ColumnImtiaz Ahmad Shad

اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ضروری ہے ؟ .. امیتاز احمد شاد

امیتاز احمد شاد

غلطی ہر انسان سے ہوتی ہے اسی لیے اسے انسان کہا جاتا ہے۔ اگر انسان غلطی نہ کرے تو پھر وہ انسان نہیں فرشتہ کہلاتا ہے۔ بعض دفعہ کسی کی ایک خطا اس کی جان تک لے جاتی ہے اور کبھی بے شمار اور بار بار غلطیاں کرنے والوں کی پکڑ نہیں ہوتی۔ انسانی معاشرے میں ہر قدم پر غلطیاں نظر آتی ہیں تاہم اصلاح اور درستی کا عمل اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جب ضد اور انا کے پہاڑ اس قدر بلند ہو جائیں کہ پہاڑ کی دوسری جانب کچھ نظر ہی نہ آرہا ہو تو اس موقع پر ہونے والی خطائیں اجتماعی تباہی کا سبب بن جایا کرتی ہیں۔ ایسا کوئی بھی شخص نہیں خطائوں سے پاک ہو، مگر دوسروں کی خطائوں کی اصلاح کرنا بھی انسان کا ہی کام ہے۔ ایک بادشاہ جو اپنے اصولوں کا پابند تھا اپنے وزراء اور قریبی ساتھیوں کی چھوٹی سی غلطی بھی معاف نہیں کرتا تھا۔ جس سے غلطی سرزد ہوتی اسے کتوں کے سامنے پھینکوا دیتا۔ ایک وزیر سے غلطی سرزد ہوئی اسے سزا کے طور پر کتوں کے سامنے پھینکنے کا حکم جاری کر دیا۔ وزیر نے اپنی خدمات کا واسطہ دیتے ہوئے دس دن کی مہلت مانگی بادشاہ نے دے دی۔ وزیر دانشمند تھا وہ سیدھا کتوں کی رکھوالی کرنے والے کے پاس گیا، دس دن انہی کتوں کی دیکھ بھال پر خود کو مامور کر لیا۔ مقررہ تاریخ پر جب اسے بطور سزا ان کتوں کے آگے پھینکا گیا تو وہ اس وزیر پر حملہ آور ہونے کے بجائے اس کے پائوں چاٹنے لگے۔ بادشاہ نے حیران ہو کر اس سلوک کا سبب دریافت کیا تو وزیر نے کہا کہ جب آپ نے سزا دی تو میں نے مہلت کے دس دن ان کتوں کے ساتھ گزارے ان کی دیکھ بھال کی اس کے عوض یہ مجھ پر حملہ آور ہونے کے بجائے میرے قدموں میں گرے پڑے ہیں۔ جب کہ بادشاہ سلامت میری نسلیں آپ کی اور آپ کے آباء کی خدمت گزری کرتی آرہی ہیں مگر آپ نے میری ایک خطا پر بد ترین سزا کا فیصلہ سنا دیا۔ بادشاہ کو رحم آیا اور اسے معاف کر دیا۔ معاف کرنا اور پھر انسانوں کی غلطیوں پر ان کی اصلاح کرنا پیغمبروں کی سنت ہے۔ ہمارا دین کہتا ہے کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں سے زیادہ دیر تک ناراض نہ رہو اور کوشش کرو کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں کی قصور معاف کر دو، اُن کے لیے دل میں بغض نہ رکھو، اُن کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آئو، اگر کوئی غلط کر رہا ہے تو اُس کو سمجھائو نا کہ اُس سے بدلہ لو اور اُسے جگہ جگہ ذلیل کرو۔ وہ کیسا مومن ہے جس کے ہاتھ و زبان سے دوسرا مومن و مسلمان محفوظ نہ رہے۔ کہنے کی اور سننے کی حد تک ہمیں یہ باتیں بہت اثر کرتی ہیں لیکن جب ہم پر ایسا وقت آتا ہے کہ اپنے مسلمان بہن یا بھائی کی غلطی کو معاف کریں تو ایسا کرنے میں ہمیں بہت قباحت ہوتی ہے کیوں؟ سوال ہے اُن علم رکھنے والے بہن بھائیوں سے جو کہ اپنے دین کے بارے بہت کچھ جانتے ہیں اور ہر چیز سے باخبر ہیں کہ ہمارا دین اس حوالے سے کیا کہتا ہے، پھر بھی وہ غصے کا، جذباتی ہونے کا اور کم علمی کا مظاہر کیوں کرتے ہیں؟ خود کو علم والا، اور اونچا رکھنے کے لیے دوسروں کو نیچا اور کم علم والا ثابت کرتے ہیں کیوں؟ زبان سے کسی کو یہ کہہ دینا کہ میرے دل میں کسی کے لیے کوئی بغض نہیں، میں کسی سے حسد نہیں کرتا، میں کسی سے ناراض نہیں، سب مسلمان میرے بہن بھائی ہیں لیکن پیٹھ پیچھے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے لیے دل میں بغض رکھنا، اُن کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا، وقت آنے پر اُن پر وار کرنا، اُن سے حسد کرنا کیا ایسا کرنا ایک مسلمان کو زیب دیتا ہے؟۔ تمام انبیاء بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت محمدؐ ، اللہ تعالیٰ کی صفتِ عفو کا نمونہ اور آئینہ دار تھے۔ آپؐ کی عملی زندگی اس دعوے کی سب سے روشن اور واضح دلیل و برہان ہے۔آپؐ کو دکھوں، مصیبتوں، پریشانیوں اور مشکل حالات سے دوچار کرنے والے، رنج و غم اور تکالیف میں مبتلا کرنے والے، آپ ؐ کو ہر طرح کی اذیتیں دینے والے، مارنے پیٹنے والے، گردن مبارک میں کپڑے اور رسیاں ڈال کر بھینچنے اور بَل دینے والے، آپؐ کے مقدس جسم کو تیر و تفنگ، نیزوں اور پتھروں سے لہولہان کرنے والے، ذہنی کوفت دینے والے، آپؐ پر ساحر، مجنون اور دیوانہ جیسے ناپاک جملے کسنے والے، آپؐ کو ہجرت پر مجبور کرنے والے، آل و اصحاب کو شہید کرنے والے، حتی کہ آپؐ کی جان کے پیاسے اور کھانے میں زہر دینے والے لوگ جب مفتوح، جنگی قیدی اور بے بس ہو کر مکمل طور پر آپؐ کی دست رس میں آئے تو آپ نے انہیں نہ صرف یہ کہ دل و جان سے معاف کر دیا، بلکہ اپنے سینے سے لگایا اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ جو کبھی اسلام کو دیس نکالا دینا چاہتے تھا اسلام نے خود انہی کے دلوں میں ڈیرا ڈال دیا۔ اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ بے پناہ غلطیاں کرنے والے بہترین اصلاح کار بن گئے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کے معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی بھی اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے۔ صحیح مسلم۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست پاکستان میں ایک دوسرے کو معاف نہ کرنے کا رواج اس حد تک تجاوز کر گیا ہے کہ امور ریاست چلانے والے بھی بدلے کی آگ میں جلتے نظر آتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے، اخلاقی، قانونی، سماجی اور معاشرتی حدود کی پامالی وتیرہ بن چکی۔ کسی کی بھی عزت دوسرے کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔ ہٹ دھرمی بلا کی ہے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے عدم برداشت کا ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ ریاستی ادارے بھی بے توقیری کی بھینٹ چڑھ چکے۔ مضبوط ریاست کے لیے منظم اداروں کا وجود ناگزیر ہے مگر افسوس ہماری اجتماعی خطائوں نے اداروں کو اس قدر بے وقت کر دیا ہے کہ ریاست کی چولہیں تک ہل گئی ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ صدیوں سے اکٹھے رہنے، ایک کتاب، ایک خدا، ایک رسول، ایک کلچر اور ایک ہی نظریہ ہونے کی باوجود ہم اس قدر بکھر چکے ہیں کہ دنیا ہمیں رسوا کر رہی ہے اور ہم بے شرموں کی طرح ایک دوسرے کے گھروں کے دروازے توڑنے پر لگے ہیں۔ ایک وزیر اگر دس دن کتوں کے ساتھ رہ کر انہیں اپنا گرویدہ بنا سکتا ہے تو ہم بطور انسان ایک دوسرے کو معاف کر کے اپنی بے معنی موت سے کیوں نہیں بچ سکتے؟ آج ہمارے معاشرے کو بدلہ، زیادتی اور انتقامی جذبات کی آگ نے ہر طرف سے جھلسا رکھا ہے۔ ہمارے اخلاق و عادات کو ظلم، نا انصافی کی دیمک چاٹ رہی ہے۔ ہر طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ہر شخص نواب کے مقابلے میں ڈیڑھ نواب بننے کو تُلا بیٹھا ہے۔ غلطی اور جرم سے بڑھ کر سزا اور بدلے کی روش ظلم در ظلم کی شکل میں دکھائی دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اجتماعی طاقت کا شیرازہ بکھر کر پارہ پارہ ہو چکا ہے، باہمی نفرت و عداوت، لڑائی جھگڑے اور انتقامی کارروائیوں نے ہماری ہیبت و جلال، سطوت و شوکت اور وجاہت و دبدبے کو سلب کرلیا اور آپس کے انتشار کی وجہ سے ہماری ہوا اکھڑ گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button