا۔ آئی ایم ایف کے اس جبر اور پاکستان کے عوام کی صبر پر اظہار خیال کیا جائے یہ بات طے ہے کہ یہ ایک ایسا عالمی ایجنڈا ہے جس کا واحد مقصد پاکستان کی معیشت اور معاشرت کو اس حد تک تباہ کرنا ہے کہ پاکستان عالمی ساہوکاروں کے لیے گھٹنے ٹیک کر ہر وہ بات تسلیم کرے جو وہ چاہتے ہیں ، اس جبر کا سبب سے بڑا مقصد ایٹمی اثاثوں سے محروم کرکے ہمیں بھارت سے ان شرائط پر صلح کرانا ہے، جو بھارت چاہتا ہے تاکہ مسئلہ کشمیر کا تنازع بھارت کی خواہشات کے مطابق حل ہو سکے۔
یہ وہ حقائق ہیں جو زباں زد عام ہیں مگر ہمارے ارباب رفتہ ان مسلمہ حقائق کا علم ہونے کے باوجود ایسے اقدامات سے نہ جانے کیوں گریزاں ہیں، جو اس عالمی ایجنڈے سے نجات دلا کر ہمیں ایک آزاد اور خود مختار قوم بننے کا درس دے سکتے ہیں۔ یہ محض خلوص نیت سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک طرف عالمی ایجنڈا اور ایک طرف پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع کہ وہ کون سا ورک ہے جو طاقتور ہوتے ہوئے بھی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے، بات صرف قومی غیرت کو جگانے اور عوام کی رہنمائی کی ہے۔ مگر جب رہنما ہی خواب غفلت میں ہوں تو پھر لازمی نتیجہ یہی ہوتا ہے جو اب سامنے آرہا ہے ۔ دنیا بخوبی جانتی ہے کہ آج اگر پاکستان کا بچہ بچہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے تو اس میں عوام کا تو کوئی قصور نہیں، یہ گزشتہ صدی سے حکمرانوں کی ناقص معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم عالمی سطح پر ایسے گدا گر بن چکے ہیں، جو سعودی قرضہ ملنے پر بھی جشن مناتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ معیشت پر ہماری ساکھ راکھ بن کر ہمارے ہی سروں پر پڑ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب کفایت شعاری کی پالیسی اپنا کر آئی ایم ایف کے ظلم و جبر کا راستہ روکا جاسکتا ہے تو یہ پالیسی خلوص نیت سے کیوں نہیں اپنائی جاتی۔ ہمارے حکمرانوں کا قرض کے پیسے اور سینہ چوڑا کرکے غیر ملکی دورے کرنے کا نشہ آخر کب تک اترے گا ؟، یہ دیکھتے ہیں کہ عالم اسلام کے قلعہ پاکستان کو بد ترین خطرے میں ڈالا جارہا ہے تاکہ سیکولرازم کی راہ ہموار ہوسکے اور اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا یہ ملک لادینی ریاست بن جائے، پھر بھی ہمارے حکمران خاموشی سادھے ہوئے ہیں، پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں محض اقتدار کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ پاکستان کی سالمیت اور 23کروڑ عوام کو در پیش مسائل کی فکر نہیں۔ ناں ایشوز کو ایشوز بنا کر عوام کو بہکایا اور دھوکے میں رکھا جارہا ہے۔ ناں ایشوز کے ذریعے عوام کی حقیقی مسائل، غربت بے روزگاری اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال سے توجہ ہٹائی جارہی ہے۔ حکمرانوں نے عوام کو اس حد تک مایوس کر دیا ہے کہ اب عوام میں اعتماد کا فقدان بڑھتا رہا ہے یہ جانتے ہیں کہ حالات بتدریج کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ملک میں غربت بڑھ رہی ہے، تمام سہولتیں بااثر طبقہ کے لیے مختص ہیں مگر غربت کی زندگی بسر کرتے ہوئے کروڑوں عوام کو کوئی سہولتیں حاصل نہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کا قرض ادا کرنے کیلئے عوام کی جیبوں پر مسلسل ڈاکہ ڈالا جارہا ہے، مگر حکمران اور اشرافیہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ نام اسلامی جمہوریہ پاکستان مگر ملک مسائلستان بن چکا، ایک اسلامی نظریاتی ملک کی معیشت کی بنیادیں جب سود پر رکھی جائیں تو معیشت میں کہاں سدھار آ سکتا ہے؟ سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی پالیسیوں نے ملک تباہ کر دیا ہے، کوئی لیڈر اسلام کے نام پر عوام کو بیوقوف بنا رہا ہے اور کوئی بنیادی انسانی حقوق کے نام پر عوام کے جذبات سے کھیل رہا ہے۔ ان حالات میں آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی معیشت کو اپنے شکنجے میں نہیں لیں گے تو اور کیا ہوگا۔ ہمارے حکمرانوں کے قول و فعل میں پائے جانے والے تضاد کا یہ عالم ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان کہا کرتے تھی کہ میں خودکشی کر لوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا، مگر اپنے دور اقتدار میں انہوںنے حصول ترقی کے لیے ملک و ملت کی غیرت گروی رکھ دی۔ یہی صورتحال دیگر حکمرانوں کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آئی ایم اف سے نجات کے لیے خود انحصاری اور کفایت شعاری کی پالیسیوں پر عمل کیا جائے، جو کچھ ملک میں میسر ہے اسے کھایا پیا جائے۔ مراعات یافتہ طبقے پر نوازشوں کی مزید بارش برسانے کے بجائے غریب عوام کے مسائل پر توجہ دی جائے۔ یہ کتنے دکھ کی بات ہے ملک بھر میں نان اور روٹی سمیت دیگر اشیا خورونوش کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں مگر پارلیمنٹ میں کھانا کم ترین نرخوں پر دستیاب ہے۔ مگر ملازمین کو وہ سہولتیں حاصل نہیں جو محکموں کے سربراہوں کو حاصل ہوں۔ یہ صورتحال اسلامی احکامات سے متصادم ہے، حکمرانوں کو عوام کی فکر کرنی چاہئے۔ امیروں کی تو پہلے ہی پانچوں گھی میں ہیں، یہ حقیقت ہے کہ بحیثیت قوم ہم سادگی اور کفایت شعاری سے آئی ایم ایف سمیت تمام عالمی اداروں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ ضرورت صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے اور خلوص نیت سے آگے بڑھنے کی ہے۔ ہم خود سدھر جائیں تو یقین کریں دنیا کی کوئی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ آئیں! مل کر عہد کریں کہ ہم نے آئی ایم ایف کے شکنجے سے نجات حاصل کریں گے، بے حسی کا مظاہرہ نہیں کرنا اور نہ ہی اپنے حکمرانوں کو ایسا کرنے دینا ہے کہ وہ اپنے غیر ملکی آقائوں کو خوش کرنے کے لئے ہماری گردنوں میں معاشی غلامی کا طوق ڈالا دیں اور خود عیش کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button