Ali HassanColumn

عدالتیں، وکلاء اور موکلین .. علی حسن

علی حسن

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بار اور بنچ کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ اس کے جو بھی معنی نکالنے ہوں وہ کوئی بھی نکال سکتا ہے لیکن ایک مشہور کہاوت ہے کہ ہر شخص اپنی صحبت کی وجہ سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ ابھی ایک ویڈیو لاہور کی ایک عدالت کی وائرل ہے جس میں ایک وکیل اور جج صاحب کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ جج صاحب کھڑ ے ہوئے ہیں، وہ غالباً جا رہے تھے لیکن بحث میں اتنے الجھ گئے کہ کھڑے رہ گئے اور وکیل صاحب بھی خاموش ہونے کا نام نہیں لیتے تھے۔ سوشل میڈیا پر کراچی کے ضلع ملیر سے متعلق وکلاء اور خاتون ڈسٹرکٹ جج کے درمیان چپقلش پیدا ہو گئی۔ وکلاء حضرات خاتون ڈسٹرکٹ جج صدف کھوکھر کو معاف کرنے پر آمادہ نہیں ہیں بلکہ ہڑتال، دھرنے اور چیف جسٹس کے دفتر کے باہر مظاہرے کی دھمکی بھی دے دی گئی ہے۔ بظاہر چپقلش یوں پیدا ہوئی کہ جج صاحبہ نے عدالت کے احاطے میں نصب کھارے یا کڑوے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے والے آر او پلانٹ کے پانی کی عام لوگوں کو فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ وکلا حضرات کا موقف ہے کہ یہ آر او پلانٹ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی ملکیت ہے جسے اس نے اپنے ہمدردوں کی مالی اعانت سے نصب کرایا ہے۔ ایسوسی ایشن اس بارے میں بااختیار ہے کہ وہ اس پانی کا کسی طرح بھی مصرف کرے۔ ایسوسی ایشن نے پانی فروخت کرنے کا ٹھیکہ ایک صاحب کا دیا ہوا ہے جو پانی کو بوتلوں میں پیک کر کے فروخت کرتے ہیں۔ ایسو سی ایشن مالی طور پر مستفید ہو رہی ہوگی جس کی وجہ سے چپقلش اتنی بڑھی ہے کہ وکلاء ہڑتال اور مظاہرے کر رہے ہیں۔
اگر پانی کی خدا واسطہ فروخت ہی تنازعہ کی وجہ ہے تو ڈسٹرکٹ بار کے عہدیداروں کو شدت کے ساتھ مشتعل نہیں ہونا چاہئے لیکن سوشل میڈیا پر ایک اور وجہ بھی سامنے آئی ہے کہ جج صاحبہ نے کسی مقدمہ میں ملزم کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔ سوشل میڈیا پر لکھا گیا کہ کوئی معقول وجہ بتائے بغیر ضمانت کی درخواست نامنظور کر دی۔ تنازعہ کی اصل وجہ یہ ہی نظر آتی ہے۔ ضمانت منظور کرانا وکیلوں کے ایک گروہ کا دھندا ہے۔ ان کا ذریعہ آمدنی ہی ضمانتیں منظور کرانا ہے۔ بس ضمانت منظور کر اکے وکیل صاحب مقدمہ سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ وکلاء حضرات کے اس طریقہ کاروبار سے جج حضرات اور وکلاء برادری لاعلم نہیں ہیں۔ مفروضہ یہ ہے خاتون جج نے جس مقدمہ میں ضمانت کی درخواست منسوخ کی ہوگی، وہ بار ایسو سی ایشن کے کسی ذمہ دار کی طرف سے دائر کیا گیا مقدمہ ہوگا۔ اس وجہ سے کالا کوٹ برادری کو اشتعال آگیا اور خاتون جج معطون قرار دی گئیں۔
گزشتہ کچھ سالوں سے خصوصاً ’’چیف تیرے جانثار‘‘ مہم جو چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے لئے چلی تھی کے بعد سے وکلاء نے ہر ہر معاملہ میں درشت رویہ ہی اختیار نہیں کیا بلکہ انہوں نے برداشت اور در گزر کرنے کا مظاہرہ کرنا ہی ختم کر دیا۔ ججوں خصوصاً سول جج حضرات اور جوڈیشل مجسٹریٹ حضرات سے منہ ماری، موکلان سے ہاتھا پائی کی نوبت کو بھی ٹالا نہیں جاتا ہے۔ پولس کے سپاہیوں سے بات بات پر ناچاقی اور دست و گریبان ہونا عام سی بات ہو گئی ہے۔ اس کے بعد وکلاء اپنا ایک ہی ہتھیار استعمال کرتے ہیں کہ عدالتوں کا بائیکاٹ اور ہڑتال کر دی جاتی ہے۔ جج عدالتوں میں بیٹھے رہ جاتے ہیں، وکلاء بار روموں میں خوش گپیاں کر رہے ہیں البتہ موکل دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ ملیر میں بھی ایسا ہی ہے کہ عدالت کا بائیکاٹ جاری ہے۔ موکل شدید گرمی میں بھوکے پیاسے پھر رہے ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں جو افسوس ناک بات ہے کہ موکل کو عدالت میں اپنی حاضری لگانا ہوتی ہے، عدالت موکل پر یہ پابندی کیوں عائد کرتی ہے جب عدالت لگتی ہی نہیں ہے اور مقدمہ کی سماعت اس وجہ سے نہیں ہوتی ہے کہ وکلاء عدالت کا بائیکاٹ کئے ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کو کسی بھی بات پر وکلاء کے احتجاج، ہڑتال، عدالتی کاروائی کے بائیکاٹ کے رجحان کو ختم کرنا چاہئے۔ وکلاء کے پاس اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کا موثر ذریعہ مقدمہ دائر کرنا ہے۔ ایک مرتبہ مقدمہ دائر ہونے کے بعد عدالت پابند ہو جائے گی کہ معاملہ کو موثر طریقہ سے نمٹا دے۔
