ColumnTajamul Hussain Hashmi

مہنگائی کا الیکشن .. تجمل حسین ہاشمی

تجمل حسین ہاشمی

 

جمہوری حکومتوں میں ساری کہانی عوام کے رائے دہی پرہی ختم ہوتی ہے، جن کے ووٹ سے عہدہ نصیب ہوگا ،بعد میں انہی کا استحصال کیا جاتا ہے ، وقت کے ساتھ سیاسی نعروں میں بھی تبدیلی آ چکی ہے ، ویسے کیا لگتا ہے کہ حکومت آٹا سستا اور پٹرول کی قیمت میں کمی سے عوام کے دل جیت لے گی؟ مہنگائی کی شرح میں تاریخی اضافہ، تاریخی حدوں کو بھی عبورکرچکی ہے، اس مرتبہ ہونے والے الیکشن میں عوام کس کو منتخب کرے گی ، یہ خوف کافی سیاسی رہنمائوں کے لیے پریشان کن ہے۔شہباز شریف حکومت اور اتحادی جماعتیں ایک ساتھ رہ سکیں گی یا زیادہ دیر ممکن نہیں ہو گا؟ عوامی دباؤ اس وقت صرف مسلم لیگ نون کے کندھوں پر ہے ، اتحادی صرف پریس ریلیز تک محدود ہیں ۔
خان حکومت کو بھی مہنگائی اور عوامی دباؤ کا سامنا تھا دباؤ کو کم کرنے کے لیے 28 فروری 2022 میں پٹرول کی قیمت میں 10 روپے کم کئے اور بجلی کی قیمت میں 5 روپے فی یونٹ کم کر کے عوام کو ریلیف دینے کی بھر پور کوشش کی تھی ، بجلی اور پٹرول کے ریلیف سے غریب کے بجٹ پر کافی اچھا اثر پڑا تھا۔ پھر کرونا میں کاروباری حضرات کو بجلی کے بلوں میں کافی ریلیف ملا ،جو چھوٹے کاروباری لوگ کے لیے بڑا ریلیف تھا۔ خان حکومت کسی حد تک اس ریلیف میں کامیاب بھی ہو چکی تھی۔ آئی ٹی سیکٹر کو جو ریلیف دیا یقیناً اس ریلیف سے پاکستان کی ایکسپورٹ اور زرمبادلہ میں کافی حد تک بہتری ممکن تھی ، آئی ٹی سیکٹر کو گین ٹیکس فری قرار دیا گیا، یہ بہت بڑا اقدام تھا، دنیا ٹیکنالوجی اور آئی ٹی سیکٹر میں اربوں ڈالرز کما رہی ہے لیکن ہمارے ہاں ابھی تک غریب اور امیر کا ڈیٹا جمع ہو رہا ہے۔ ہر دفعہ امیروں اور تاجروں کو ٹیکسز کا خوف دیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں خود کو ہی خوف زدہ کرتے ہیں کیوں زیادہ تر کاروبار سیاسی شخصیات کی ملکیت میں ہیں وزیر اعظم کی طرف سے 100 روپے سستا پٹرول کا علان اور سستا آٹا کی فراہمی جاری ہے۔ حصول کے طریقہ کار کے حوالے سے محکمہ کی ویب سائٹ سے معلومات لینے کی کوشش کی گئی کیونکہ افسر شاہی کا اپنا موڈ ہوتا ہے ، لیکن افسوس ویب سائٹ پر کسی قسم کی کوئی معلومات ہی نہیں ہیں۔ چند دن پہلے ایک نجی بینک کے افسر سے ملاقات کے دوران معلوم ہوا کہ اگر آپ کے پاس چیک موجود نہیں تو پھر بھی آپ انگوٹھے کی تصدیق کے بعد اپنی مطلوبہ رقم حاصل کر سکتے ہیں ۔ پرائیویٹ سیکٹر ٹیکنالوجی پر کام کر رہا ہے لیکن حکومتی اداروں میں آئی ٹی سیکٹر کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ حکومت کی ترجیحات میں ٹیکنالوجی نہیں بلکہ سڑکوں اور سوسائٹیز کی تعمیر ہے ، سرکاری ملازمین کام نہیں آرام کے پیسے لے رہے ہیں، حکومت کی طرف سے 100 روپے پٹرول ریلیف پیکیج کو کس طرح ممکن بنایا جائے گا، اس پر کئی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔
