ColumnNasir Sherazi

میدان میں مدر ان لاء .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

مرشد آگے پیچھے مریدوں سے ملیں نہ ملیں عید پر دید سے ضرور نوازتے ہیں اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا، بڑ ے کام کی باتیں بتا گئے ہیں، سفید گولی نے اپنا کام مکمل کیا تو کہنے لگے سانپ کا ڈسا صرف ایک مرتبہ سی کرتا ہے اور اگلے جہاں پہنچ جاتاہے، سیاسی ساس کا ڈسا تمام عمر سی سی کرتا ہے مگر مرتا نہیں ہے، سانپ کے ڈسے کا ٹیکہ ایجاد نہیں ہوا لیکن ساس کے ڈسے کا بہترین علاج ہے اسے ماں بنا لیں پس اسکے شر سے ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوجائیں گے ، ماں کی نافرمانیوں کے باعث جنت میں جگہ نہ ملی تو ساس کی خدمت کرتے کرتے جنت کے دروازے تک ضرو ر پہنچ جائینگے ، جو داماد اوائل عمر میں اس سنہری اصول کو نہیں اپناتے وہ آخری عمر میں پچھتاتے ہیں، آپ کو اس بات پر یقین نہیں آئے تو منصف اعلیٰ سے پوچھ لیں لگتا ہے اب ساس کی آڈیو لیک کے بعد پانی نہیں مانگے گا ۔
مرشد کا بیان ختم ہوا تو مرید نے پوچھا اعلیٰ حضرت جسے ساس بنانا ہو وہ اچانک بیوی بن جائے تو پھر، مرشد اس غیر متوقع سوال سے سٹپٹا گئے لیکن ترنگ میں آ چکے تھے کہنے لگے اسکے بعد وہی ہوتا ہے جو آ ج کل میرے ساتھ ہوتا ہے، مریدوں نے ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کی تو کہنے لگے کھل کے ہنسو کم بختو، اقتدار نہ ہو تو پھر دنیا اسی طرح ہنستی ہے ۔ مرشد چند روز قبل پنجاب اسمبلی کی ٹکٹوں کا اعلان کر کے فارغ ہوئے تو خیال تھا کہ اب آرام فرمائیں گے لیکن بغیر سر منڈوائے ہی اولے پڑنا شروع ہوگئے ، روزانہ احتجاجی جتھے دروازے پر ہوتے اور ٹکٹوں کی تقسیم پر ہونے والی ناانصافی کا ماتم کرتے ہیں، سب کو ’’ ریویو‘‘ کرنے یعنی لالی پاپ دینے کا وعدہ کیا ہے، ایک انار موجود نہیں جبکہ بیمار سینکڑوں ہیں ۔
چار کرنل، ایک میجر اور ایک کیپٹن ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن ضروری نہیں وہ الیکشن میں بھی کامیاب ہوں، ایک سے زائد مرتبہ مسترد شدہ شکست خوردہ سابق وزیر صحت یاسمین راشد ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں ۔ پارٹی کے زمانہ اقتدار میں الیکشن ہارنے والے جناب زین قریشی کو بھی ٹکٹ مل گیا ہے، یہ سب کچھ میرٹ پر نہیں بلکہ مال میرٹ کا کمال ہے۔ پارٹی کے دیرینہ مخلص کارکن مدنی خان، شبیر سیال، عثمان ظفر کو اس مرتبہ بھی لارا ملا ہے، چائے بنانے والی روبینہ اور روٹیاں تھاپنے والی نازیہ خٹک کی پرفارمنس اطمینان بخش نہ تھی لہٰذا اسے ٹکٹ نہیں دیا گیا، انہیں مزید محنت کرنے اور اپنی پرفارمنس میں نکھار لانے کا کہا گیا ہے، ٹکٹ کا عام ریٹ ایک کروڑ روپے تھا، بلیک میں دو کروڑ روپے تک گئی، بیشتر خریدار سوچ رہے ہیں فلم پہلے شو میں فلاپ ہو گئی یا لگنے سے پہلے ہی بین ہو گئی تو وہ کیا کریں گے۔ ماہرین سیاسی فلم کا کہنا ہے کہ فلم میں قابل اعتراض سین بہت زیادہ ہیں لہٰذا غالب امکان ہے کہ اسے نمائش کی اجازت نہ ملے، 78سابق ممبران نے اس مرتبہ ٹکٹ کیلئے درخواست ہی نہیں دی جبکہ سو سے زیادہ نئے چہروں کو ٹکٹ دیا گیا ہے، لاہور سے تعلق رکھنے والے متعدد ارکان صوبائی اسمبلی کے حلقے تبدیل کر دیئے گئے ہیں، انہیں کہا گیا ہے کہ آپ لوگ جیتے ہوئے امیدوار ہیں وزیر بھی رہے ہیں آپ کے پاس مال پانی بھی وافر ہے لہٰذا آپ کمزور حلقوں میں جائیں اور کمزور امیدواروں کو مضبوط حلقوں میں الیکشن لڑنے دیں تا کہ انکی جیت کا امکان زیادہ ہو، وزیراعلیٰ پنجاب کے بیشتر امیدواروں کو پنجاب سے ٹکٹ ہی نہیں دیا گیا سب کے سب منہ بسورتے نظر آئے، ان میں سب سے زیادہ دل برداشتہ فواد چودھری اور شہباز گل ہیں، شاہ محمود قریشی کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ مل جائیگا بشرطیکہ وہ اس وقت تک تحریک انصاف میں رہے بصورت دیگر ن لیگ میں بھی انکا ٹکٹ پکا ہے، وسیم اکرم عثمان بزدار ٹکٹ لینے میں زیادہ دلچسپی نہ رکھتے تھے لیکن انہیں وعدہ معاف گواہ بننے سے بچانے کیلئے منت ترلا پروگرام کے تحت ٹکٹ دیا گیا اور باور کرایا گیا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر وزیراعلیٰ پنجاب ہونگے۔ دوسری طرف مونس الٰہی اور چودھری پرویز الٰہی ہیں انہیں بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ فارمولے کے تحت ٹکٹ دیا گیا ہے، دونوں نے فی الحال منہ پر ہاتھ پھیر کر عثمان بزدار کو چیلنج نہیں کیا لیکن وقت آنے پر وہ پنجابی کشتی کا دائو دھوبی پٹکا مار کر عثمان بزدار کو چت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ بزدار صاحب کا ’’موڈا‘‘ نکال دیں گے انہیں پتہ بھی نہ چلے گا، رمل علی خواجہ سرا خوش قسمت رہا، اسکے پاس تو کروڑ روپے نہیں تھے پھر جانے اس نے کیا دیا کہ ٹکٹ مل گیا، ٹھمکوں سے پتھر موم ہو سکتے ہیں لیکن الیکشن نہیں جیتا جا سکتا، اسے جس قدر ووٹ بھی ملے ان سب کے کردار مشکوک تصور کئے جائینگے ، ووٹ چونکہ خفیہ ہوتا ہے لہٰذا مشکوک کردار ووٹرز کے کرتوتوں پر پردہ پڑا رہے گا۔
غیر منصفانہ ٹکٹوں کے اجرا پر احتجاج بڑھ گیا تو احتجاجی امیدواران ٹکٹ کو پارٹی سے نکالنے کی دھمکی دے کر چپ کرانے کا فیصلہ کیا گیا، دوسری طرف ٹکٹ سے محروم افراد کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ ہزاروں ساتھیوں سمیت پارٹی چھوڑنے کے اعلان کرتے نظر آئیں گے۔
’’محکمہ زراعت‘‘ نے اس مرتبہ ایسی چال چلی جو کسی کی سمجھ میں نہ آئی، انہوں نے انصافی ٹکٹ کی گڈی چڑھائی اور کامیاب پراپیگنڈہ کیا کہ جیسے ٹکٹ مل گئی سمجھ لیجئے وہ جیت گیا اور جو زیادہ ووٹوں سے جیتا اسے وزیر بنانا پارٹی کی مجبور ی ہو گی، پس ٹکٹ کا ریٹ آسمان پر پہنچ گیا ، مالدار امیدوار لپکتے جھپٹتے نظر آئے اور حقیقی امیدوار لائن سے باہر ہو گئے کیونکہ انکے پاس اتنا مہنگا سیاسی جوا کھیلنے کیلئے کثیر دولت نہیں تھی۔ قوی امکان ہے کہ الیکشن نہیں ہونگے، ایسے میں کروڑوں نہیں اربوں روپے بحق پارٹی ہضم ہو جائیگا کیونکہ یہ رقم ٹکٹ کا معاوضہ نہ تھی جو واپس ہو سکے، یہ پارٹی فنڈ میں چندہ تھا جو ایک مرتبہ دے کر واپس نہیں لیا جا سکتا، پھر یہ ایسا چندہ تھا جس کی کوئی رسید جاری نہیں کی گئی، کوئی چیک، ڈرافٹ یا پے آرڈر نہیں، ایسے معاملوں میں سودا نقد ہوتا ہے، کچھ ٹکٹوں کا بیعانہ آیا ہے، مہلت دی گئی ہے، پس کچھ حلقوں کا فیصلہ ابھی معلق ہے ۔ الیکشن ہوں نہ ہوں انکا نتیجہ آزاد کشمیر اسمبلی کے آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے، تحریک انصاف کی حکومت منہ کے بل جا گری، اب پلے فقط سات ممبران اسمبلی رہ گئے ہیں۔ چودھری انوار بلا مقابلہ وزیراعظم منتخب ہوئے انہیں52میں سے48ووٹ ملے جو ایک ریکارڈ بن گیا ہے، تحریک انصاف کے صاف شفاف ممبر قومی اسمبلی علی زید ی فراڈ کے مقدمے میں گرفتار ہوئے، انہوں نے مدعی سے سیٹلمنٹ کر لی ہے اور اپنی خلاصی کرائی ہے جبکہ ایک بڑا ابہام بھی ختم ہوا کہ ایک اور صاف شفاف سابق ممبر قومی اسمبلی علی امین گنڈا پور کو ننگا کر کے نہیں مارا گیا، ایسا ہوتا تو عمران خان بتا دیتے، وہ اس معاملے میں خاموش ہیں لہٰذا قرین از قیاس ہے کہ انہیں ننگا نہیں کیا گیا، انکی حجامت کی گئی ہے، اسکے لئے ننگا کرنا ضروری نہیں ہوتا ، اب تو بات رول آف لاء سے مدر ان لاء تک پہنچ گئی ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button