ColumnNasir Sherazi

بے خبر قوم .. ناصرشیرازی

ناصرشیرازی

برطانوی شہزادہ چارلس اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں برطانیہ کا بادشاہ بننے کا موقع ملا ہے، انہیں اس اعزاز کیلئے خاصا طویل انتظار کرنا پڑا وہ اب شاہ چارلس سوم کہلائیں گے۔ ان کی تاج پوشی کی تقریب اس برس کی سب سے بڑی تقریب ہے جس میں کچھ کتوں کی بھی سنی گئی ہے، اس موقع پر شاہ چارلس اور مادام کمیلا کے پسندیدہ کتے ’’جیک رسل‘‘ کی زندگی میں بھی ایک خوشگوار موڑ آیا ہے، تاج پوشی کی تقریب کے بعد اب ’’جیک رسل‘‘ اپنے دوسرے کتے ساتھیوں ’’بلیو بیل‘‘ اور ’’ہیتھ‘‘ کے ساتھ بکنگھم پیلس شفٹ ہو گیا ہے، یوں ان کتوں کو اب ’’شاہی کتوں‘‘ کا منصب مل گیا ہے۔ برطانیہ کی آنجہانی ملکہ کی پسندیدہ کتیا ’’ کورگی‘‘ تھی جو ان کے ساتھ شاہی محل میں رہتی تھی، ملکہ کی موت کے بعد جب اس کے سر سے یہ سایہ ہٹ گیا تو محل میں موجود اس سے خار کھانے والوں نے اس کے ساتھ کتے والی کی، جس کے بعد وہ بھی ملکہ کے پیچھے پیچھے چل بسی، برطانوی عوام کی بعض عادات اہل پاکستان سے بہت ملتی ہے۔ برطانیہ میں اب ’’ جیک رسل‘‘ کی نسل کے کتے خوب مقبول ہونگے کیونکہ یہ نسل اب کوئی عام کتا نسل نہیں بلکہ شاہی کتا نسل ہے۔
پاکستان میں مختلف وزرائے اعظم کے زمانہ اقتدار میں اس قسم کے کاسہ لیس افراد کا ایک ٹولہ ہر وزیراعظم کے آس پاس موجود رہتا ہے جو بلاناغہ سرشام وزیراعظم ہائوس حاضری دیتا ہے اور جانے سے قبل ان کے ملازم خاص سے پوچھتا ہے کہ آج وزیراعظم کون سا لباس زیب تن کریں گے، اس کا رنگ اور ان کے جوتے کا رنگ کیا ہو گا، ان کی کلائی پر گھڑی کون سی ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ یہ ٹولہ وزیراعلیٰ کو بھی میسر ہوتا ہے لیکن نگران وزیراعظم یا نگران وزیراعلیٰ کو نہیں کیونکہ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کسی کو کچھ نہیں دے سکتے حالانکہ ان کا یہ خیال غلط ہوتا ہے، وہ بھی کسی سے کم نہیں ہوتے۔
شاہ چارلس کی تاج پوشی کی تقریب میں واقفان حال کی نظریں شاہی خاندان کے افراد پر لگی تھیں، وہ نوٹ کر رہے تھے کہ کس کو دعوت دی گئی ہے، کس کو دعوت نہیں دی گئی، جس کو مدعو نہیں کیا گیا وہ آج سے ’’ شریکوں‘‘ کی لسٹ میں شامل ہے پس آئندہ اس سے دور رہنا ضروری ہے بلکہ موقع محل دیکھ کر بادشاہ سلامت کے کانوں میں یہ بات ڈالنا بھی ضروری ہے کہ عالی جاہ آپ کا فلاں رشتہ دار آپ کو بہت گالیاں دیتا ہے یا وہ اکثر کہتا ہے کہ بادشاہ کی عمر گزر گئی لیکن اسے آج تک بات کرنے یا لباس پہنے کی تمیز نہیں آئی۔ یہ باتیں سن کر بادشاہ اپنے آپ کو اوپر سے نیچے تک ضرور بغور دیکھتا ہو گا کہ کہیں وہ ننگا تو نہیں۔ یہ بات اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ بادشاہ ننگا بھی ہو تو کوئی اس کو ننگا کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔
شاہ چارلس کی تاجپوشی کی تقریب میں شہزادی ڈیانا کی کمی کو بہت محسوس کیا گیا، وہ زندہ ہوتیں تو آج مرکز نگاہ ہوتیں۔ اس تقریب میں پرنس ہیری، ان کی اہلیہ میگھن مارکل، ان کے بچے پرنس آرچی اور شہزادی للیبیٹ شریک نہیں ہوئے۔