آئی ایم ایف کی نمائندہ ايستر پریز کا کہنا ہے کہ حکومت نے پٹرول سبسڈی کا اعلان کرنے سے پہلے مشاورت نہیں کی، بظاہر عوام اس ریلیف کو منہ کی باتیں قرار دے رہے ہیں ، عمران خان نے بھی پٹرول ریلیف دیا تھا، اپوزیشن کی طرف سے الزامات تھے کہ عمران خان کا یہ غلط فیصلہ ملکی معیشت کو ڈیفالٹ تک لے گیا ہے ۔ موجودہ حکومت اپنے اس فیصلہ کو کیسے ممکن بنانے گی۔ معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ ماہانہ 37 ارب روپے درکار ہوں گے حکومت کے لیے مینیج کرنا مشکل ہے ۔ وزیر مملکت براے پٹرولیم مصدق ملک کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل سوارکو 21 اور 800 سی سی گاڑی والے کو 30 لیٹر پٹرول سستا ملے گا۔ موٹر سائیکل والا ایک وقت میں دو لیٹر پٹرول لے سکے گا ، کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، نادار بھی اس کمیٹی کا حصہ ہو گی۔ مصدق ملک جس طریقہ کار کو بیان کر رہے ہیں اس کی عمل داری پر عوام کو یقین نہیں ہے ۔ موٹر سائیکل اور گاڑیوں کا مکمل ڈیٹا محکمہ ایکسائز کے پاس موجود نہیں ہے کراچی میں ہونے والی دہشت گردی پر سندھ حکومت نے نوٹس لیتے ہوئے عوام سے اپیل کی تھی کہ گاڑیوں کو اپنے نام پر رجسٹر کرائیں، ہزاروں افراد روزانہ کی بنیاد پر ایکسائز ڈیپارٹمنٹ میں اپنی رجسٹریشن کے لیے پریشان ہیں۔ وزیر مملکت مصدق ملک نے سستا پٹرول پروگرام کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے پہلا مرحلہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ کر کے پیسے اکٹھے کرنے ہیں اور ایک بینک اکاؤنٹ میں پیسے ڈالے جائیں گے اور پھر وہ پیسے غریبوں میں تقسیم ہوں گے۔
حکومت کئی دفعہ امیروں پر ٹیکسز لگانے کی بات کرتی رہی لیکن چور مافیا کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ،کروڑ کا مال انڈر انوائس کرتے ہیں ، اربوں کی سبسڈی لینے والوں سے حکومتیں خوف زدہ رہتی ہیں ، جن بنکوں نے ڈالر کی مصنوعی قلت پیدا کر کے 30 ارب کا چونا لگایا اس انکوائری رپورٹ پر حکومت خاموش ہے۔ سرکاری پٹرول ایدھی لنگر کی طرح بانٹا جا رہا ہے۔ خان کے دور میں خسرو بختیار نے چینی مافیا کو کیسے سپورٹ کیا میڈیا پر سٹوریز موجود ہیں ۔
ملک کے 14 کروڑ افراد غریب ہیں جو آبادی کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ بنتا ہے ، وزیر مملکت نے اس بات کی وضاحت نہیں دی کہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ کا اطلاق نصف آبادی پر لاگو ہو گا یا نہیں ، بجلی اور گیس کے ٹیرف سے امیر اور غریب کا تعین کرنے کا کارنامہ بھی مسلم لیگ نون کا ہے ۔ اس سے ثابت ہے کہ حکومت کے پاس فرد کی انکم کے ڈیٹا کا فقدان ہے ، ماضی اور موجود حکومتوں نے آئی ٹی سیکٹر پر کبھی توجہ نہیں دیا، حکومت کے پاس صرف نادرا ہے جو آبادی ، سکیورٹی سے متعلق کام کر رہا ہے ۔ اس طرز کا کوئی دوسرا ادارہ حکومت کے پاس نہیں ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے کوئی اقدامات نہیں ہیں۔اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو خودمختاری حاصل ہے لیکن آج پھر بھی ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button