تازہ ترینخبریںپاکستان

تنخواہ میں 5 فیصد کٹوتی سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے : سپریم کورٹ

چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے، حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے، 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے، 5 فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی لارجر بنچ میں شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ امید ہے آپ کی معاونت سے مستفید ہونگے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کے انتخابات ملتوی کرنے کے اختیار کو دیکھ رہے ہیں، سیاسی جماعتوں کو نوٹس کرنے کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے، تحریک انصاف کے وکیل اور اٹارنی جنرل کو سنیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری درخواست ہے کہ سیاسی ماحول بہتر کیا جائے، موجودہ سیاسی ماحول بہت خراب ہے، اس سماعت کو بہت لٹکانا نہیں چاہتے، کل کے حکم نامے کے مطابق الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو دیکھنا ہے، رول آف لاء اور جمہوریت ایک سکے کے دو رخ ہیں

اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے گزشتہ روز کے ججز کے اختلافی فیصلے کا حوالہ دیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قانون نے صدر مملکت کو الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار دیا ہے، عدالت کا یکم مارچ کا فیصلہ اس وقت موجود ہے، انتخابات کا اعلان صدر مملکت کرچکے تھے، عدالت میں جو کاروائی ہوئی تھی وہ تاریخ مقرر کرنے کی نہیں بلکہ جو تاریخ مسترد کی گئی تھی اس پر تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جمہوریت حکومت کا ایک ایسا نظام ہے جس سے نظام چلایا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی، عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے۔

اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے، جمہوریت کیلئے انتخابات ضروری ہیں، تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے، اس معاملے کو دوبارہ اٹھا کر عدالت میں پیش نہ کیا جائے، ہم ہائیکورٹ کے حکم کیخلاف اپیل نہیں سن رہے، پارلیمنٹ  کی پریکٹس کو موجودہ کیس میں نہیں دیکھ رہے، کچھ بھی ہو یہ کیس باقی معاملات سے مختلف ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ موجودہ درخواست کے قابل سماعت ہونے کو بھی دیکھا جائے۔ جسٹس جمال خان نے کہا کہ عدالت یہ دیکھ رہی ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ کتنی اکثریت کا ہے اس کا جائزہ بعد میں لیا جا سکتا ہے۔

سماعت کے دوران اٹانی جنرل نے نقطہ اٹھایا کہ موجودہ کیس میں استدعا ہی فیصلے پر عملدرآمد کی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ بنچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ درخواست ہے کہ یہ اہم معاملہ ہے اور بنچ اگر مناسب سمجھے تو فل کورٹ بنا دے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ کتنے ارکان کا ہے یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے، یہ بتائیں کہ کیا 90 روز میں انتخابات کرانا آئینی تقاضا نہیں ہے ؟ کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کر سکتا ہے ؟ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ کلیئر کرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکور ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ آٹے کیلئے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں، تحریک انصاف اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ملکی حالات کو بہتر کیا جائے، تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے۔ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی اعلی قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے۔

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے اپنی سیاسی قیادت سے بات کی ؟ پی ٹی آئی کو پہل کرنی ہوگی کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا ہے، ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے، آپس میں دست و گریبان ہونے کے بجائے لوگوں کا سوچیں۔

وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ انتخابات میں تاخیر ہوئی تو یہ بحران مزید بڑھے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن 90 دنوں کے اندر الیکشن شیڈول دینے کا پابند ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک بار تاریخ کا اعلان کر دے تو واپس نہیں لے سکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بدقسمتی سے کسی کو کوئی شک نہیں کہ 90 دنوں میں انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے، ایک سوال یہ ہے کہ کیا اس معاملے کو جمہوری طریقے سے حل نہیں کیا جاسکتا تھا؟۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین انتخابات کے بنیادی حق میں کسی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا، ماضی قریب میں الیکشن میں تاخیر کیلئے کوششیں کی گئیں، الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ ہم تاریخ نہیں دے سکتے گورنر کہتا ہے کہ تاریخ دینا میرا اختیار ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اس عدالت کے حکم پر عملدرآمد ہوچکا ہے اس بنا پر الیکشن شیڈول دیا گیا۔

جسٹس امین الدین خان نے پوچھا کہ کیا الیکشن شیڈول 90 دن سے کم کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس 90 دن کے اندر شیڈول ایڈجسٹ کرنے کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن بظاہر نوے دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کی ہمارے ملک میں کوئی پرواہ نہیں کرتا، الیکشن تو ہر صورت ہونے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اب 90 دن سے زیادہ تاریح کون بڑھائے گا ؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلی منتحب نمائندے ہوتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر وزیراعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے۔ جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد آجائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا پارلیمنٹ کو اس معاملے کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ جس پر پی ٹی آئی وکیل علی طفر نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیراعلی کے اختیار پر پارلیمنٹ بحث کرسکتی ہے، عدالتی احکامات پر عملدرآمد پنجاب کی حد تک ہوا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ کا تعین کرنے کا اختیار ہے، کیا الیکشن کمیشن صدر کی تاریخ کو تبدیل کر سکتا ہے، الیکشن کمیشن کے پاس کونسا قانونی اختیار ہے جس کی بنیاد پر نئی تاریخ کا اعلان کیا ؟ جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس ایسا کوئی قانونی سہارا نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وجوہات بتا کر کہا آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہیں، اگر الیکشن کمیشن آٹھ اکتوبر کی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا ؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن تاریح تبدیل کرنے کیلئے صدر سے رجوع کرسکتا تھا، تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں، وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی الیکشن کمیشن رجوع کرسکتا ہے۔

پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 220 تمام حکومتوں اور اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے، الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے موقف لے کر فیصلہ لکھ دیا، عدالت الیکشن کمیشن سے پوچھے کہ آئینی اختیار استعمال کیوں نہیں کیا، انتظامی ادارے تعاون نہ کریں تو آرٹیکل 5 کا اطلاق ہوگا، الیکشن کمیشن کے مطابق آرٹیکل 254 الیکشن منسوخ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ الیکشن کی تاریخ پہلے ہی 90 دن کے بعد کی تھی، کیا 90 دن کے بعد کی تاریخ درست تھی ؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ اب بھی عدالت حکم دے تو 90 دن میں الیکشن نہیں ہو سکتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صدر نے بھی الیکشن کی تاریخ 90 دن کے بعد کی دی، آرٹیکل 254 کا سہارا کام ہونے کے بعد لیا جا سکتا ہے پہلے نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عملی طور پر الیکشن 90 دن میں ممکن نہ ہوں تو عدالت حکم دے سکتی ہے۔ جسٹس منیب نے کہا کہ ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو جائے تو ایک ہی دن انتخابات کیلئے رجوع کیا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن ازخود ایسا حکم جاری نہیں کر سکتا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن چھ ماہ الیکشن آگے کر سکتا ہے تو دو سال بھی کر سکے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے یہاں آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیئے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہوگا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہوگا۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ جس بنیاد پر الیکشن ملتوی ہوئے اس طرح تو کبھی الیکشن نہیں ہو سکتے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر فنڈز کا معاملہ ہے تو نگراں حکومت فنڈز کیسے دے گی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو مسائل آج ہیں وہ 8 اکتوبر کو کیسے نہیں ہوں گے؟۔

جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ ان انتخابات پر کتںنا خرچہ آ رہا ہے ؟ جس پر حکام الیکشن کمیشن نے کہا کہ ان انتخابات پر 20 ارب سے زائد کا خرچہ آئیگا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں نے وزیر خزانہ کا ایک بیان پڑھا جس میں کہا گیا فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں 500 ارب جمع ہوئے ہیں، یہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ کہاں پڑا ہوتا ہے ؟ 500 ارب کی ٹیکس وصولی میں سے 20 ارب کا خرچہ نکالا جاسکتا ہے۔

پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس کا جواب وزارت خزانہ والے دے سکتے ہیں، الیکشن کمیشن کو وزارت خزانہ نے فنڈز کی فراہمی سے انکار کر دیا۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ انکار وزارت خزانہ کیسے کرسکتی ہے؟۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کے مطابق سیکرٹری خزانہ نے کہا فنڈز دینا مشکل ہوگا، وزارت خزانہ نے مشکل کہا تھا انکار نہیں کیا تھا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سیکرٹری خزانہ نے تو کہا الیکشن کیلئے فنڈز نہ ابھی ہیں نہ آگے ہوں گے، اس کا مطلب ہے کہ الیکشن تو ہوں گے ہی نہیں، حکومت کا کوئی سیکرٹری ایسا بیان کیسے دے سکتا ہے، ٹیکس جمع ہو کر فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ علی ظفر آپ عدالت کو معاملے کی اہمیت کے بارے میں بتائیں، ترکی میں الیکشن کا اعلان کر دیا گیا سوائے ان علاقوں کے جہاں زلزلہ آیا، آئین کی شقوں میں موجود ہے کہ خراب ترین صورتحال میں انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں، کیا اس وقت ایسی ایمرجسنی کی صورتحال ہے کہ انتخابات نہ ہوں۔ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ایسے ایمرجنسی کے حالات نہیں کہ انتخابات ملتوی کئے جائیں۔

وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ کے اخراجات پارلیمنٹ کی منظوری سے خرچ ہوتے ہیں۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر اسمبلی تحلیل ہوجائے تو کیا فنڈ جاری ہی نہیں ہو سکیں گے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ موجودہ کیس میں قومی اسمبلی موجود ہے، نئی اسمبلی اخراجات کی منظوری دیتی ہے، سیکرٹری خزانہ کے بیان کا جواب الیکشن کمیشن ہی دے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیکرٹری خزانہ منظور کردہ بجٹ سے ہٹ کر فنڈ کیسے دے سکتا ہے۔

وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ یہ تکنیکی نقطہ ہے کے پیسے کہاں سے آنے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کیلئے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے، حکومت اخراجات کم کر کے بیس ارب نکال سکتی ہے، ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے، معاشی بحران کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بحران سے نمٹنے کیلئے قربانی دینا ہوتی ہے۔

