Ali HassanColumn

آئی ایم ایف اور پھٹی ہوئی قمیض

علی حسن

آئی ایم ایف نے ایک بار پھر حکومت پاکستان کو آئی ایم ایف بجٹ کے معاملہ ٹال دیا ہے، لیکن آئی ایم ایف کا یہ ٹالنا پاکستان کے لئے انتہائی تکلیف دہ مرحلہ ہوگا۔ کیوں کہ بجٹ بنانا ہی مشکل ہو گا۔ پاکستان کا عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کے ساتھ قرض پروگرام مکمل ہوئے بغیر ہی ختم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ نویں اقتصادی جائزے کے بعد آئی ایم ایف سے پاکستان کا معاہدہ ختم ہو جائے گا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بجٹ تجاویز پر آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ دسویں اور گیارہویں اقتصادی جائزے سے قبل قرض پروگرام کا وقت ختم ہو جائے گا۔ خیال رہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان موجودہ قرض معاہدے کی میعاد 30جون ہے جو بڑھائی نہیں جا سکتی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک نیا بیل آؤٹ پروگرام حاصل کرنے کا خواہش مند ہے، دوسری طرف اسلام آباد نے اپنے سیاسی معاملات میں مداخلت پر آئی ایم ایف کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ ایک نجی چینل کے مطابق شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹالینا جارجیوا کے ساتھ اپنی ٹیلی فونک گفتگو کے دوران فالو اپ بیل آئوٹ پیکیج کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کا موجودہ 6.5بلین ڈالر کا پروگرام گزشتہ سات ماہ سے پٹڑی سے اترا ہوا ہے اور یہ 30جون کو ختم ہو رہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی سربراہ نے ایک اور آئی ایم ایف پیکیج کی ضرورت کے بارے میں وزیر اعظم کے خیالات کا مثبت جواب دیا ہے۔ سفارتی ذرائع اور عالمی مالیاتی تھنک ٹینکس کے مطابق آئندہ مالی سال میں 25ارب ڈالر کا قرضہ واپسی اور ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کا نیا پیکیج لینا پڑے گا۔
پاکستان کے حکمران اور بیوروکریٹ طویل عرصے سے یہ سوچنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ آخر یہ ملک کب اپنے پیروں پر کھڑا ہوگا۔ اور اس کو کھڑا کرنے کے لئے کیا کیا اقدامات کرنا ہوں گے اور ان پر عمل در آمد کر لیا جائے۔ آئی ایم ایف تو ان کے لئے یوں ضروری ہو گیا ہے کہ ملک آئی ایم ایف کے قرضے پر لگنے والا سود اتارتے ہیں اور بقیہ رقم میں سے اپنا گزارا کرتے ہیں۔ ملک کا تو گزارا کیا خاک ہونا ہے۔ ملک کے تمام علاقوں میں گھوم کر عوام کی حالت زار دیکھ لی جائے اور اندازہ کر لیا جائے کہ اس ملک میں کیا ہوتا رہا ہے۔ سیاستدان خوشحال ہیں، سرکاری بڑے ملازمین بھی خوش حال ہیں۔ ان دونوں کی جائیدادوں اور سہولتوں کو جمع کیا جائے تو حیرت ناک تصویر ابھرتی ہے کہ پاکستان غریب ترین عوام کا ملک ہے، جہاں امیر ترین حکمران رہتے ہیں۔ ایسا صرف اس لئے ہے کہ ملک کو چلانے اور اس کی معاشی صورتحال کو درست کرنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی ہے۔ کمزور سے کمزور تاجر بھی اپنے کاروبار کی کوئی نہ کوئی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ لیکن پاکستانی سیاستدان تو اس طرف سوچتے ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے اس ملک کو کیوں ہر سطح پر نظر انداز کیا ہوا ہے۔ ملک میں نجی شعبے کو ہر شعبے میں اتنی پہنچ دی ہوئی ہے کہ ایسا لگتا ہے جس روز یہ نجی شعبہ بیٹھ گیا تو ملک ہی بیٹھ جائے گا۔ کسی شعبے یا محکمے کا نام لیں اس کا متبادل نجی شعبے میں موجود ہے جو سوائے لوٹ مار کے کچھ اور نہیں کر رہا ہے۔