پرنس ہیری اور شاہ چارلس کے درمیان کئی برس سے ’’ اِٹ کتے‘‘ کا ’’ ویر‘‘ چل رہا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ شاہ چارلس اِٹ ہیں جبکہ پرنس ہیری نے اپنے لئے کچھ اور پسند کر رکھا ہے۔ اس ’’ ویر‘‘ کی ابتدا ملکہ الزبتھ کے زمانے میں ہوئی تھی جب شہزادہ ہیری نے میگھن مارکل سے بیاہ رچایا تو ملکہ نے اس موقع پر اپنے آپ سے بڑبڑاتے ہوئے جو کچھ کہا اس کا سلیس اردو و پنجابی میں مکس ترجمہ یوں ہے کہ یہ کم بخت معلوم نہیں کس ’’ بدنام‘‘ کو بیاہ لایا ہے۔ پرنس ہیری کے کان بہت تیز ہیں، انہوں نے ملکہ کی یہ بہت آہستہ کہی ہوئی بات سن لی اور جواباً کہا ہاں میں اس کو اس لئے بیاہ لایا ہوں کہ میں خود بھی ایسا ہوں، میرا تعلق بھی ایسے خاندان سے ہی ہے اور یہ کہ آپ بھی کچھ کم نہیں۔ ملکہ یہ سب کچھ سن کر خاموش رہیں لیکن انہوں نے یہ تمام بات مزید مرچ مصالحے لگا کر چارلس کو بتائی، جس نے سب کچھ سن کر ہیری پر خوب لعن طعن کی۔ معاملہ کچھ بڑھ گیا تو میگھن مارکل بھی آستینیں چڑھا کر سامنے آ گئی۔
بادشاہ چارلس کی تاج پوشی میں آدھی دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہوں سمیت دو ہزار دو سو مہمان شریک ہوئے۔ آرچ بشپ آف کینٹیری نے حلف لیا۔ شاہ چارلس نے حلف نامے پر دستخط کئے، بادشاہ کا تاج بیش قیمت ہیروں سے مزین ہے، اس میں مجھے اپنے اجداد کی ملکیت دنیا کا سب سے قیمتی ہیرا کوہ نور بھی نظر آیا۔ تاج پوشی کی تقریب میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کو بمعہ اہل و عیال تو شرکت کی دعوت نہیں تھی لیکن برطانوی رواج کے مطابق اہلیہ کو ضرور بلایا جاتا ہے۔ یہ دعوت وزیراعظم پاکستان کیلئے ایک امتحان بھی تھی، مجھے اپنے وزیراعظم کی اس تقریب میں شمولیت کی بہت بڑی خوشی ہے۔ وہ ملکی مسائل کے باعث شرکت نہ کرتے تو ہماری ناک کٹ جاتی۔ شریکوں نے طعنے دینا تھے کہ انہیں بلایا ہی نہیں گیا لیکن مجھے ایک بات کا ہمیشہ افسوس بھی رہے گا کہ ملکہ برطانیہ کی زندگی میں نواز شریف اور شہباز شریف کو برطانیہ جاتے اور طویل عرصہ تک وہاں رہنے کا موقع ملا ہے، وہ مشرقی مرد ہونے کی وجہ سے ملکہ برطانیہ سے تو نہ کہہ سکے لیکن اب شہباز شریف شاہ چارلس سے کہہ سکتے تھے یار ہمارا کوہ نور ہیرا تو آج واپس کر دو۔ بادشاہ کے تاج میں لوٹ کا مال اچھا نہیں لگتا۔
جنوبی افریقہ کے شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ برطانیہ ان کے ملک سے لوٹ کر لے جانے والے لاکھوں ڈالر کے قیمتی ہیرے واپس کرے۔ دنیا کا سب سے بڑا اور شفاف ہیرا1905ء میں جنوبی افریقہ میں دریافت ہوا تھا اس کا نام کلین ڈائمنڈ ہے۔ اس وقت کی نو آبادیاتی حکومت نے اسے کنگ ایڈورڈ ہفتم کو ان کی چھیاسویں سالگرہ کے موقع پر تحفے کے طور پر پیش کیا۔ اس ہیرے کو متعدد ٹکڑوں میں کاٹا گیا پھر اس کے سب بڑے ٹکڑے کو شاہی عصا کی ہتھی پر جڑ دیا گیا، اسی ہیرے کا ایک ٹکڑا امپیریل کرائون میں لگایا گیا ہے، انگریزوں نے برصغیر میں جو لوٹ مار کی اس میں ٹیپو سلطان کے استعمال کی قیمتی ذاتی چیزیں جن میں ان کی تلوار اور بوقت شہادت پہنی ہوئی انگوٹھی بھی شامل ہیں۔ یونان کے قیمتی پتھروں سے بنی ہوئی کئی مورتیاں بھی انگریز اپنے ساتھ لے گئے، حکومت یونان نے ان اثاثوں کی واپسی کا مطالبہ کر رکھا ہے، یہ نوادرات برٹش میوزیم میں رکھے ہوئے ہیں۔
مجھے شاہ برطانیہ کی تاج پوشی سے زیادہ خوشی ان کتوں کے شاہی محل میں شفٹ ہونے کی ہے جو اس سے قبل جانے کہاں کرائے کے گھروں میں دھکے کھاتے تھے۔ برطانیہ اور برطانوی اس اعتبار سے بڑے کھرے لوگ ہیں کہ انہوں نے کتوں کے شاہی محل میں شفٹ ہونے کی خبر کو دنیا سے نہیں چھپایا۔ ہمارے یہاں بھی ’’ کئی‘‘ محلوں میں پہنچتے ہیں لیکن کسی کو ان کی کانوں کانوں خبر نہیں ہوتی، ہم بے خبر قوم ہیں اور اسی میں خوش ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button