چیف جسٹس بندیال نے کہا کہ پانچ فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے، خیبرپختونخوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سب سے زیادہ آپریشن کیے، پنجاب میں اب تک صرف 61 آپریشن ہوئے، سندھ میں 367 جبکہ خیبرپختونخوا میں 1245 آپریشن ہوئے، پنجاب کی صورتحال خیبرپختونخوا سے مختلف ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ بھی کہتا ہے کہ جہاں مسئلہ ہو وہاں پولنگ منسوخ ہو سکتی ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ پورا الیکشن ملتوی کر دیا جائے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایمرجنسی میں ہی الیکشن ملتوی کیے جا سکتے ہیں، کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات کرتا ہے۔ جس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ ”ابسلوٹلی ناٹ”

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ابسلوٹلی ناٹ تو آپ نے کسی اور کو کہا تھا۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر عدالت میں قہقے لگ گئے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل پی ٹی آئی وکیل سے استفسار کیا کہ ہم حکم دے دیں تو کیا الیکشن ہوگا۔ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن تو ہر صورت ہونا ہے، خود الیکشن کمیشن نے پہلے شیڈول دیا پھر اسے منسوخ کر دیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا بجٹ میں انتحابات کیلئے فنڈز مختص ہیں، اگر فنڈز نہیں ہیں تو فنڈز لینے کا طریقہ کار آئین میں درج ہے۔

وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ سال چیف الیکشن کمشنر نے بتایا تھا کہ نومبر 2022 میں الیکشن کیلئے تیار ہیں، اب الیکشن کمیشن اچانک کہتا ہے فنڈز نہیں ہیں، فنڈز نہ ہونا الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی بہانہ نہیں، الیکشن کمیشن کے مطابق انتحابی عملہ موجود ہے، سیکیورٹی اہلکاروں کی عدم دستیابی کا ذکر کیا گیا، پولیس نفری کم ہونے کا بہانہ تو ہمیشہ رہے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ میرے سابق چیف جسٹس کو قتل کر دیا گیا، کیا یہ ٹھوس وجہ نہیں ہے۔ جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ ایسی بھی وجہ نہیں ہے الیکشن نہ کروائے جائیں، کیا نگران حکومت نفری دینے سے انکار کرسکتی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وہ اختیار استعمال کیا جو اسکا تھا ہی نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن ہائیکورٹ سے بھی رجوع کرسکتا تھا۔ جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا تو معاملہ یہیں آنا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین واضح ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہائیکورٹ نے کروانا ہے۔ اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ معاملہ دو صوبوں کا ہے ایک ہائیکورٹ عمل نہیں کروا سکتی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے احکامات کو تبدیل نہیں کر سکتی۔

وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے مناسب ہوگا سپریم کورٹ خود کیس سنے۔ جسٹس امین الدین خان نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن انتظامی اداروں کیخلاف خود کاروائی کر سکتا ہے۔ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اداروں کو ہدایات جاری کر سکتا ہے، ادارے عملدرآمد نہ کریں تو عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن نے عدالت کو کہا تھا وہ تاریخ مقرر نہیں کر سکتے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بعد میں آٹھ اکتوبر کی تاریخ کیسے دی۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اکتوبر میں پھر کہہ دے کہ حالات ٹھیک نہیں تو کیا الیکشن جنوری تک جا سکتے ہیں، عدالت فیصلہ کرے تو آئی ایم ایف اور دوست ممالک خوش ہوں گے، قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں، غیر آئنی اقدام کیخلاف عدالت ہی آخری دیوار ہے، آئین کا پہلا اصول اسلام دوسرا جہموریت ہے، جہموریت انتحابات سے ہی ہوتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سیکشن 58 کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس الیکشن ایکٹ پر عملدرآمد کیلئے ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن اپنا حکم واپس لے کر کہے کہ کوئی مدد نہیں کر رہا تو کیا ہوگا ؟ اپنی مشکلات حل کروانے کے لیے کمیشن کو عدالت ہی آنا ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بال وفاقی حکومت کی کورٹ میں پھینکی ہے، جواب بالاخر وفاقی حکومت کو ہی دینا ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا حکم نامہ چیلنج کیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے اضافی دستاویزات کیلئے سپریم کورٹ سے وقت مانگا اور کہا کہ جو اجلاس ہوئے ان کے منٹس پیش کرنا چاہتے ہیں، کل تک وقت دیں۔ جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ کل تک وقت نہیں دے سکتے، آپ دلائل کا آغاز کریں کل دوبارہ موقع دے دیں گے۔

ن لیگ کے وکیل اکرم شیخ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ عدالت نے سیاسی جماعتوں کو بھی سننے کا کہا تھا، عدالت فریق بنائے اور تحریری جواب کے بغیر کیسے سن سکتی ہے ؟ جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ پہلے قانونی نکات طے ہو جائیں پھر آپ کو بھی موقع دینگے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button