ColumnHabib Ullah Qamar

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات پر ایک نظر .. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

پاکستان بھر میں گزشتہ برسوں کی طرح امسال بھی کل اٹھائیس مئی کو یوم تکبیر منایا جائے گا اور ملک گیر سطح پر بڑے پروگراموں کا انعقاد کیا جائے گا۔ پچیس برس قبل اس دن پاکستان نے بلوچستان کے علاقے چاغی میں ایٹمی دھماکوں کے ذریعے بھارت کو دندان شکن جواب دیا تھا ۔ ان دھماکوں کے بعد پاکستان نے اسلامی ملکوں کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اسی دن کو یوم تکبیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جب بھی یہ دن آتا ہے تو محسن پاکستان اور محسن ملت اسلامیہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی لازوال خدمات کو ضرور یاد کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کی وفات کو ڈیڑھ برس سے زائد عرصہ گزر چکا لیکن محب وطن پاکستانی آج بھی ان کی موت کا غم محسوس کرتے ہیں۔ آج جب ملک میں یوم تکبیر منانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں تو میں نے چاہا کہ ان کی خدمات کو قارئین کی نظر ضرور کیا جائے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے عزت اور وقار کی علامت ہیں۔ خاص طور پر پاکستان کا بچہ بچہ انہیں ایسا قومی ہیرو سمجھتا ہے جس نے ازلی دشمن بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی قومی سلامتی اور دفاع کو مضبوط اور ناقابل تسخیر بنا دیا تھا۔ معروف جوہری سائنسدان نے صرف وطن عزیز سے محبت اور اسے مضبوط و مستحکم دیکھنے کی خواہش میں پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سترہ ستمبر 1974ء کی بات ہے جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھ کر پاکستان کو دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی قوت بنانے کے لیے اپنی خدمات فراہم کرنے کی پیش کش کی۔ ڈاکٹر اے کیو خان کا یہ خط ذوالفقار علی بھٹو کو ملا تو انہوںنے اس پر خوشی کا اظہار کیا کیوں کہ پاکستان اس پر پہلے سے کام کر رہا تھا اور انہیں جس چیز کی ضرورت تھی وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صورت میں انہیں حاصل ہو رہی تھی، یہی وجہ ہے کہ بھٹو کی طرف سے خط کا دیا جانے والا جواب بہت حوصلہ افزا تھا جس میں انہیں پاکستان واپس آنے کے لیے کہا گیا تھا۔ دسمبر1974ء میں وہ کراچی آئے تو ذوالفقار علی بھٹو سے بھی ملاقات کی۔ ا س دوران انہوںنے ایٹمی ٹیکنالوجی کے بارے میں منیر احمد خان اور ان کی ٹیم کو تفصیلات سے آگاہ کیا اور ہالینڈ واپسی سے قبل انفراسٹرکچر کی تیاری کے لیے کہا۔ بھٹو نے اس ملاقات پر ان کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا اور درخواست کی کہ وہ ایٹمی قوت کے حصول کے لیے پاکستان کی جس حد تک مدد کر سکتے ہیں ضرور کریں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہالینڈ میں برطانیہ، جرمن اور ڈچ کمپنیوں کے اشتراک سے وجود میں آنے والی یورینکو نامی ایک کمپنی میں ملازمت اختیار کر رکھی تھی جس کا کام سینٹری فیوجز کے ذریعے یورینیم افزودگی کی تیاری اور تحقیق تھا۔ اس کمپنی میں رہتے ہوئے ڈاکٹر خان کو نہ صرف بہت کچھ سیکھنے کو ملا بلکہ انہیں اس حوالے سے بہت زیادہ معلومات بھی حاصل ہوئیں۔ انہوںنے ہالینڈ میں رہتے ہوئے ایک مقامی خاتون ہنی خان سے شادی بھی کر لی تھی جس میں سے ان کی دو بیٹیاں تھیں۔ اگلی مرتبہ پاکستان آنے پر ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں سائٹ کا معائنہ کرنے کے لیے کہا تاکہ وہ دیکھ لیں کہ جس طرح وہ کہہ کر گئے تھے اس کے مطابق کوئی پیش رفت ہوئی ہے یا نہیں؟ شروع میں ڈاکٹر اے کیو خان کا ذہن تھا کہ وہ پاکستانی سائنسدانوں کو ساری معلومات اور رہنمائی فراہم کر دیں تاکہ وہ ایٹم بم تیار کر سکیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو کا اصرار تھا کہ آپ مستقل پاکستان آجائیں جس پر انہوںنے اپنی اہلیہ سے بات کی تو انہوںنے تھوڑی دیر کے لیے پس و پیش سے کام لیا کہ ان کی بوڑھے والدین ہالینڈ میں ہیں، ان کی بیٹیاں وہیں پڑھ رہی ہیں تو ایسا ان کے لیے مشکل ہو گا لیکن جب ڈاکٹر اے کیو خان نے ہنی خان کو بتایا کہ میں اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں اور میرے علاوہ فی الحال کوئی دوسرا یہ کام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو ان کا پختہ عزم دیکھ کر ہنی خان خاموش ہو گئیں اور اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ یوں چند ماہ بعد ہی ڈاکٹر عبدالقدیرخان مستقل طور پر پاکستان آگئے اور ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کیلئے باقاعدہ کام شروع کر دیا۔ ابتدا میں انہوںنے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ساتھ مل کر کام کیا تاہم ایک سال بعد1976ء میں بھٹو کی ہدایات پر انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری قائم کی جہاں یورینیم افزودگی کی صلاحیت کو پروان چڑھایا جاتا رہا۔ بعد میں تقریبا پانچ سال بعد اس لیبارٹری کا نام خان ریسرچ لیبارٹری یا کے آر ایل رکھ دیا گیا ۔ ڈاکٹر اے کیو خان جلد سے جلد پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا چاہتے تھے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ 1974ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو اس کے بعد پاکستان کے حوالے سے اس کا رویہ یکسر تبدیل ہو چکا تھا۔ اس نے سازشیں کر کے مشرقی پاکستان کو الگ کیا اور باقی ماندہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے بھی مذموم عزائم پر عمل پیرا تھا جبکہ بھارت کے خلاف نفرت ان کے دل و دماغ میں بھرپور قوت کے ساتھ موجود تھی، اس لیے وہ جلد اپنی زندگی کا اہم مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ میڈیا رپورٹس میں یہ باتیں کئی مرتبہ شائع ہو چکی ہیں کہ پاکستان نے ڈاکٹر اے کیو خان اور دوسرے سائنسدانوں کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں چند سال میں ہی یہ کامیابی حاصل کر لی تھی تاہم ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ 1998ء میں بھارت کی طرف سے دوبارہ دھماکوں کے بعد کیا گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حوالے سے ایک واقعہ بہت مشہور ہے جو انہوںنے اپنی زبانی سنایا کہ28ستمبر1987ء کی سہ پہر وہ اپنی رہائش گاہ پر موجود تھے کہ صحافی مشاہد حسین سید مشہور ہندوستانی تجزیہ کار کلدیپ نیئر کے ہمراہ ملاقات کے لیے آئے۔ اس موقع پر ان سے مختلف موضوعات کی طرح پاکستان کی ایٹمی صلاحیت سے متعلق بھی بات چیت ہوئی۔ ابھی گفتگو جاری تھی کہ کلدیپ نیئر کہنے لگے کہ آپ دس ایٹم بم بنائیں گے تو انڈیا ایک سو بنائے گا تو میں نے برملا کہا کہ اتنے بموں کی ضرورت نہیں ، تباہی کے لیے تین چار ہی کافی ہیں اور پاکستان مختصر وقت میں یہ کام کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بتاتے ہیں کہ ان کی یہ گفتگو کوئی باقاعدہ انٹرویو نہیں تھا لیکن کلدیپ نیئر نے اس غیر رسمی گفتگو کو انٹرویو بنا کر ’’ لندن آبزرور‘‘ کو بیس ہزار پائونڈ میں بیچ دیا۔ جب یہ انٹرویو شائع ہوا کہ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کر لی ہے تو انڈیا جس نے ان دنوں دس لاکھ فوج راجستھان اور پنجاب کے بارڈر پر لا کھڑی کی تھی اور بہت بڑی تعداد میں ٹینکوں کو سرحد پر لا کر براس ٹیک نامی مشقیں شروع کر رکھی تھی، فوری سب کچھ ختم کر کے واپس چلا گیا۔ اسی طرح بعض دوسرے مواقع پر بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرف سے ایسے ہی جراتمندانہ اظہار خیال کیا جاتا تھا جس پر بھارت کو سانپ سونگھ جاتا اور وہ سوائے پروپیگنڈے کے پاکستان کے خلاف کچھ کر نہیں سکتا تھا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان عملی زندگی میں بہترین مسلمان، عبادت گزار شخصیت اور دکھی انسانیت کی بڑھ چڑھ کر خدمت کرنے والے تھے۔ انہوںنے لاہور میں ڈاکٹر اے کیو خان کے نام سے بہترین ہسپتال تعمیر کرایا جہاں غریب اور نادار مریضوں کو مفت علاج اور ادویات کی بہت اچھی سہولیات حاصل ہیں۔ نماز تہجد ادا کرنا اور راتوں کو اٹھ کر پاکستان اور پوری مسلم امہ کے لیے دعائیں کرنا ان کے معمولات میں شامل رہا۔ وہ انتہائی صبر کرنے والی شخصیت تھے۔ سابق سفارت کار اور سینئر سیاسی تجزیہ کار ظفر ہلالی کہتے ہیں کہ2004ء میں جب ایران کی طرف سے یہ بیان دیا گیا کہ انہیں سینٹری فیوجز ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے فراہم جیت تھے تو اس کے بعد ان پر آزمائشوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اسی بیان کے بعد پاکستان سخت دبائو کا شکار ہوا اور امریکہ کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان کے حوالے کرے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ اس مطالبہ کے بعد کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی جس میں متفقہ طورپر طے کیا گیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کسی صورت امریکہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا لیکن پھر یہ ضرور ہوا کہ بیرونی دبائو کم کرنے کے نام پر انہیں نظربند کرنے سمیت دوسرے کچھ اقدامات کئے گئے جن کی کسی طور حمایت نہیں کی جا سکتی۔ بہرحال ایک مرتبہ میڈیا کے نمائندوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ان پر آنے والی مشکلات سے متعلق سوال کیا تو انہوںنے ہنس کر کہا کہ ایک بندے کا نام آنے سے اگر ملک اور دفاعی اداری بچتے ہیں تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس جملے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان سے محبت ان کے دل و دماغ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ حقیقت ہے کہ آج یوم تکبیر مناتے وقت ہمیں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اپنی دعائوں میں ضرور یاد رکھنا چاہیے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button