سوشل میڈیا پر ایک وکیل صاحب نے اپنی رائے کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے۔ میڈیا میں یہ بات سامنے آرہی ہے کہ کراچی کی بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسل ڈسٹرکٹ جج کے تبادلے کا مطالبہ کر رہی ہیں کیونکہ انہوں نے حکم دیا تھا کہ عدالت کے احاطے میں آر او پلانٹ کا پانی باہر والوں کو فروخت نہ کیا جائے۔ اگر یہ درست ہے تو یہ شرمناک فعل ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ یہ لیڈر جب سندھ کے عوام سیلاب میں ڈوبے ہوئے تھے اور حکومت رقم غبن کر رہی تھی تو انہوں نے ان مظلوم لوگوں کی مد د نہیں کی۔ میں نے ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کی لیکن ان میں سے کوئی بھی حمایت میں نہیں آیا۔ نہ ہی وہ کبھی فنڈز کے غبن کے خلاف نکلے نہ ہی یہ رہنما عدالتی اصلاحات کے لیے کام کرتے ہیں تاکہ عدالتی نظام عام لوگوں کو انصاف فراہم کر سکے، ان کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی کی کیا بات کی جائے۔ جو لیڈران پردے کے پیچھے رہ کر ہڑتال پر تنقید کرتے ہیں وہ اس کے خلاف کھل کر سامنے نہیں آتے، وہ بزدل ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ سمجھداری کا کام ہوگا کہ وہ ہڑتال کے اپنے فیصلے پر دوبارہ سوچیں اور اسے کال آف کریں۔ میں ہائیکورٹ کی انتظامیہ کے رویے کی بھی تعریف نہیں کرتا جو ان کے انصاف نواز اور عوام نواز رویہ کے لیے مشہور نہیں۔ چیف جسٹس کو فوری طور پر اس معاملے کو حل کرنا چاہیے تھا ۔ اگر چیف جسٹس اب دبائو کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں تو اس سے اس کی قیادت کا فقدان صاف ظاہر ہوگا۔
پاکستان میں عدالتوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ تمام عناصر کے علم میں ہے کہ وکلاء صاحبان کس قدر غیر قانونی رویہ اختیار کرتے ہیں، ججوں کو زدوکوب کرنے اور موکلوں کو مصیبت میں ڈالنے پر کبھی افسوس کا اظہار نہیں کرتے ہیں اور اعلیٰ عدالتیں وکلاء کو سمجھانے یا ان کے خلاف قانونی کارروائی کے لئے اقدامات کر نے میں ناکام رہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ موکل وکیل صاحبان کی خدمات حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ منہ مانگا معاوضہ ادا کرتے ہیں، اس کے بعد کسی بھی وکیل کی عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا معنی رکھتا ہے۔ موکل حضرات وکلاء کے بائیکاٹ کو وکلاء کی ہٹ دھرمی کا نام دیتے ہیں لیکن مجبوری ہے کہ کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔
معمولی نوعیت کے اس معاملہ پر سندھ بار کونسل نے صوبے کی سطح پر وکلاء کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ وکلاء کو پانی کے معاملہ سے ہٹ کر خاتون جج کے رویہ سے شکایت پیدا ہو گئی جس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے تبادلہ کا مطالبہ کیا گیا۔ خاتون جج کے رویہ کے خلاف سندھ بار کونسل، ہائیکورٹ بار ایسو سی ایشن، کراچی بار ایسو سی ایشن، ملیر بار ایسو سی ایشن سندھ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ سے ملاقات کے لئے گئے۔ دوران ملاقات چیف جسٹس نے واضح کر دیا کہ وہ ڈسٹرکٹ جج کا تبادلہ نہیں کریں گے اور نہ ہی انہیں جبری رخصت پر روانہ کریں گے۔ چیف جسٹس کا جواب سن کر وکلاء نمائندے سیخ پا ہوئے لیکن وہ چیف جسٹس کیا کر سکتے تھے۔ وکلاء تنظیموں کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ وکلاء کو قائل کیا جائے کہ ہر معاملہ میں احتجاج، عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ، ہاتھا پائی، دست و گریبان ہونا وغیرہ سے ان کی ہی بدنامی کا سامان پیدا ہو رہا ہے اور سب سے بڑی یہ بات کہ موکل یا سائل نے کیا قصور کیا ہے کہ وہ کیوں بھگتے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button