
عدالت 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی، جولائی میں الیکشن ہو سکتے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ جولائی میں بڑی عید کے بعد الیکشن ہو سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں الیکشن کیس کی سماعت کے دوران امیر جماعت اسلامی کی جانب سے یہ تجویز سامنے آئی کہ بڑی عید کے بعد عام انتخابات کروائے جائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گزارش ہو گی کہ پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں آج بیٹھیں اور سماعت چار بجے تک ملتوی کرتے ہوئے ہدایت دی کہ دو بجے تک ان کو پیش رفت سے آگاہ کیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہو سکتی، دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔‘
اس سے قبل فاروق نائیک نے عدالت کو بتایا تھا کہ حکومتی سیاسی جماعتوں کے سربراہان عید کے بعد حتمی فیصلہ کریں گے جس کے بعد تحریک انصاف سے ڈائیلاگ کیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یاد رکھنا چاہیے کہ عدالتی فیصلہ موجود ہے۔ ’یقین ہے کہ کوئی رکن اسمبلی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا، آج کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’تمام سیاسی قائدین نے آج آئین کی پاسداری کا اعادہ کیا ہے، آئین پر نہیں چلیں گے تو کئی موڑ آ جائیں گے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’سراج الحق، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کوشش کی ہے، بعد میں پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’توقع ہے مولانا فضل الرحمان بھی لچک دکھائیں گے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ان کیمرہ بریفنگ دی گئی لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالت اپنا 14 مئی والا فیصلہ واپس نہیں لے گی، کسی نے فیصلہ چیلنج نہیں کیا۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے، عدالتی فیصلے ہٹانے کا طریقہ کار ہے اور وہ 30 دن گزر چکے ہیں۔‘
19 اپریل کی سماعت کا حکم نامہ جاری
گزشتہ روز کی سماعت کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ 4 اپریل کا عدالت کا حکم نامہ آئین کے احکامات کے مطابق ہے، سیاسی مذاکرات کا مطلب یہ نہیں کہ آئینی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی جائے، شہری نے ایک ہی وقت میں انتخابات کرانےکی درخواست دے رکھی ہے، بادی النظر میں درخواست گزار کے موقف میں جان ہے، انتخابات سیاسی میدان میں سیاسی قوتوں کےدرمیان لڑے جاتے ہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ انتخابات تمام سیاسی قوتوں کی تجاویز کے ساتھ بہترین انداز میں منعقد کیے جاسکتے ہیں تاہم یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ سیاسی مکالمے کا عمل سپریم کورٹ کے 4 اپریل کو دئیے گئے حکم کے مطابق پنجاب میں انتخابات کی تاریخ سے پہلو تہی کرنے کا باعث نہیں ہو گا، آئین کے مطابق صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات کرانا لازم ہے۔
تین رکنی بنچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے لیے فنڈز کے حوالے سےکہا ہے کہ حکومت 21 ارب روپے 27 اپریل تک الیکشن کمیشن کو فراہم کرے، حکومتی گرانٹ کے بل مسترد ہونے کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم اور کابینہ ایوان میں اکثریت کھو بیٹھی ہے جب کہ اٹارنی جنرل کا موقف ہے کہ ایسا نہیں اٹارنی جنرل سے فی الحال اتفاق کرتے ہوئے حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ دوسری صورت بھی حکومت کو سنگین آئینی مسائل کی طرف لے جا سکتی ہے، عدالتی حکم کی نا فرمانی کے بھی سنگیں نتائج برآمد ہو سکتے ہیں لہٰذا ضروری ہےکہ حکومت 27 اپریل تک 21 ارب روپے فراہم کرے۔
عدالت نے سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر انتخابات 8 اکتوبر تک ملتوی کرنے کے حوالے سے الیکشن کمیشن اور وزارت دفاع کی متفرق درخواستیں نا قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نمٹانےکا حکم بھی دے دیا۔