CM RizwanColumn

طوفان بدتمیزی اور امریکی میڈیا .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

پاکستان کے عہد حاضر کے اندرونی سیاسی ماحول میں برپا طوفان بدتمیزی کے سب سے بڑے پیامبر اور ہرکارے روزانہ کی بنیاد پر اخلاقیات، سلجھائو اور آئین کی پاسداری کے درس دینے سے بھی ذرہ برابر احتراز نہیں کر رہے اور آئین فروشی اور آئین دشمنی کے ہر ظالمانہ اقدام کو بھی اپنے ہی گھڑے ہوئے اصولوں کی بنیاد پر لفظی تحفظ اور بیاناتی حمایت بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ ایسا کر کے گویا حق سچ کی آبیاری کا فرض ادا کر رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح ماضی میں جماعت اسلامی کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر امریکہ کو گالیاں بھی دی جاتی تھیں اور بقول شخصے امریکی مفادات کا تحفظ بھی کبھی ایک پل کے لئے بھی فراموش نہیں کیا جاتا تھا۔ قیام پاکستان سے چند سال بعد ہی شروع ہو جانے والی امریکی غلامی کی ہماری قومی روایت ویسے تو ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے مگر جماعت اسلامی کا اس کار مسلسل میں اپنا ہی نرالا انداز رہا ہے۔ ایک طویل وقفے کے بعد اس روایت کو اب مقبولیت کی معراج پر براجمان عمران خان اور ان کے عشاق نے پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ یعنی ایک طرف امریکہ کو پنجابی میں گالیاں دینا اور دوسری طرف نجی محافل میں انگریزی میں امریکی مدد، حمایت حتیٰ کہ مداخلت کی درخواست کرتے رہنا اور اب تو بات اس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے وہ اس طرح کہ اب تو پی ٹی آئی نے امریکہ میں اپنے حق میں لابنگ کے لئے لاکھوں ڈالرز کے عوض متعدد کمپنیوں کی خدمات حاصل کر لی ہیں جو وال سٹریٹ جرنل جیسے امریکی رسالوں میں عمران خان سے متعلق آرٹیکلز شائع کروانے کے ساتھ ساتھ سفارتی سطح پر اہم شخصیات کے بیانات بھی پی ٹی آئی کے حق میں دلوا رہی ہیں۔ کیونکہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے شاید اس لئے اگر سیاسی طور پر چند یوٹرن لے کر عمران خان پاور میں واپس آنے کے لئے امریکی خوشنودی کے حصول کی سبیل کر رہے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ ویسے بقول عشاق خان سچا بندہ ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے تو اقتدار سے فارغ ہوتے ہی یہ سچ بھی قوم سے نہیں چھپایا تھا کہ اس نے باجوہ اور فیض حمید سے مل کر حکومت حاصل کی تھی اور اقتدار کے اختیارات بھی ان دونوں کے ساتھ شئیر کرتے رہے لیکن جنرل ( ر) باجوہ نے خان کو دھوکہ دیا۔ شاید خان کے اسی سچ بولنے کی برکت ہے کہ قوم اور خاص طور پر ان کی یوتھ نے ان سے ایک بار بھی یہ نہیں پوچھا کہ ملک و قوم کی حکمرانی کے معاملات میں انہوں نے دھوکا کھا کر پوری قوم کے اعتماد اور مفاد کو کیوں نقصان پہنچایا ہے۔ یار لوگ اس حوالے سے بھی عمران خان کے مداح ہیں کہ چند ماہ قبل جب پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے کئے گئے متعدد ٹیلی تھونز سے حاصل ہونے والے اربوں روپے مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے جلسے جلوسوں پر خرچ کئے جانے کا انکشاف ہوا تھا۔ یار لوگوں نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ جب ڈونرز کو کوئی اعتراض نہیں تو دیگر لوگوں کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے یہ تین ٹیلی تھون کئے گئے اور دعویٰ کیا گیا کہ سیلاب متاثرین کے لئے ڈونرز نے 15 ارب روپے دینے کا اعلان کیا تھا۔ علاوہ ازیں عمران خان نے اس سلسلے میں اندرون ملک اور بیرون ملک امداد بھی وصول کی تھی۔ اس سلسلے میں پنجاب اور خیر پختونخوا میں صوبائی حکومتوں کے اکائونٹس میں بھی امدادی رقوم آئیں، انصاف ریلیف فانڈیشن امریکہ نے بھی سیلاب متاثرین کے لئے امدادی چیک وصول کئے۔ تاہم 14جون 2022ء سے سیلاب متاثرین کے نام پر جو بھی فنڈز اکٹھے کئے گئے اس کی کوئی تفصیل کسی بھی جگہ پیش نہیں کی گئی۔ اربوں روپے کے ان جمع شدہ فنڈز کن متاثرین کو دیئے گئے یا پھر انہیں کس قسم کی فلاحی سرگرمیوں پر خرچ کیا گیا یا کس جلسے پر اس مد میں سے کتنے روپے لگائے گئے۔ اس کی بھی کوئی تفصیل کسی جگہ موجود نہیں ہے۔ البتہ عمران خان نے ثانیہ نشتر کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ سیلاب متاثرین کے لئے جمع کی گئی رقم میں سے ایک ارب روپیہ سندھ کے سیلاب زدگان کو دیں گے۔ تاہم اس مد میں بھی آج تک کوئی رقم فراہم نہیں کی گئی۔ نومبر 2022 میں جب پاکستان میں پی ٹی آئی کی جانب سے امریکی غلامی نامنظور کے نعرے گونج رہے تھے تو انہی دنوں عالمی سطح کے معتبر ترین امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل میں شائع مضمون میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ مضمون نگار نے لکھا کہ ( نعوذباللہ) اگر فوج بکھرتی ہے تو اس کے بعد پاکستان بھی نہیں بچے گا۔ اخبار نے یہ بھی لکھا تھا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ایک سینئر فوجی افسر ( باجوہ) کو عوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنانا انتقامی کارروائی اور سول ملٹری تعلقات کو بڑا نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ اخبار کے مطابق عمران خان کا فوج کے لئے پیغام واضح ہے کہ میرے لئے نہیں کھیلو گے تو تمہیں ڈس کریڈٹ کرنے کے لئے ہر حد تک جاں گا۔ اخبار نے لکھا تھا کہ عمران خان کا طرز عمل صاف بتا رہا ہے کہ وہ بطور ادارہ فوج کو بدنامی کی حد تک لے جانا چاہتے ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل کے اس مضمون میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ عمران خان کی بلیک میلنگ کے آگے سر جھکانا فوج کے لئے ایک برا آپشن ہوگا۔ موجودہ صورت حال میں فوجی قیادت کے سامنے چند اچھے آپشن بھی ہیں تاہم عمران خان کی بلیک میلنگ کو تسلیم کرنا ادارے کو کمزور کرنے کے مترادف ہوگا۔ مضمون نگار کے مطابق پاکستان میں فوج کے کردار پر تنقید بھی کی جاتی ہے لیکن ملک کے لئے اس کی شاندار خدمات زیادہ اہم ہیں۔ یہ فوج ہی ہے جس نے بھارت سمیت دیگر پاکستان مخالفین کو مشکلات میں پھنسائے رکھا ہے اور فوج نے ایک غیر فعال ملک میں ایک فعال ادارے کے طور پر اپنے آپ کو منوایا ہے۔ فر فر انگریزی بولنے والے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو امریکی میڈیا کے اس معتبر رسالے میں نومبر 2022میں شائع ہونے والے اس مبنی بر حقیقت آرٹیکل کو پڑھ کر ہی سمجھ جانا چاہیے تھا کہ امریکی میڈیا پاکستان کے سیاسی اور انتظامی معاملات پر کس قدر مناسب اور موزوں اظہار خیال کر رہا ہے اور ان کو اپنے سیاسی مقاصد کے کن پہلوں کی اصلاح کی ضرورت ہے مگر افسوس کہ انہوں نے اپنی روش ترک نہ کی اور پاک فوج کی قیادت پر تنقید سمیت ملکی مفادات کو بھی اپنی سیاسی مہم کے مقابلے میں ہیچ جانتے ہوئے دو قدم مزید آگے بڑھ کر ملک کے ڈیفالٹ کے خطرات اور معاشی بدحالی کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لئے مشتہر کیا۔ اب جبکہ امریکہ میں ان کے لئے لابنگ بھی ہو رہی ہے پھر بھی امریکی میڈیا حقائق سے ہٹ کر کچھ لکھنے پر آمادہ نہیں۔ گزشتہ روز اسی امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل میں ایک تازہ آرٹیکل شائع ہوا ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ عمران خان اقتدار میں آنے کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار ہے اور امریکی بھی اس حوالے سے مخمصے کا شکار ہے۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے جہاں یہ لکھا ہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان دوبارہ اقتدار میں آنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ وہاں یہ بھی خبر دی ہے کہ 70سالہ سابق وزیراعظم جنہیں پارلیمنٹ کی جانب سے عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ ان کا حکومت سے نکلنے کے ایک برس بعد دوبارہ واپسی کا عزم امریکی حکومت کے لئے بھی ایک مخمصے کا باعث ہے۔ اخبار کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ عمران خان کا طرزِعمل آمرانہ ہے اور ان کے اندر بنیاد پرستی کے لئے ہمدردی موجود ہے۔ رپورٹ کے مطابق عمران خان کا دوسری مرتبہ حکومت میں آنا ممکنہ طور پر پاکستان کے اندرونی مسائل میں مزید اضافہ کر دے گا اور پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی خرابی کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے اس تازہ آرٹیکل کے مطابق عمران خان کی جماعت 2013کے انتخابات میں حاصل کیے گئے ووٹوں کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر رہی لیکن پھر 2018میں فوج کی مدد سے وہ انتخابات جیت گئی اور صرف تین برس میں ہی عمران خان کا اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ، جنہوں نے انہیں اقتدار میں لانے کے لئے انتہائی اہم کردار ادا کیا، کے ساتھ جھگڑا ہو گیا جس کی ابتدا آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کی تقرری کے معاملے پر ہوئی اور پھر بالآخر عمران خان کی حکومت تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں ختم ہو گئی۔ جریدے کے مطابق نومبر میں عمران خان پر ایک ناکام قاتلانہ حملہ بھی ہوا جس کا الزام وہ فوج اور حکمراں اتحاد پر عائد کرتے ہیں۔ مزید لکھا کہ رواں برس جنوری میں عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی پارٹی کی صوبائی حکومتوں کو ختم کر کے قبل از وقت قومی انتخابات کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تھی۔ وال سٹریٹ جرنل نے مزید لکھا کہ عمران خان نے غیر ملکی صحافیوں کے ساتھ انٹرویوز میں نئے آرمی چیف کو تنقید کا نشانہ بنایا جس کے بعد ان کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف نفرت انگیز پراپیگنڈا کی بھرمار کر دی۔ فوج کے خلاف تنقید کرنے میں سینئر صحافی بھی اعتدال سے کام لیتے ہیں لیکن گزشتہ ایک برس میں عمران خان کے حامیوں نے کھلے عام فوج اور آرمی چیف پر تنقید کرنا شروع کر رکھی ہے۔ جریدے کے مطابق عمران خان دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی خاطر کسی بھی حد تک جانے سے گریزاں نہیں ہیں۔ جس سے اس دلیل کو تقویت ملتی ہے کہ عمران خان دوبارہ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے قابلِ بھروسہ نہیں ہیں۔

جواب دیں

Back to top button