ColumnQaisar Abbas

اپرشاہنی،دلکش سفر .. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

 

شاہنی گلیشئیر بہت پیچھے رہ گیا اور ہم تینوں بلند ہوتے گئے ۔ ہمارے سامنے بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان ایک ایسی وادی تھی جو سبزے سے بھری تھی۔ گھاس کے میدان کے گرد برفانی چوٹیوں کا حصار تھا ۔پاکستان کے شمال میں ایسے میدان ہیں جو انسان کو تروتازہ کر دیتے ہیں ۔ دیوسائی، راما اور فیری میڈو جیسے اس میدان میں بھی بلا کی کشش تھی ۔ برف کے سائے میں اس گھاس پر چند آوارہ مزاجوں نے خیمے نصب کر رکھے تھے ۔
آج یہیں قیام کر کے واپس چلتے ہیں، عثمان نے سرگوشی کی ۔ مگر ہم تو نلتر پاس تک جانا چاہتے تھے اور اس کوہ قاف کے پار نلتر پکھورا ٹریک ایسے مناظر لیے ہوئے تھا جس کے لیے ایسے کئی خطرات مول لئے جا سکتے تھے ۔ اس میدان میں لگے خیمے کرائے پر دستیاب تھے اور قیام و طعام کی ساری سہولتیں موجود تھیں ۔ ہم یہیں رک گئے ۔ایک یادگار شب ہماری یادوں میں اضافہ کر گئی ۔
اپر شاہنی کے میدان میں شب بسری ہر آوارہ گرد کے حصے میں نہیں آ سکتی ۔ صرف ان کے نصیب میں لکھ دی جاتی ہے جو جنون میں مبتلا ہو کر ادھر آتے ہیں ۔صبح کا معمولی ناشتہ ہمیں پھر سے چلنے کی سکت عطا کر گیا ۔
شاہنی گلیشئیر کے کناروں پر چلتے چلتے ہم تین گھنٹوں میں اپر شاہنی پہنچ سکتے تھے۔ ڈھلوان چراگاہوں کا ایک وسیع میدان جس میں خانہ بدوشوں کے جھونپڑے بڑے بنگلوں سے بھی بھلے لگتے تھے ہمیں اپنی طرف کھینچتا تھا ۔ پھولوں کے درمیان بنے راستے پر چلتے ہوئے ہم نے ندی عبور کی اور برف کے ستونوں پر ایستادہ شفاف ندیوں والے میدان کے قریب آ گئے جس کی بلندی تیرہ ہزار فٹ تھی ۔
جس میدان میں گھوڑے اور یاک چرتے پھرتے تھے ، وہی اپر شاہنی میدان تھا اور ہم اس پر قدم دھر چکے تھے ۔
بادل برسنے کو بے تاب تھے اور ہمیں واپس جانا تھا ۔ دو دن بعد عدالتوں میں چھٹیاں ہونے والی تھیں اور پھر پندرہ روز بعد کی تاریخ ملنے کو تھی ۔ عثمان ہماری آوارہ گردی سے تنگ تھا مگر مصلحت اسے چپ رکھے ہوئے تھی ۔ درہ نلتر کے نیچے اپر شاہنی کا بیس کیمپ تھا اور وہاں تک جانے میں اب ہمیں کوئی نہیں روک سکتا تھا ، عثمان کی عدالتی پیشی بھی ہمارے شوق آوارگی کو روک نہیں سکتی تھی ۔ میں نے ساتھیوں کو تسلی دی کہ بس آج کی بات ہے ۔ گرتے ، پھسلتے ، تھکتے ہم سرخ پتھر کیمپ تک پہنچ گئے ۔
اپر شاہنی ، سرخ پتھر کیمپ اور درہ نلتر ، یہ تکون اب ہماری خواہشات کا حاصل تھی ۔ اس راستے میں پھول تھے ، برف تھی ، ندیاں تھیں اور اب ہریاول بھرا میدان تھا ۔ وادئ اشکومن کے گاؤں پکھورا سے اتر کر ہم گلگت جانا چاہتے تھے کیوں کہ واپس نلتر زیرو پوائنٹ جانا اب مزید طویل مسافت اور تین ایام سفر کا متقاضی تھا ۔
ہم گلگت کورٹس میں آئے تھے اور کہاں کہاں بھٹک رہے تھے ۔ ہمارے فون نمبرز خاموش تھے ۔ وادئ اشکومن کی کشش تھی اور گزشتہ سفر کے دوران رہ گئے کچھ خواب تھے۔بے شمار برفیلی ندیاں ہمارے قدموں کو روکتی رہیں مگر ہم چلتے رہے ۔
اس وادی کے لیے چلتے رہے جو ہمارے خوابوں میں تھی اور آج تعبیر بن رہی تھی۔ اشکومن وادی گلگت اور پاکستان میں افغانستان کی سرحد کے قریب سلسلہ کوہ پامیر کی واخان راہداری میں ایک وادی ہے۔ اس کا ارتفاع سات ہزار سے 12 ہزار فٹ تک ہے۔ یہ وادی بیس دیہاتوں پر مشتمل ہے، جس کی مجموعی آبادی تیس ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ یہاں کی اہم زبانیں وخی، کھووار، شینا اور بروشسکی ہیں۔ اشکومن کی قربت نصیب ہوئی تو سگنل ہمیں انٹرنیٹ کی دنیا میں واپس لے آئے ۔ انسانی آبادی نے ہمیں سرشار کر دیا تھا ۔
