ColumnImtiaz Aasi

اتفاق ہو تو ایسا ہو! ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

اتفاق ہو تو ایسا ہو!

مان لیا حکومت کے پاس فنڈز نہیں ہیں دہشت گردی کے خطرات ہیں۔کچے میں قوم پرستوں کی موجودگی،پولیس اور رینجرز کی کمی اور آپریشن کلین اپ کے لیے وقت درکار ہے ۔الیکشن کمیشن آئینی اور خود مختار ادارہ ہے گویا الیکشن ملتوی کرنے میں تمام اداروں کا ایک پیچ پر ہونا قوم کے لیے کسی خوشخبری سے کم نہیں۔سوال ہے حکومت کے پاس اکتوبر میںفنڈز کہاں سے آئیں گے جو فنڈز کا عذر پیش کیا جا رہا ہے؟
حقیقت تو یہ ہے الیکشن کمیشن کی خود مختاری اسی روز ختم ہو گئی تھی جس روز عمران خان نے اپنے محسنوں کی سفارش پر چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کیا تھا۔ عجیب تماشا ہے عدالت عظمیٰ کے احکامات نظر اندا ز کرکے الیکشن ملتوی کرناکون سی قانون کی حکمرانی ہے۔الیکشن کمیشن نے بھی خوب ڈرامہ کیا عمران خان کو خوش کرنے کے لیے پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دے دی۔ مولانا فضل الرحمن نے کچھ عرصہ پہلے پارٹی اجلاس میں کہا تھا خواہ کچھ ہو جائے الیکشن نہیں ہوں گے، سچ ثابت ہوئی۔ مولانا واقعی پہنچے ہوئے ثابت ہوئے ہیں۔کیسا ڈرامہ ہوا امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرادیئے تھے ،نون لیگ والے اسی لیے لیت ولعل کرتے رہے ۔عمران خان کی یہ بات کسی حد تک درست ہے الیکشن کمیشن کا فیصلہ قبول کر لیا تو قانون کی حکمرانی ختم ہو جائے گی۔عمران خان بڑے بھولے ہیں وہ کس ملک اور کس قانون کی حکمرانی کی بات کر رہے ہیں جہاں ایک مجرم صرف پچاس روپے کے اشٹام پر ضمانت پر بیرون ملک گیا اور واپسی کا نام نہیں لے رہا ہے۔ہمیں اس بات کی خوشی ہے الیکشن کمیشن، حکومت اور اداروں میں مکمل ہم آہنگی ہے ۔دہشت گردی کے خطرات تو کئی عشروں سے ہیں۔کیا گارنٹی ہے کچے میں قوم پرستوں کا اس عرصہ میں خاتمہ ہو جائے گا۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان مدتوں سے دہشت گردی کی زد میں ہیں۔انگور اڈا جیسے مصروف ترین مقام پر دہشت گردی کے واقعہ میں پاک فوج کے ایک سنیئر افسر اور دیگر ساتھیوں کی شہادت کے بعد حکومت کو افغانستان بارے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔عمران خان جو مینار پاکستان میں جلسے کی تیاریوں میں تھے کہ الیکشن ملتوی ہوگیاساتھ گرمی کی حدت کم کرنے کے لیے مینار پاکستان میں پانی چھوڑ دیا گیا ہے۔الیکشن ملتوی ہونے کے بعد انتخابی مہم وہیں کی وہیں رہ گئی ۔ایسے میں تحریک انصاف کے جلسے کا انعقاد ممکن ہو گا؟عمران خان کی مقبولیت کم کرنے کے لیے حکومت اور اداروں نے اچھی حکمت عملی اپنائی ہے سوال تو یہ ہے عمران خان کو عوام کے دلوں سے نکالنے کے لیے حکومت اور اداروں کے پاس کون سا نسخہ ہے جو اس مقصد کے لیے کارگر ثابت ہو سکے گا؟پیپلز پارٹی میں لاکھ برائیاں سہی یہ بات تسلیم شدہ ہے پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اداروں کو احترام کیا ہے۔آصف علی زرداری اور دیگر رہنمائوں نے عدلیہ اور اداروں کے خلاف کبھی لب کشائی نہیں کی ہے۔اس کے برعکس اداروں کی پروردہ مسلم لیگ نون عدلیہ پر حملہ اور اپنے حق میں فیصلے نہ آنے کی صورت میں جج صاحبان پر تنقید اس کا طہرہ امتیاز رہا ہے۔ایک سابق چیف جسٹس کا پوسٹراٹھائے پارلیمنٹ میں احتجاج اس امر کا غماز ہے نواز شریف کو نہ چھوڑا گیا تو لیگی جج صاحبان کے خلاف پارلیمنٹ میں احتجاج کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔
مسلم لیگ نون کی تاریخ گواہ ہے اپنے حق میں فیصلہ نہ آنے کی صورت میں اعلیٰ عدالتوں پر حملہ کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ نواز شریف نے اپنی ہونہار بیٹی کو جلسوں کی آڑ میں معزز جج صاحبان کے خلاف ہرزہ سرائی کا ٹاسک دے رکھا ہے تاکہ وہ کسی طرح وطن واپسی کی راہ ہموار کر سکیں۔آخر چیف جسٹس صاحب کو بولنا پڑا۔آڈیوٹیپس کے ذریعے عدلیہ کو بدنام کیا جا رہا ہے۔نواز شریف اور ان کی ہونہار بیٹی کو بھول ہے مشرف دور میں عدلیہ پر شب خون مارنے کی ناکام کوشش کی گئی تو وکلاء برادری کے ساتھ سول سوسائٹی کے لوگوں نے بھرپور تحریک چلا کر مشرف کو جج صاحبان کو بحال کرنے پر مجبورکر دیا تھا۔عمران خان نے درست کہا ہے کہ یہ وقت ہے قانون کی حکمرانی ،آئین کے تحفظ اور عدلیہ کے وقار کے لیے وکلاء برادری اور لوگوں کو کھڑے ہو جانا چاہیے۔وفاقی وزیر داخلہ کا یہ بیان کسی سیاسی پارٹی پر پابندی لگانا درست اقدام نہیں حالانکہ ایک خصوصی اجلاس میں ماسوائے پیپلز پارٹی کے مسلم لیگ نون اور جے یو آئی نے تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی حمایت کی تھی۔دراصل شریف خاندان اپنے خلاف کرپشن کا داغ مٹانے کی سعی کر رہا ہے جس کی ذمہ داری مریم نواز کو سونپی گئی ہے۔
مسلم لیگ نون کے پاس عمران خان کے بیائنے کا کوئی توڑ نہیں ہے۔جوکام عمران خان ساڑھے تین سالہ اقتدار میں نہیں کرسکے شہباز شریف نے چند ماہ کے اقتدار میں کردکھایا ہے جس سے مسلم لیگ نون کا رہا سہا بھرم ختم ہو گیا ہے۔ پنجاب جو کبھی لیگیوں کا قلعہ تصور کیاجاتا تھا گذشتہ ضمنی الیکشن نے مسلم لیگ نون کی عوامی خدمت کا پردہ چاک کر دیا ۔تعجب ہے ایک پاپولر لیڈر کے خلاف سو سے زائد مقدمات کے باوجود حکومت عمران خان کے خلاف کرپشن کا کوئی مقدمہ قائم نہیں کر سکی جو عمران خان کے لیے کسی اعزا ز سے کم نہیں۔پنجاب میں الیکشن ملتوی ہونے کے بعد تحریک انصاف سپریم کورٹ سے رجوع کررہی ہے ۔ایسے وقت جب حکومت اور ادارے ایک طرف ہوںعدالت عظمیٰ کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ۔حکومت پی ٹی آئی پر پابندی تو شاید لگا نہ سکے البتہ عمران خان کے خلاف لاتعداد مقدمات کے بعد جوڈیشل کمپلیکس حملہ کیس اور سوشل میڈیا پر بعض اداروں کے خلاف منفی مہم کی تحقیقات کا مقصد عمران خان کو کسی سنگین مقدمہ میں ملوث کرکے پابند سلاسل کرنے کی ایک کوشش ہے۔ہمارا ملک جس طرح کی معاشی صورت حال کا شکار ہے معاشی حالات بہتر کرنے میں کئی سال لگیں گے اور جہاں تک خیبر پختونخوااور بلوچستان میں امن عامہ کی صورت حال کی بات ہے وہ کئی سالوں سے ہے۔بہرکیف الیکشن ملتوی کرنے میں تمام اداروں کا اتفاق مثالی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button