تازہ ترینخبریںپاکستان

چیف جسٹس نے انتخابات کیلیے ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز دے دی

چیف جسٹس آف پاکستان نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے لیے ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز پیش کر دی۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ کا لارجز بینچ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سماعت کر رہا ہے۔ چیف جسٹس نے انتخابات کے لیے ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز دے دی ہے۔

الیکشن منسوخ کرنے کیخلاف درخواست کی سماعت دوسرے روز شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے جس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تاہم بحران سے نمٹنے کے لیے قربانی دینا ہوتی ہے۔ 5 فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ترکیہ میں صرف زلزلہ متاثرہ علاقوں کے علاوہ ہر جگہ الیکشن ہو رہے ہیں۔ یہاں تو ایمرجنسی لگا کر اہی الیکشن ملتوی کیے جا سکتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ بھی کہتا ہے کہ جہاں مسئلہ ہو وہاں پولنگ منسوخ ہو سکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ پورا الیکشن ہی ملتوی کر دیا جائے۔

دوران سماعت ایبسلوٹلی ناٹ کا تذکرہ بھی ہوا جب چیف جسٹس نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات کرتا ہے؟ ایبسلوٹلی ناٹ تو آپ نے کسی اور کو کہا تھا۔ ان کے اس ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیا بجٹ میں انتحابات کے لیے فنڈز مختص ہیں؟ اگر فنڈز نہیں ہیں تو فنڈز لینے کا طریقہ کار آئین میں درج ہے۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ گزشتہ سال چیف الیکشن کمشنر نے بتایا تھا کہ وہ نومبر2022 میں الیکشن کے لیے تیار ہیں۔ اب الیکشن کمیشن اچانک کہتا ہے کہ فنڈز نہیں ہیں۔ فنڈز نہ ہونا الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی بہانہ نہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق انتحابی عملہ موجود ہے۔

بیرسٹر علی ظفر کا مزید کہنا تھا کہ سیکیورٹی اہلکاروں کی عدم دستیابی کا ذکر کیا گیا ہے۔ پولیس نفری کم ہونے کا بہانہ تو ہمیشہ رہے گا۔ سیکیورٹی فراہم کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وہ اختیار استعمال کیا جو اسکا تھا ہی نہیں۔ الیکشن کمیشن ہائیکورٹ سے بھی رجوع کرسکتا تھا۔

علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا تو معاملہ یہیں آنا تھا۔ اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین واضح ہے کہ سپریم کورٹ فیصلے پر عملدرآمد ہائیکورٹ نے کرانا ہے، ہائیکورٹ جانے میں آپ کو کیا مسئلہ ہے جس پر وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ وقت کی قلت ہے اور مزید چارہ جوئی میں مزید وقت ضائع نہیں کرسکتے۔ معاملہ 2 صوبوں کا ہے ایک ہائیکورٹ عمل نہیں کرا سکتی۔ عوامی مفاد کا معاملہ ہے مناسب ہوگا سپریم کورٹ خود کیس سنے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے احکامات کو تبدیل نہیں کر سکتی۔

علی ظفر ایڈووکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اداروں کو ہدایات جاری کر سکتا ہے۔ ادارے عملدرآمد نہ کریں تو عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے عدالت کو کہا تھا وہ تاریخ مقرر نہیں کر سکتے۔

پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن اکتوبر میں پھر کہہ دے حالات ٹھیک نہیں تو کیا الیکشن جنوری تک جا سکتے ہیں؟ آئین کا پہلا اصول اسلام اور دوسرا جمہوریت ہے اور جمہوریت انتخابات سے ہی ہوتی ہے۔ عدالت فیصلہ کرے تو آئی ایم ایف اور دوست ممالک خوش ہوں گے۔ قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں کیونکہ غیر آئینی اقدام کے خلاف عدالت ہی آخری دیوار ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیکشن 58 کا اختیار کمیشن کو الیکشن ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے ہے۔ اگر الیکشن کمیشن اپنا حکم واپس لے کر کہے کوئی مدد نہیں کر رہا تو کیا ہوگا؟ اپنی مشکلات حل کرانے کے لیے کمیشن کو عدالت ہی آنا ہوگا۔

بیرسٹر علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے پر اٹارنی جنرل روسٹروم پر آگئے جب کہ مقدمے کی سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دی گئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button