آئی ایم ایف پر تکیہ کرنے والے حکمران اور ملک چلانے والے بڑے عمال کسی بھی ایسے مسئلہ پر فکر کرنے، سوچنے یا عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، جس کی وجہ سے ملک کی معیشت کی گاڑی پٹڑی چڑھ سکے۔ خوشحال پڑوسی بھی ضرورت مند پڑوسی کو قرضے پر قرضہ دینے سے ہچکچاتا ہے۔ اس کی ایک مثال کچھ اس طرح کی ہے کہ 2010میں منظور کی جانے والی 18ویں آئینی ترمیم پر پوری طرح عمل در آمد نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس ضمن میں کوئی کام کیا ہی نہیں گیا۔ اس وقت ملک میں وفاقی سطح پر 43ڈویژنوں کے تحت 400کے قریب محکمے کام کر رہے ہیں لیکن در اصل یہ پل رہے ہیں۔ ساڑھے چھ لاکھ ملازمین ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت میں جو محکمے ختم ہوجانے چاہئیں تھے وہ ہنوز برقرار ہیں اور ان کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں ہے۔ مفت کی روٹیاں توڑ رہے ہیں۔ صوبوں میں بھی ضرورت سے زیادہ سٹاف موجود ہے۔ وفاقی اور صوبائی سابق ملازمین کی سالانہ پنشن کا بجٹ13کھرب روپے بتایا جاتا ہے۔ سابق صوبائی وزیر خزانہ شاہد کاردار کا کہنا ہے کہ دو تہائی ملازمین کم کرنے کی ضرورت ہے ان کے خیال میں وفاق میں سوا دو لاکھ سے زائد ملازمین نہیں ہونے چاہئیں۔ لیکن حکمرانی کرنے والے سیاستدان اور ملک کا نظم و نسق چلانے والے بیوروکریٹ حکومتوں کا حجم کم کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ وہ اس لئے ایسا کرنا نہیں چاہتے ہیں کہ ان کی بادشاہت متاثر ہوتی ہے۔ پنشن اور سرکاری افسران و ملازمین کی تنخواہوں میں غیر معمولی اضافے کی تجاویز د ے دی گئی ہیں۔ سب کا یہ ہی خیال ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف تو موجود ہے۔ پیسے مل جائیں گے۔ ایسی سوچ سے جب تک چھٹکارا حاصل نہیں کیا جائے گا، یہ ملک مسائل کے گرداب میں ہی گھرا رہے گا۔ ملک اور مستقبل کا خیال کرنے کی بجائے منصوبہ بندی کرنے والے اور اس پر عمل در آمد کرنے والے بظاہر بے فکر اس لئے ہوتے ہیں کہ انہیں تو اس ملک میں رہنا ہی نہیں ہے۔ پاکستانی سیاستدان جس انداز میں دست و گریبان ہیں ، اس صورت میں تو یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ پھٹی ہوئی قمیض کا گریبان بھی سیاسی مخالفین کے ہاتھوں میں ہے۔
اس خبر پر غور کریں کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے چیف پائلٹ نے سیکرٹری محکمہ جنرل ایڈمنسٹریشن کو دو اکائونٹس کی مد میں مطلوب رقم جاری کرنے کے لئے مراسلہ ارسال کیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے فضائی سفر کو جاری رکھنے کے لئے رقم جاری کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ چیف پائلٹ نے مطلوب اضافی رقم 3کروڑ 85لاکھ روپے مانگ لی ہے۔ مراسلہ کے مطابق رواں سال کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ کے فضائی سفر کے اخراجات پر مجموعی طور 10کروڑ 24لاکھ 18ہزار 949روپے خرچ ہوئے ہیں۔ ہیلی کاپٹر کی مرمت اور ایندھن کے لئے تین کروڑ پچاسی لاکھ روپے جاری نہیں کئے گئے ہیں۔ ہیلی کاپٹر، پلین چارجز، ایندھن اور مرمت کے لئے رواں مالی سال کے دوران 10کروڑ 47لاکھ 67 ہزار روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس رقم میں سے 10کروڑ 24لاکھ 18ہزار 949روپے خرچ کئے جا چکے ہیں۔ کوئی وزیر اعلیٰ سے سوال تو کرے کہ ایسی کون سی ہنگامی صورت حال پیدا ہوتی ہے کہ انہیں ہیلی کاپٹر استعمال کرنا پڑتا ہے۔ سرکاری خرچے کی یہ ایک معمولی مثال ہے ایسی لا تعداد مثالیں موجود ہیں۔ اگر ان جیسے اخراجات پر قابو پا لیا جائے تو شائد آئی ایم ایف کی محتاجی سے نجات مل سکے گی۔ ایک طرف بے قابو اخراجات ہیں تو دوسری طرف فیڈرل بیورو آف ریونیو 621ارب روپے ریونیو کا مطلوبہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے ، ہدف کے مقابلے میں 572 ارب روپے کی خالص محصولات اکٹھے کئے جا سکے ہیں ۔ ایف بی آر کی جانب سے جاری کر دہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہدف سے 49ارب روپے کم اکٹھے کئے گئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button