ہر سو پانی تھا اور پانی جو زندگی ہے ، اس زندگی میں موت تھی ۔ ایک درخت سوکھ کر موت کی علامت بن گیا تھا ،وہ سوکھا ہوا درخت شاید زندگی کی زیادہ مقدار میسر ہونے کی وجہ سے مر چکا تھا ۔جس طرح مسلسل نفرت آپ کو کھاجاتی ہے بالکل اسی طرح مسلسل محبت بھی آپ کو مفلوج کر دیتی ہے۔ توازن زندگی کا جزو لازم ہے ۔ محبت بھی ایک نشہ ہے ، نہ ملے تو جسم ٹوٹتا ہے ، بدن میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں ۔ مسلسل محبت کی دستیابی انسان کو کسی کام کانہیں چھوڑتی۔ عجیب طرح کا تکبر ہوا کی مانند مزاج میں بھر جاتا ہے ، کسی کو خاطر میں نہیں لایا جاتا ۔ بہت سےضروری رشتے آہستہ آہستہ دور ہوتے جاتے ہیں ۔ ایک محبت کی فراوانی بہت سی نفرتوں کا سبب بن جاتی ہے ۔
جھیل میں سوکھ چکا درخت بھی محبت کی مسلسل فراوانی کے ہاتھوں قتل ہو چکا تھا ۔ ہر سو زندگی تھی اور اس زندگی کے عین درمیان موت تھی۔
وسیع جھیل پہاڑوں میں گھری ہوئی تھی مگر وہ پہاڑی دیواریں اسے وسعت عطا کرتی تھیں ۔ تنگ دامنی کااحساس کہیں بھی نہیں تھا۔
ہمارے اوپر افسردگی مسلط تھی پھر بھی ہم گھنٹہ بھر یہاں ٹھہرے رہے۔ آسٹریلوی سیاح خاتون سے حجاب اورعون گفتگو کرتے رہ گئے مگر اس گپ شپ نے بھی ان پر مسلط خوف کا مداوا نہیں کیا ۔ بہت سی جیپیں درجنوںسیاحوں کو لیے بلیو لیک کی پراسرار فضا میں خلل ڈال رہی تھی اور کچھ فطرت دشمن خاموش پانی میں کنکر پھینک کراپنا تعارف کروا رہے تھے کہ ان کی تربیت میں کمی رہ گئی تھی ۔
ابھی ابھی جو موت ہوئی تھی، اس کے ساتھ ساتھ ایک موت زندگی میں بھی تو بدل گئی تھی۔ یہ بات ہم نےبچوں کو سمجھانے کی کوشش کی مگر ان کے حواس پر ایک غم چھایا تھا ۔ فوزیہ بھی اندر سے ملول تھی کہ اس کی آنکھوں میں عجیب یاسیت تھی ۔ نیلی جھیل کے عکس اس کی آنکھوں کے تحیر میں اتر آئے تھے ۔ ہمارے پاسوہاں سے بھاگ جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔
بلیو لیک سے آگے بھی اک جہاں تھا ، وہ کہاں تھا ؟ ہم بے خبر تھے اور ست رنگی جھیل سے بلیو لیک تک مختصر سفر کے دوران زندگی اور موت کا طویل فاصلہ مسلط کر دیا گیا تھا، اس فاصلے کے زماں و مکاں الگ تھے ۔ڈاکٹر عینی بھی بد حواس تھیں ، تھک چکی تھیں ۔ ہم جنگل کے افسردہ درختوں کے قریب بیٹھ گئے ۔ جھیل رفتہ رفتہ اپنا آپ ہم پر کھولنے لگی ۔ درجنوں جیپیں وہاں پہنچ چکی تھیں اور وہ تمام سیاح ماضی قریب میں رونما ہو چکے حادثےسے بے خبر تھے اس لیے جھیل ان کو کچھ زیادہ عزیز ہوئی جاتی تھی ، اس لیے انہوں نے پنجابی گیتوں پر بھنگڑےڈالنے شروع کر دئیے تھے ۔
ہمارے بچوں پر ان بھنگڑوں کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا ، اس لیے ہم نے وہیں سے واپسی کے لیے رخت سفرباندھ لیا ۔ پری جھیل ہماری بائیں جانب تھی اور چند قدم آگے دائیں جانب وہ ندی تھی جس نے ایک نوجوان کی جان لی تھی ۔ ندی کی دوسری جانب جواں مرگ موت پر ماتم تھا اور لوگ جنازے میں شرکت کے لیے جمع ہو رہےتھے ۔
ہم جائے وقوعہ سے نگاہیں بچا کر ست رنگی جھیل کے قریب آ گئے ۔ جھیل کے رنگوں میں اداسی کا رنگ نمایاںتھا۔ نیلی جھیل سے آگے ، لوئر شاہنی اور شاہنی ٹاپ کی برفوں کے سامنے بچھے سبز میدان ہمیں اپنی طرف بلاتےتھے مگر موت کا رنگ ، منظر اور مقام بدلنے پر بضد تھا ، سو ہمیں واپس لوٹنا پڑا ۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button