ColumnM Anwar Griwal

سکولوں سے باہر بچے! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

اہالیانِ پاکستان مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک اور عالمی معرکہ سر کر لیا ہے، پاکستان نے تعلیمی میدان میں دنیا بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ یہ سروے کسی غیر ملکی ایجنسی یا ادارے نے نہیں کروایا، بلکہ پاکستان کے شعبہ تعلیم کے وفاقی وزیر رانا تنویر نے بذاتِ خود یہ قولِ زرّیں جاری کیا ہے۔ تفصیل اس اہم خبر کی یوں ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک سوال کے جواب میں وزیرِ تعلیم نے بتایا کہ پاکستان میں دو کروڑ تیس لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں، یہ اطلاع بھی انہوں نے ہی دی کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے یہ تعداد زیادہ ہے۔ گویا سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد میں ستّر ہزار بچے سکول نہیں جاتے، تاہم جون تک یہ تعداد کم ہو کر ’’ صفر فیصد‘‘ رہ جائے گی۔ اس طرح دو کروڑ تیس لاکھ میں سے ستّر ہزار بچے کم ہو جائیں گے۔ یہ کہانی الگ ہے کہ آخر اسلام آباد میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد اس قدر زیادہ کیوں ہے؟ اور وزیرِ تعلیم کے پاس ایسی کونسی گیدڑ سنگھی ہے، کہ اگلے دو ماہ میں ستّر ہزار بچہ سکولوں کا رُخ کر لے گا، جبکہ داخلوں کا موسم بھی تقریباً گزر چکا ہے؟۔
وزیرِ تعلیم نے اِس ضمن میں دو اہم باتیں اور بھی کیں، اوّل یہ کہ یہ سب کچھ سابقہ حکومت کا کیا دھرا ہے، دوسرا یہ کہ حکومت ملک میں شرح خواندگی کی بہتری کے لئے ترجیحی بنیادوں پر کام کر رہی ہے۔ عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں صحافیوں کی وزیراعظم سے ایک ملاقات میں خاکسار نے تعلیمی میدان میں کوئی بھی پیشرفت نہ ہونے کے بارے میں سوال کیا، تو خان صاحب نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ کیا ہوا تعلیم کو‘‘، ایک دو جملے وضاحت کرنے پر انہوں نے اپنے بہترین کارکردگی کے حامل وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی جانب دیکھا تو انہوںنے فوراً کچھ اعداد بتائے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ پنجاب میں انہوںنے بہت سے سکولوں کو ’’ اپ گریڈ‘‘ کیا ہے۔ حقیقت اِس ترقی کی یہ تھی کہ جن سکولوں کو اپ گریڈ کیا گیا، نہ وہاں کمرے نئے بنے اور نہ ہی اساتذہ کی بھرتی ہوئی، البتہ کاغذی کارروائی کی تکمیل ضرور ہو گئی۔ تاہم موجودہ وزیرِ تعلیم سے یہ سوال بنتا ہے کہ جناب کیا یہ دو کروڑ تیس لاکھ بچے سابقہ حکومت کے دور میں ہی ظہور پذیر ہوئے ہیں؟ کیا عمران حکومت سے قبل شرح خواندگی قابلِ رشک تھی؟ یقینا پہلے والوں کا نمایاں حصہ پہلے سے ہی موجود تھا، اور حقیقت یہ بھی ہے کہ اپنے ہاں کسی بھی حکومت کے دور میں تعلیم کے ساتھ سوتیلوں والا سلوک ہوتا رہا ہے، اب تک بھی جاری ہے۔
اگر موجودہ حکومت شرح خواندگی میں اضافہ کے لئے ترجیحی بنیادوں پر کام کر رہی ہے، تو اُس کے نتائج کب نمودار ہوں گے؟ کیا قوموں کی زندگی کی طرح عشروں تک منصوبہ بندی ہوگی، صدیوں تجربہ ہوتا رہے گا، تب جا کے کوئی نتیجہ برآمد ہوگا؟ عمران حکومت سے قبل بھی تعلیم کا یہی حال تھا ، تب بھی یہی رہا اور اب بھی یہی ہے۔ جب سے صوبائی خود مختاری کے تحت یہ محکمہ بھی صوبوں کی دسترس میں پہنچا ہے، اس میں ترقی نہ ہونے کے برابر ہی ہوئی ہے۔ ’ ہر کہ آمد ، عمارتِ نو ساخت‘ کے مصداق ہر آنے والی حکومت نے سابق حکومت کے منصوبوں کو پسِ پشت ڈالا، یا اُسے محدود کرنے کی کوشش کی، یا اُس کی جگہ پر اپنا کوئی نیا منصوبہ کھڑا کر دیا۔ مگر بجٹ کے اعتبار سے اور ترجیحات کی لحاظ سے تعلیم کو صرف باتوں اور بیانات کی حد تک ہی اہمیت دی گئی۔ قومی اسمبلی کا معزز ایوان ہو یا پھر اُسی کی تجویز کردہ کوئی ’’ قائمہ کمیٹی‘‘ سوائے دکھاوے کے نہ اُن کے کچھ اثرات کسی پر مرتب ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی مشورے، تجویز یا حکم وغیرہ پر عمل کی نوبت آتی ہے۔
اگر کروڑوں بچے اِس جدید دور میں بھی سکولوں سے باہر ہیں جبکہ ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل ہے اور ہر کوئی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے، تو وہ وقت کب آئے گا کہ شرح خواندگی سو فیصد ہوسکے گی؟۔ اِس باخبر زمانے میں بھی کروڑوں بچے تعلیم کی روشنی سے محروم ہیں تو ملک کی ترقی کا خواب کیا معانی رکھتا ہے، ملکی ترقی کی بات کس منہ سے کی جاتی ہے؟ پنجاب میں سرکاری سکولوں میں اوسطاً دو ہزار روپے فی بچہ سے زیادہ اخراجات اُٹھ رہے ہیں۔ اشرافیہ اور درمیانہ طبقہ سے اوپر لوگوں کی ایک نمایاں تعداد نجی سکولوں کا رُخ کرتی ہے۔ پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے ساتھ الحاق شدہ سکولوں میں بچوں کی تعداد ستائیس لاکھ سے زائد تھی، جو کم ہو کر موجودہ تعلیمی سال میں بیس لاکھ تک گر چکی ہے، وجہ یہی ہے کہ حکومتوں کی پالیسیاں تعلیم دشمن ہیں، اِس نیک نام ادارے کی ادائیگیاں بھی شرمناک حد تک کم ہیں، فی بچہ ساڑھے پانچ سو سے سات سو تک فیس دی جاتی ہے، جس میں اضافہ کئے آٹھ برس سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ کسی بھی حکومت کو یہ فکر نہیں کہ سستی اور معیاری تعلیم فراہم کرنے والا یہ ادارہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس کے ’ پارٹنرز‘ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے فائونڈیشن سے اپنا الحاق ختم کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
تعلیمی ترقی ہو یا دیگر ترقیاتی منصوبہ جات، یا پھر معاشی بدحالی سے نکلنے کی کوئی سبیل کرنا ہو تو سب سے پہلے حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ستم ملاحظہ فرمائیں کہ حکومت کشکول اٹھا کر دَر دَر پر دستک دے رہی ہے، دوست ممالک کی منت سماجت کی جارہی ہے، آئی ایم ایف کے سامنے ناک رگڑی جارہی ہے، فنڈز حاصل کرنے کے لئے کیا کیا جتن کئے جارہے ہیں، مگر ظلم یہ کہ حکومت اور اس کے طاقت ور ادارے اپنی مراعات اور عیاشیوں وغیرہ سے ایک روپیہ کم کرنے پر تیار نہیں۔ مقتدر طبقوں میں سے کسی کا سرکاری پٹرول کم نہیں ہوا، کسی کی مراعات میں کمی کا فیصلہ نہیں ہوا، حالانکہ یہ فلسفہ عام غریب آدمی کی سمجھ میں بھی آتا ہے کہ جب اخراجات آمدنی سے بڑھتے ہیں تو اخراجات کو کم کرنے کی سبیل کی جاتی ہے، مگر یہاں سارا بوجھ عوام پر لاد دیا جاتا ہے۔ یہی غیر سنجیدہ طرزِ عمل تعلیم کے ساتھ بھی اپنایا جاتا ہے، کہ باتوں میں پہلی ترجیح اور عمل یہ کہ چوبیس کروڑ کی آبادی میں ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر۔ جب تک تعلیم کا بجٹ نہیں بڑھایا جاتا اور گلی محلے کی سطح سے کمیٹیاں بنا کر بچوں کو سکولوں تک نہیں لایا جاتا، شرح خواندگی میں اضافہ ممکن نہیں، جب تک شرح خواندگی نہیں بڑھتی، ملکی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button